دفتر کی میز فائلوں کے بوجھ تلے دَبی ہوئی تھی۔ سامنے اُس کا ایڈوکیٹ دوست بیٹھا کسی اہم سیاسی مسئلےپہ بحث کیے جا رہا تھا۔ وہ خاموشی سے ساری کارروائی نہ سُنتے ہوئے بھی سُن رہا تھا۔ قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص کبھی خاموش نہیں رہ سکتا۔ یہ اُن کی نفسیات بھی ہوتی ہےاور اُن کےپیشے کی اہم ضرورت بھی۔ اگر ایک وکیل بحث کر رہا ہو تو دوسرا کم ہی خاموش رہ پاتا ہے، لیکن یہاں تو آج معاملہ اُلٹ تھا۔ ایڈوکیٹ غضنفر جیسا نام وَر وکیل چُپ کی گہری چھاپ لیے بس اپنےخیالوں میں غرق تھا۔
باہر بارش کی تیز بوندوں کا شور بھی اُس کی خاموشی میں مخل نہیں ہو پارہا تھا۔ اُسے زندگی میں پہلی بار ہارسےخوف محسوس ہوا تھا۔ وہ اُن لوگوں میں سےتھا، جو ہار کی پروا کیے بنا مقابلے میں کُود پڑتےہیں اورجیت خود بخود اُن کے گرد اپنی بانہیں پھیلا لیتی ہے، لیکن یہاں کہانی ہار،جیت کی نہیں، زندگی کی تھی،جینے مرنے کا سوال تھا۔ اُسے خود پہ حیرت تھی کہ جانے کب وہ اس سفر کا مسافر بن بیٹھا اور منزل بھی کس قدر انوکھی چُن لی۔
’’جناب آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں؟‘‘ ’’کس بارے میں…؟‘‘ وہ یک دَم چونکا تھا۔ ’’کیا مطلب کس بارے میں۔ آپ مجھے سُن نہیں رہے تھے؟‘‘ ’’مَیں تو سُن رہا تھا، لیکن میری سماعت کہیں اور اٹکی ہوئی ہے شاید۔‘‘ ’’مطلب آپ ذہنی طور پہ غیر حاضر تھے۔‘‘ ’’نہیں نہیں، میرا ذہن حاضر تھا…یا شاید نہیں۔‘‘’’طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی؟‘‘’’شاید نہیں۔‘‘ایک زوردار قہقہہ دفتر کے اُس کمرے میں بلند ہوا۔ ’’کسی لاعلاج مرض کا شکار ہوگئے ہیں ایڈوکیٹ صاحب۔‘‘’’شاید یہ بھی درست ہے۔‘‘ اب دونوں کِھلکھلا کر ہنسے تھے۔ ’’ہمارے لائق کوئی خدمت ہوئی تو حکم کیجیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر دوست کمرے سے نکل گیا۔ اور وہ پیچھے اس لاعلاج مرض میں مبتلا ہونے پہ مُسکراتا رہا۔
………٭٭………
’’دل آئینے کی طرح نازک ہوتا ہے اور جانتے ہو، اُسے نازک کیوں بنایا گیا ہے؟‘‘ ’’کیوں بابا جی؟؟‘‘ ’’کیوں کہ یہ وہ جگہ ہے، جہاں انسان اپنے رب کی موجودگی کو محسوس کرتا ہے، اُسے پاتا ہے۔ اللہ کو نرم دلی محبوب ہے، نازکی پسند ہے۔ مہربانی کو وہ اپنی پسندیدہ ترین صفت بتاتا ہے۔‘‘وہ چند لمحہ ٹھہرے تھے، جیسے ماضی کےکسی لمحے میں لوٹ چُکے ہوں۔ دُکھ کی ہلکی سی لہر اُن کے چہرے پہ سب ہی نے محسوس کی تھی۔
’’ایک بات یاد رکھنا میرے بچّو! کبھی کسی انسان کا دل مت توڑنا۔ دل بہت نازک شے ہے اور خدا بھی وہیں بستا ہے۔ جب کسی کے دل کو توڑتے ہو تو اللہ تک وہ تکلیف فوراً پہنچتی ہے۔ یہاں جو تم سب بیٹھے ہو، سب ہی اپنی کسی روحانی طلب کی آسودگی کی غرض سے موجود ہو۔ سب ہی کو کوئی راہ، کوئی منزل درکار ہے۔ سب ہی خالی پیالہ بنے اپنے وجود کو بھرنا چاہتے ہو۔ کہو تو میں سب کو ایک آسان حل بتادوں، جو خود منزل بھی ہے، راہ بھی اور رفیق و رہبر بھی۔‘‘ ’’ایسی کون سی شے ہے بابا جی، جو راہ بھی ہے، رہبر بھی اور منزل بھی۔‘‘ ’’محبّت۔
میرے بچّو محبّت۔ جانتے ہو، اللہ کون ہے، اللہ محبّت ہے۔ جانتے ہو، کائنات کی تشکیل کا راز کیا ہے، محبّت۔ جس دل میں محبّت موجود ہو، وہ اللہ کا رازداں بن جاتا ہے۔ اللہ کا عشق اُس کی منزل ٹھہرتی ہے۔ وہ بندوں کی محبّت کے ذریعے اُس لافانی محبّت تک پہنچتا ہے۔ اوراُس منزل تک پہنچنے کے لیے وہ خود بھی محبّت بن جاتا ہے۔ محبّت ہی کو اپنی ہم راہی میں لے کر اُسےہی تلاشتا ہے۔ اللہ انسان میں محبّت کی صُورت موجود ہے۔ انسان جب اُسے پانے کے لیےخُود میں جھانکتا ہے، تو اپنی روح کو پہلے نفرت جیسی کثافت سے پاک کرنے کے لیے محبّت ہی اپناتا ہے۔ نفرت ہر برائی، ہر جرم کی جڑ ہے اور محبّت ہر رُوپ میں خیر ہی خیر۔ جب محبّت تمہارے گرد اپنے حصار باندھے گی تو تمہیں ہر منظر صاف نظرآنے لگےگا۔ ہردھندلے عکس سے دھند چھٹ جائے گی۔ کائنات کی ہر شے میں حقیقت صاف نظر آئے گی، وہی حقیقت جس کے تم درحقیقت متلاشی ہو۔‘‘
………٭٭………
’’حاکم نے ہمیں اپنے محل میں کھانے کی دعوت دی ہے۔ سارے خاندان کو غادہ سمیت۔‘‘ ’’تو غادہ کے باپ! آپ نے اُسے کیا جواب دیا۔‘‘ غادہ کی ماں نے سوال کیا۔ ’’مَیں نے دعوت قبول کر لی ہے۔‘‘’’یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ کی بیٹی کی حالت کیسی ہے۔‘‘ ’’کیا مطلب کیسی حالت۔ بھلی چنگی تو ہے۔ وہ تو بس اُسے گھومنے پِھرنے کا شوق ہے۔ راہ بھٹک گئی تھی۔ پیاس سے بےہوش ہوگئی۔ تم اس کے بارے میں خوامخواہ شکوک کا شکار رہتی ہو۔‘‘’’مجھے شک ہے، وہ اُس کے دربار میں بھی کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کر دے۔ تم نہیں جانتے لیکن مَیں جانتی ہوں کہ اکثر اُسے عجیب قسم کے دورے پڑتے ہیں۔‘‘
’’اللہ رحم کرے گا۔ تم تیار رہنا اور بچّوں کو بھی تیار رکھنا۔ طویل مسافت طے کرنی ہے۔‘‘خوف کے گہرے سائے غادہ کی ماں کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ اُسے اپنی اولاد میں سےاس بچّی کے بارے میں ہر وقت تشویش رہتی، جو بچپن ہی سےکھوئی کھوئی سی، الگ تھلگ اپنے کام میں مشغول رہتی۔ ہر کام اتنی نفاست سے کرتی کہ لوگ حیران ہوتے کہ یہ کسی انسان کے ہاتھوں کی تخلیق کیسے ہوسکتا ہے۔ لیکن اُس کی صحرا میں بھٹکنے کی عادت سے اُس کی ماں بہت پریشان رہتی، خصوصاًسخت بےقراری میں تو وہ صحرا میں یوں دوڑتی، جیسے کوئی ماں اپنی کھوئی ہوئی اولاد کی تلاش میں دوڑتی ہو۔
………٭٭………
آج پھر وہ آئی تھی مجھ سے ملنے۔ وہی گہری خاموشی، وہی گہری سیاہ آنکھیں۔ بےتاثر خالی چہرہ لیے۔ سات رنگوں کی دھنک سی۔ چہرہ چاندنی سے دُھلا ہوا۔ اُسے دیکھتے ہی ایک مرتبہ پھر میں اُس کے فسوں کا شکار ہو چُکا تھا۔ زبان پھر سے گنگ ہوچُکی تھی۔ قدم اُس کے سحر کے زیر اثر جکڑے گئے تھے۔ اُس دن کے برعکس، آج وہ مجھے دیکھ کے مُسکرائی تھی۔ شاید میری حالت کا اُسے اندازہ ہو چُکا تھا۔ اُس کی مُسکراہٹ کسی برق کی مانند مجھ پہ پڑی تھی۔مَیں پلک جھپکانا بھول چُکا تھا۔ وہ پھر واپس پلٹ رہی تھی۔ بِنا کچھ کہے، بِنا کچھ سُنے۔
مَیں تو کہنا چاہتا تھا، سُننا چاہتا تھا۔ مگر… جانے اُسےدیکھتے ہی میری طاقت گفتار کہاں کھو جاتی تھی۔ وہ پھر جا رہی تھی۔ مَیں روکنے کی بھرپور کوشش کررہاتھا لیکن زبان آج پھرساتھ نہ دے پائی۔ اِسی کشمکش میں میری آنکھ کُھل چُکی تھی۔ دل میں درد کی شدید لہر اُٹھی تھی۔ آہ! یہ درد…ایک وحشتوں بَھری رُوح میں درد کی دستک۔ یہ کیسا جذبہ تھا، جس میں تکلیف بھی تھی اور مٹھاس بھی۔ یہ وحشت سے کچھ الگ سا احساس تھا۔ وحشتیں تو رُوح کو ویران، بنجرکرتی ہیں، لیکن غم ایک عطا ہے۔ رُوح پہ کسی عطا کی طرح برس کر اُسے زرخیز کردیتا ہے۔ ایک لاحاصل منزل کا مسافر، سفر کے آغاز ہی سے تکلیف سہنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ سو، مجھے بھی یہی کرنا تھا۔
مجھے معلوم ہے، اس سپنے کے بعد اب نیند کئی روز تک مجھ سے روٹھی رہے گی۔ اور میں محض ایک رنگ کی صُورت اِن بےچاند راتوں میں کینوس پہ بکھرتا رہوں گا۔ میری وحشتوں میں درد کی آمیزش سے جو تخلیق اُبھرے گی، وہ دیکھنے والوں کے لیے پہلے سے بڑھ کر واہ واہ کا سامان ہوگا۔ اور مَیں اب اپنی وحشتوں کے ساتھ اپنے درد پہ بھی دنیا کو داد دیتا دیکھوں گا۔
………٭٭………
’’جب مَیں،آپ کو ثانیہ کے ذریعے اپنے فیصلے سے کئی بار آگاہ کرچُکی تھی، تو پھر یہ بار بار کا اصرار کیسا؟‘‘وہ ملتے ہی غضنفر پہ پھٹ پڑی تھی۔ ’’آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘’’یہی مَیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کیا چاہتی ہیں؟‘‘کافی دیر میز کو گھورتے رہنے کے بعد غضنفر نے ایک نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا تھا اور پھر فوراً نظریں جُھکا لیں۔ اُس کی شخصیت کا سحر ہی کچھ ایسا تھا کہ کوئی اُسے نظر اٹھا کے دیکھ نہ پاتا تھا۔ اس کی کالی سیاہ گہری گہری آنکھیں، اُٹھنے والی نگاہوں کو فوراً جُھکنے پہ مجبور کر دیتی تھیں۔
’’مَیں جو چاہتی ہوں، اُس سے مَیں آپ کو آگاہ کر چُکی ہوں۔‘‘ ’’مَیں اِس فیصلے کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’وجہ مَیں آپ کو اور نہ کسی اور کو بتانا پسند کروں گی۔ بس اتنا کہوں گی میرا یہی فیصلہ آپ کےحق میں بہتر رہے گا۔‘‘ ’’یہ فیصلہ میرے حق میں کبھی بہتر نہیں ہو سکتا۔‘‘ ’’ایڈوکیٹ صاحب بظاہرجو نظر آتا ہے، وہ درحقیقت ہوتا نہیں۔
ہر نظر آنےوالےمنظر کے پیچھے ایک حقیقی، نہ نظر آنے والا منظر رُوپوش ہوتا ہے۔‘‘ ’’مجھے آپ کا ہر رُوپ قبول ہے۔‘‘ ’’کہنا آسان ہوتا ہے، لیکن سہنا بہت مشکل۔‘‘ ’’یہ جو تکلیف میں سہہ رہا ہوں، وہ آسان ہے کیا؟‘‘ اسراء نے نظر اُٹھا کے اُسے دیکھا تھا۔ دُکھ، کرب، اذیّت گویا اُس کے چہرے پہ آویزاں تھے۔ ایک مضبوط شخصیت رکھنے والے، کبھی نہ ہارنے والے کے چہرے پہ شکست کے گہرے آثار تھے۔ اُس کی بے بسی نے اسراء کو بہت خوف زدہ سا کر دیا تھا۔
’’ایک بات یاد رکھنا میرے بچّو! کبھی کسی انسان کا دل مَت توڑنا۔ دل بہت نازک شے ہے، اور اللہ بھی وہیں بستا ہے۔ جب کسی کے دل کو توڑتے ہو تو اللہ تک وہ تکلیف فوراً پہنچتی ہے۔‘‘ بابا جی کے کہے الفاظ اُس کے ذہن میں گونجے تھے۔ محبّت میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ یہ پتھروں کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دیتی ہے، یہ شاہ کو غلام بناکے رکھ دیتی ہے۔
یہ وہ حصار ہے، جس میں دشمن خودبخود قید ہوسکتا ہے۔ یہ ایک ایساجال ہے، جس میں کبھی کبھی شکاری خود ہی پھنس جاتا ہے۔ اِس کی قید میں آنے والے اپنی خوشی و رضامندی سے تاحیات اِس قید میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ خدا کا ایک رُوپ ہے، ایک الہامی کیفیت ہے۔ اِس کی کشش انسان کو ہتھیار ڈالنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ غضنفر کی شکست خوردہ آنکھوں میں محبّت کی طاقت موجود تھی۔ اسراء عجیب کشمکش کا شکار ہو چُکی تھی۔ بابا جی کے کہے الفاظ بار بار اسے کے ذہن میں گونج رہے تھے۔
’’ٹھیک ہے، مَیں اب آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں، اگر آپ کو سمجھ آجائیں، تو مَیں اپنے فیصلے پہ نظرثانی کوتیارہوں۔‘‘ غضنفر کےچہرے پہ خوشی کی ایک لہر اُبھری تھی، جیسے تیز بارش کے بعد سورج کی کوئی کرن نمودار ہو۔
’’مَیں نارمل انسان نہیں ہوں۔‘‘ اسرا بِلاتمہید ہی شروع ہوگئی۔ ’’مَیں کون ہوں، کیا ہوں، یہ بات میرے لیے بھی آج تک ایک معما ہی ہے۔ البتہ اس بات کی خبر ضرور ہے کہ جو دنیا کے سامنے ہوں، مَیں وہ ہرگز نہیں ہوں۔ کبھی کبھی دیکھا ہے اپنا حقیقی رُوپ بھی، لیکن وہ اتنا ویران، خالی، بنجر ہےکہ کوئی دوسرااُسےسہہ نہیں سکتا۔سو، مجھے لوگوں کےسامنے ایک نیا رُوپ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اگر میرےاُس روپ کی ایک جھلک بھی دنیا دیکھ لے، تو وہ مجھے پاگل ڈیکلیئر کر دے۔
اگر آپ مجھے اُس رُوپ کے ساتھ قبول کرتےہیں تو ٹھیک۔ مگر مَیں زندگی میں ایک نارمل انسان کی طرح کچھ بھی نہیں کر پاؤں گی۔‘‘ ’’مَیں کہہ چُکا ہوں، آپ مجھے ہر حال میں قبول ہیں۔ محبّت کا مطلب محض اُن ہی خوبیوں کی قبولیت نہیں، جو آپ کو اچھی لگیں۔ بلکہ محبّت انسان کی مکمل قبولیت کا نام ہے۔‘‘ ایڈوکیٹ غضنفر نے بھی اِک لمحے کی تاخیر کیے بغیر بہت قطعیت سے اپنا فیصلہ سُنا دیا۔ ’’اُمید ہے، آپ اپنے کہے پہ قائم رہیں گے۔‘‘
کہنے کو تو اسراء نے اقرارکرلیاتھا، لیکن اِس فیصلے کے بعد وہ بےپناہ بوجھ تلے دَب چُکی تھی۔
………٭٭………
دربارسج چُکا تھا۔ مہمانوں کےاستقبال کےلیے خاص دربانوں کو مقرّر کیا گیا تھا۔ حاکم کے چہرے پہ بےپناہ خوشی کے آثار واضح تھے۔ حاکم کی والدہ بھی بیٹے کی خوشی میں بے حد خوش تھی۔ دربانوں اور منتظمین پہ خاص عنایات کی گئیں۔ انواع و اقسام کے کھانوں کا بندوبست تھا۔ دربانوں اور عوام کو صرف اتنا معلوم تھا کہ آج کسی خاص مہمان کی آمد ہے، لیکن یہ خاص مہمان کون ہے، سب ہی اس بات سے بےخبر تھے۔
’’مہمان آ چُکے ہیں۔‘‘ ایک شور سا بلند ہوا۔ چھوٹی لڑکیاں پھولوں کی پتیاں لیے مہمانوں کے استقبال کےلیےآگے بڑھیں۔ دربان کورنش بجا لائے۔ حاکم خود استقبال کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ غادہ اپنی ماں کے پیچھے چُھپی چلی آ رہی تھی۔ اُس پہ نگاہیں پڑتے ہی حاکم نگاہیں پلٹنا بھول گیا۔ وہ اُس کے تصوّر سے بھی زیادہ حسین تھی۔ اس کے فن پاروں سے کہیں بڑھ کر نفاست اُس کے رکھ رکھاؤ میں تھی۔ اُس کا اُجڑا سا بےترتیب فریبی رُوپ بھی دیکھنے والوں کواپنی طرف مقناطیسی کشش سے کھینچتا تھا۔ اور یہی حاکم کے ساتھ ہوا۔ اُسے لگا، اُس کا یہ انتظام رائیگاں نہیں گیا۔ وہ واقعی شہزادی تھی، پرستان کی شہزادی۔ زمین زادے اس کے استقبال کا جتنا بھی انتظام کرتے، کم تھا۔
’’تشریف رکھیے۔‘‘ حاکم کی والدہ نے آگے بڑھ کے اسےبیٹھنےکےلیےجگہ دی۔ غادہ اس درجہ پروٹوکول سے گھبرا گئی تھی۔ اگرچہ اُس کا تعلق بھی ایک مشہور تاجر خاندان سے تھا۔ مجلسی آداب سے وہ اچھی طرح واقف تھی، لیکن اُسے اپنی شخصیت کا یوں مرکزِ نگاہ بننا ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔ اُسے یہ سب کچھ بچپن سے شدید ناپسند تھا۔ وہ ازل سےالگ تھلگ رہنا ہی پسند کرتی تھی۔ (جاری ہے)