سنو!!
’’وقت آزاد پرندہ ہے، کب کس شجر سے رُوٹھ کر کسی اور پہ جابیٹھے۔ سو، آج وہ لکھ کے بھیج رہی ہوں، جِسےلکھنا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ ایسی کہانیاں تحریر نہیں کی جاتیں، اُنھیں بس رُوح کے قبرستان میں دفن رکھا جاتا ہے۔ شاید قلم میں اتنی طاقت ہی نہیں ہوتی کہ وہ خونِ جگر سے تحریر کردہ کہانیوں کا بار اٹھا سکے۔ اُن کی وقعت کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ خاموش رہیں۔ یہ میرے الفاظ نہیں بلکہ وہ اشک ہیں، جنھیں بہاناچاہیے تھا، مگر بہائے نہیں گئے۔ یہ میری رُوح کا وہ بین ہے، جِسے ابھی تک سوائے میرے کوئی سُن نہیں پایا۔ تمہیں مَیں نے ہمیشہ ایک اجنبی دنیا کا فرد سمجھا ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ تم عام انسانوں سے بہت ہٹ کر ہو۔ یہ اختلاف اور اجنبیت تمہارے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔
لیکن میں…! مجھ پہ تو شاید بچپن ہی سے جُدا رہنے کا بھوت سوار ہے۔ جس راہ پہ کوئی نہ چلے، مَیں اُسے منتخب کرتی ہوں۔ مَیں وہ راہ چھوڑ دیتی ہوں، جسے ہر ایک کے قدموں نے پامال کیا ہو۔ ہاں اگر اُس راہ پہ مجھے ڈال دیا جائے، تو مَیں چلنے کا جداگانہ انداز اپنا لیتی ہوں۔ آہ!میری یہی خصلت مجھے تباہ کر گئی۔ انوکھے رستوں پہ اپنےانداز میں چلتے چلتے مَیں تھک چُکی ہوں۔ اب جو رستہ میرے سامنے ہے، وہ میرا انتخاب نہیں، البتہ انداز مَیں نے اب بھی الگ اپنایا ہے۔ سُنا تھا، طریقۂ ضبط اِس راہ میں آزمایا نہیں جاتا، لیکن مجھے جُدا رہنا تھا، سو پاؤں لہو لہان ہیں، روح کے پرخچے اُڑ چُکے ہیں۔ دماغ میرے قابو سے باہر ہے، مگر مَیں نےضبط نہیں چھوڑا، کیوں کہ میرا ایمان ہے، ضبط خیر ہی خیر ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے، ضبط کے قلم اور خونِ جگر کی سیاہی سے جو کہانی میں نے تحریر کی ہے، وہ میرے بعد بھی آسمان کی بلندیوں پہ تحریر کی جائے۔ زمین مجھے میرے فن پہ ضرور داد دے گی۔‘‘ نایاب
………٭٭………
تمہارے نام!
رات کے بارہ بج چُکے ہیں۔ ایک نئی تاریخ کا آغاز ہو چُکا ہے۔ مَیں ہر سمت سے اندھیروں میں گِھرا ہوا ہوں۔ بڑھتی تاریکی کےپنجےمجھے جکڑنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ کیا، شب کی پھیلی تاریکی میرے وجود میں موجود دشت کی تاریکی سے خوف زدہ ہوچُکی ہے۔ اندھیرے ہمیشہ روشنیوں سے خوف زدہ ہی رہتے ہیں، مگر میرے وجود کی تاریکی اُنھیں مسلسل کسی کرب میں مبتلا کر رہی ہے۔ آہ! شب کی تاریکی مجھ میں موجود تاریکی سے خوف زدہ ہو کرمات کھا چُکی ہے۔
رات کے اس پُراسرار پہر کی خاموشی میں گھڑی کی ٹک ٹک مسلسل خلل ڈال رہی ہے۔ میرے گرد طواف کرتی یہ خاموشیاں میری چُپ سے ہمیشہ حسد کرتی رہی ہیں۔ اُنھیں کیا معلوم کہ مَیں نے ہونٹوں پہ جس قدر بھی خاموشی کے پہرے ڈال رکھے ہوں، میری رُوح اور دماغ میں ہمہ وقت اضطراب کے طوفان برپا رہتے ہیں۔ دماغ، خیالات کے شور میں گھرا رہتاہے، تو رُوح دن رات اپنی بربادی پہ ماتم کُناں۔ ہاں، مگر دل درد کی آماج گاہ ہو کر بھی ہونٹوں کی چُپ کی طرح بہت پُرسکون ہے۔
مَیں ایک مصوّر ہوں، مگر آج کے دن کوئی شاہ کار تخلیق کرنے کے بجائے ڈائری پہ چند الفاظ لکھ کر تمہارے نام کرنا چاہتا ہوں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ الفاظ کبھی تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ جانتی ہو، رومی کی زندگی میں شمس کی آمد محض اتفاق نہیں تھی،رومی کو رومی بننے کے لیے کسی شمس کی ضرورت تھی۔ شمس رومی کے لیے ایک آئینہ تھے، وہی آئینہ، جس میں رومی نےاپنا عکس دیکھ کےخود کو پہچانا تھا۔ ایسے ہی ہر فن کار کو خود میں موجود فن کار اور اپنے فن کی سمت دیکھنے کے لیے کسی نہ کسی آئینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تم میرا وہی آئینہ ہو، جب سے میری تخلیقات میں تمہارے رنگ شامل ہوئے ہیں، میری فن کو توجیسےکمال تک رسائی کا رستہ سُجھائی دے گیا ہے۔
وہ پہلا دن، جب میری فاتحانہ مُسکراہٹ کوتمہاری آنکھوں کی حدّت نے جیسے بھسم سا کر ڈالا تھا۔ ہونٹوں پہ فتح کی مُسکراہٹ ضرور تھی، مگر دل تاحیات شکست سے خوف زدہ ساتھا۔ مَیں خود تو جل کر راکھ ہوچُکا تھا، لیکن مجھ میں موجود مصوّر کو ایک نئی زندگی مِل گئی تھی۔ مَیں اُس ملاقات کے بعد فقط رنگ میں تبدیل ہو چُکا تھا، وہ رنگ، جو ہر شام کینوس پہ بکھر کر نئی نئی تصویروں میں ڈھلتا ہے۔ اب مَیں رنگ ہوں اور تم مصوّر کا ایک تصوّر۔
تصوّر اور تخیّل مضبوط ہو تو رنگ خُوب صُورت تصویرکی صُورت ہی اُبھرتے ہیں۔ ہرشام تم ایک تخیّل کی صُورت مجھ پہ ظاہر ہوتی ہو اور پھر مَیں تمہارا عکس لیے رنگوں کی مانند کینوس پہ بکھرتاچلاجاتا ہوں۔ میری ہر تصویر تمہارا ہی عکس بن کر سامنے آتی ہے۔ یہی میرےفن کی عروج کی کہانی ہے۔ تم نے مجھے میٹھے میٹھے درد کے رنگ سے روشناس کروایا ہے اور جانتی ہو، یہی درد ہر فن کی معراج، کائنات کے مصوّر تک پہنچنے کی راہ ہے۔ مجھے اوج تک پہنچانے کا بےحدشکریہ!! رسیم
………٭٭………
’’اسراء! غضنفر صاحب مجھےکئی کالز کرچُکے ہیں۔ آخرتم کب ملو گی اُن سے؟‘‘ثانیہ فون کرتےہی پھٹ پڑی۔ ’’تم بس فون کرتے ہی اُن صاحب کا قصّہ شروع کر دیتی ہو۔ جانے یہ بلا کب ٹلے گی۔‘‘ اسراء کی آواز سے اُس کی بےبسی صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ ’’ بس ایک مرتبہ ہی تو ملنے کا کہا ہے۔ کیوں تم دونوں نے مجھے سینڈوچ بنا رکھا ہے۔‘‘ ثانیہ کی آواز بّھرا گئی تھی۔ ’’اچھا اچھا… اب رونے نہ بیٹھ جانا،بس کچھ کام ہیں آج کل، وہ ہوجائیں پھر تمیں کوئی پریشان نہیں کرے گا۔‘‘’’ویسےآج کل کون سےایسے خاص کام چل رہےہیں، جن کا مجھے بھی علم نہیں۔‘‘ ’’بس دُعا کیا کرو میرے لیے۔ مجھے سمت مل جائے کوئی۔‘‘’’سمت تو سامنے کھڑی ہے آپ محترمہ خود ہی دیکھنا نہیں چاہیں، تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟‘‘ ’’رہنےدو تم ایسی سمت کو۔ اچھا مَیں فون رکھتی ہوں، ملاقات کا جلد بتاؤں گی۔‘‘
’’جانے کب تک ایک بہروپ کی صُورت جینا ہو گا۔‘‘ فون رکھتے ہی اسراء نے بےبسی سے سوچا۔
………٭٭………
تدمر(پالمیرا)کےاس طویل صحرا کی وحشت سمٹ کر غادہ کے وجود میں پھیل چُکی تھی۔ انگ انگ میں دیوانگی کا رقص جاری تھا۔ وہ تپتے صحرا میں برہنہ پا دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ کہاں جا رہی ہے، کیوں جا رہی ہے، اُسےکچھ معلوم نہیں تھا، البتہ اُس کے وجود میں کسی اَن جان طلب کی شدید پیاس، اُسے مزید آگے دوڑنے پہ مجبور کر رہی تھی۔ وہ گرتی پڑتی، سر پہ ریت ڈالتی بہت آگے نکل چُکی تھی۔ پاؤں خاردار رستوں سے لہولہان ہوچُکے تھے۔ جسمانی درد، پیاس، تھکاوٹ کچھ بھی اُسے محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اگر کوئی احساس باقی تھا، تو وہ ذہنی اذیّت تھی، کسی اَن جان شے کی طلب تھی۔ وہ طلب جو وحشت بن کر اُس کے پور پور سے چھلک رہی تھی۔ بہت دوڑتے رہنے کے بعد زخموں سے چُور وہ ایک جگہ حواس کھو کر گر پڑی۔
چوں کہ وہ اکثر ہی گھر سے باہر رہتی، تو کسی کو اُس کی غیر موجودگی کا احساس نہ ہو پایا۔ ویسے بھی وہ موجود ہو کر بھی کہاں موجود ہوتی تھی۔ لیکن جب شام کے سائے زمین پہ پڑنے لگے، تو اُس کی ماں کو اُس کی غیر موجودگی کھٹکی۔ کہیں ارد گرد سے جب اُس کی کوئی خیر خبر نہ آئی، تو تلاش میں گھوڑے دوڑائے گئے۔ اورپھر طویل تلاش کے بعد اُس کے بھائی کو ریت کی ایک ڈھیری میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ ریت کی قبر کے نیچے وہ زندہ لاش بنی موجود تھی۔ پانی کے قطرے حلق میں اُترتے ہی اس کے کچھ حواس بحال ہوئے۔ ابھی شاید قدرت کو اس کے مزید امتحانات مقصود تھے۔
………٭٭………
’’ہم خدا کو اپنے ہاتھ میں موجود کاسے کی نظر سےدیکھتے ہیں۔ ہرانسان شعور کی دنیا میں پہنچتے ہی اپنے ہاتھ میں ایک کاسہ تھام لیتا ہے۔ یہ کاسہ کبھی خواب، کبھی خواہش، کبھی کام یابی اور کبھی شہرت کا ہوتا ہے۔ اس کاسے کو بھرنے کے لیے وہ کبھی رکوع میں جُھک جاتا ہے اور کبھی سجدوں میں جا گرتا ہے۔ ہاتھ میں ہر وقت تسبیح اور زبان پہ ذکر جاری رہتا ہے تو اُس کے کاسے بھرتے جاتے ہیں۔ فضل اور رحمت کی برسات جاری رہتی ہے لیکن…‘‘’’لیکن کیا؟‘‘’’اُس کے اور خدا کے درمیان ایک پردہ آجاتا ہے، وہ خدا کو سخی بادشاہ سے زیادہ نہیں جان پاتا۔‘‘’’تو کیا اللہ کو جاننےکےلیےہمیں خواب دیکھنا، خواہشات رکھنا ترک کردیناچاہیے؟‘‘ ’’ہرگز نہیں۔ خواب، خواہشات انسانی فطرت کا تقاضا ہیں۔
بس، ہمیں اللہ کواس محدود کاسے کی نظر سےنہیں دیکھنا چاہیے، جو ہمارے ہاتھ میں موجود ہے۔‘‘ ’’لیکن ایسا کیسے ممکن ہے؟‘‘ ’’جانتی ہو، کبھی کبھی ہاتھ میں موجود یہ کاسے نہ بھریں تو ہم خُدا سے انا کی جنگ لڑنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم ضد پہ اُتر آتے ہیں۔ ہم خواہش کا کاسہ بھرنے کے لیے اُس کی رضا پہ اپنی رضا کو فوقیت دینے لگتے ہیں، حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ خواہش پوری ہوتی ہےتو ٹھیک، اگر نہیں ہوتی تونہ سہی۔‘‘ ’’یہ تو فقراء کی راہ ہے۔ عام انسان اس پہ کیسے چل سکتا ہے؟‘‘’’نہیں۔ فقراء اور صوفیاء نے تو اپنے ہاتھوں کے سب کاسے توڑ رکھے ہیں، وہ تو ازل سے ایک ہی کاسہ تھامے بیٹھے ہیں۔‘‘ ’’کون سا کاسہ؟‘‘
’’اللہ کے قُرب کا۔ وہ دنیا کو پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھ کر خدا سے خدا طلب کرتے ہیں۔ لیکن…اُنھیں برسوں لگ جاتے ہیں، اللہ کو پاتے پاتے۔ البتہ راضی بہ رضا لوگ وہ خُوش بخت ہیں، جو دنیا کے ساتھ اللہ کو بھی پالیتے ہیں۔ کوئی تقاضا، کوئی ضد نہیں کرتے۔جومل جائے،اُسے بہترین سمجھ کے قبول کرلیتے ہیں۔ وہ خُدا سے خُدا نہیں، اُس کی رضا طلب کرتے ہیں، مگر خُدا انھیں خُود چُن لیتا ہے۔‘‘
وہ ہمیشہ کی طرح اپنی بات مکمل کرکے اسراء کو نئی الجھنوں میں ڈال کے جا چُکے تھے۔ اُس نے اپنے دل میں جھانکاکہ خواہش نہ سہی، کسی خواہش کی ہلکی سی کونپل ہی موجودہو۔ خواب نہ سہی، کسی خواب کی راکھ ہی ہو۔ لیکن اس کے دل و دماغ میں کوئی خواب، خواہش، تمنّا سِرے سے موجود ہی نہ تھی۔ نہ دنیا پرستوں کے جیسے کئی کاسے تھے، نہ ہی اللہ لوکوں کی طرح ایک ہی تمنّا۔ وہ تو خود ایک کاسہ تھی، ایک خالی کاسہ۔ جِسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اُسے بھرنا کس شے سے چاہیے، اُس کی طلب کیا ہے۔ بالکل ایک کھوکھلا پیالہ، جو اپنے خالی پن کے سوا کچھ نہیں جانتا۔
………٭٭………
ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں فلک کے چہرے پہ سُرخی چھڑک کر اُسے ایک حسین رُوپ دے چُکی تھیں۔ اونچائی پر اُڑتا پرندوں کا منظّم غول اپنے آشیانوں کی طرف پلٹ رہا تھا۔ عظیم مصوّر نے شام کو ہر منظر سےجدا اورحسین بنایا ہے۔ اور پھر شام کی رعنائی میں ایسی کشش رکھی ہے کہ جس کے دائرے سے کوئی تخلیق کار چاہ کے بھی نہیں نکل پاتا۔
جب سے مَیں اُس سے آشنا ہوا ہوں، تصوّرات کی ایک برسات مجھ پہ کسی عطا کی طرح برس رہی ہے۔ وجہ وہ ہلکا ہلکا سا احساسِ غم بھی ہے۔ لاحاصل کی تمنّا کتنی ہی خُوش نُما کیوں نہ ہو، دل کے کسی کونے گوشے میں غم کا بیج ضرور بو دیتی ہے، جو ابتدا ہی سے اپنا احساس دلاتا رہتا ہے۔ پھر یہ بیج کونپل میں بدل کر وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن یہ غم تو قدرت کی وہ نعمت ہے کہ جس سے وہ اپنی راہیں اپنے بندوں پہ وا کرتا چلا جاتا ہے۔ غم، تخلیق کار کو تخیلّات کےنئے جہاں میں پہنچا دیتا ہے۔ محسوسات کو نئی جہت عطا کر دیتا ہے۔ پھر ایک عام شخص بھی قدرت کے رازوں کو بیاں کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے اورجِسے دنیا تخلیق کار کے نام سے پہچانتی ہے۔
فی الحال تو میرے لیے یہ نیا نیا غم ایک سرور تھا جس میں محبّت کی چاشنی بھی شامل تھی۔ میرے خالی پَن کو محبّت کی مٹھاس دھیرے دھیرے بَھر رہی تھی اور غم، وحشتوں کو آہستہ آہستہ سرکا رہا تھا۔ قدرت اپنے تصوّرات کو شام کی رعنائی کی صُورت مجھ میں منتقل کر چُکی تھی۔ اب میرےہاتھ برش تھامےجانےکس تصوّر کو صُورت کرنے جارہے تھے، میں خود بھی اس بات سے مکمل بےخبر تھا۔
………٭٭………
سوچتی ہوں…لفظوں کو تراش کر…لہو رنگ سے…مجسّمہ کوئی ایسا بناؤں…جِسے دیکھتے ہی…سب مجسّمہ ساز…دیکھتےرہ جائیں …حیرت آنکھوں میں بھرکر…مصوّر تکتے چلے جائیں …خالی سے اِک ورق پہ…حروف کے ہیر پھیر سے…تصویرکچھ ایسی سجاؤں…تصویر کشی کے ماہر بھی…جس پہ فداہوجائیں…نم آنکھوں میں…سجاکرسرمۂ اُداسی …کسی تڑپتی مچھلی کی مانند…روح ہتھیلی پہ رکھ دوں…ہر آنچ پہ پگھلتا بنتا…نازک سا…موم کا اِک دل ہو…لبوں پہ خاموشی کی…گہری سُرخی ہو…آہیں ہوں، گفتگو فقط … سانس سانس درد ہو…اَن جان ہاتھوں میں جکڑا…دماغ کچھ ایسا دکھاؤں…مجسّمہ شیشےکابناکر…اس کےگرد…باڑ پتھروں کی لگاؤں…روح میں چھنگاڑتی خاموشی …تمہیں بھی سناؤں…مگر ڈر ہےکہ…یہ نازک سا…لفظ لفظ سےتراشا…شیشےکامجسّمۂ اداسی بھی…تمہارے الفاظ کے تیروں سے…کہیں بکھر نہ جائے۔
نظم قلم بند کر کے وہ بستر پہ دراز ہو چُکی تھی۔ ڈاکٹرز نے اُسے مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن جس دماغ میں ہر لمحہ خیالات کے جھکّڑ چلتے ہوں، اُسے خواب کی حالت میں بھی سُکون حاصل نہیں ہوتا ’’شاید جب میں مرجاؤں گی تو ہر سوچ سےمکمل آزاد ہو جاؤں گی۔ لیکن مر کے بھی چین نہ پایا تو… اگر یہ نامکمل خواہشات بعد از مرگ بھی زندہ رہ گئیں تو کہاں کا امن و چین، راحت و سُکون ؟‘‘
برین ٹیومر، تخلیق کار کی سائیکی اور اس پہ لاحاصل خواہشات کا ذہنی دباؤ۔ ’’ویسے خدا انسان کو موت کے قریب اُسی وقت لے کے جاتا ہے، جب وہ موت کو قبول کرنے لیے مکمل طور پرتیار ہو۔ زندگی سے بےزار ہو کر اُسے بوجھ سمجھنے لگے۔ یہ اُس کی ذہنی تیاری ہی کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ اُس کے لیے ابدی سفر آسان ہوجائےکہ اللہ تو ہرلمحہ انسان پہ مہربان ہی ہے۔‘‘ اُس کا ذہن مسلسل عجیب و غریب خیالات کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ (جاری ہے)