• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روزنامہ جنگ9/اکتوبر 2021 کے ادارتی صفحہ پر جناب وجاہت مسعود کا کالم ’’پڑھنے والوں سے رہنمائی کی درخواست‘‘ شائع ہوا،جس میں انہوں نے بر صغیر کی آ زادی کے انتہائی بے باک اور بہادر، مخلص سالار مولانا ظفر علی خان کی ذات پر ابن سعود سے پیسے لینے کا سنگین الزام عائد کر دیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو بھرے بازار میں گالی دینے کے بعد لوگوں سے رہنمائی کے لئے کہا جائے۔ الزام لگاتے وقت کوئی معتبر حوالہ دیے بغیر محترم لکھتے ہیں کہ مولانا ظفر علی تحریک خلافت کے سلسلے میں ایک وفد کے ساتھ حجاز گئے۔مولانا نے اراکینِ وفد کی مخالفت کے باوجود ابن سعود سے تنہائی میں ملاقات کی اور واپس آ کر خلافت وفد سے الگ رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے ابن سعود کی تعریف کی۔

فاضل کالم نگار نے اسے بہت سنگین ظاہر کیا ہے جبکہ ممکن ہے کہ ابنِ سعود نے اِس موقع پر وفد کے سب سے اہم، ایک ہی فرد کو ملنا چاہا ہو یا مولانا کا باقی لوگوں سے ملاقات سے پہلے ہی اختلاف پیدا ہو گیا ہو لیکن کالم نگار صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا نے واپسی پر اپنی الگ رپورٹ پیش کی، جس سے مسلمانانِ ہند میں پھوٹ پڑ گئی۔ وہ تحریک خلافت کے خاتمے میں مہاتما گاندھی اور چورا چوری کے واقعہ کو نظر انداز کرتے ہوئے الزام مولانا ظفر علی خان پر دھر رہے ہیں، پھر مولانا عبد المجید سالک اور مولانا غلام رسول مہر کے مولانا ظفر علی خان پر ابن سعود سے پیسے لینے کےالزام کا ان کی پوری تحریر میں ذکر نہیں، ان دونوں کے روزنامہ زمیندار سے الگ ہونے کی وجوہ تاریخِ صحافت میں موجود ہیں۔ کالم نگار نے ناول نویس رئیس احمد جعفری کی تحریر کا حوالہ دیا ہے کہ مولانا ظفر علی خان کو ابنِ سعود کی کھلی حمایت کے صلے میں بھاری معاوضہ ملا لیکن کیا رئیس احمد جعفری اس وفد کے ممبر تھے اور کیا انہوں نے مولانا کے بینک اکاؤنٹ میں اچانک بہت اضافے کا سراغ لگا لیا یا کوئی ثبوت حاصل کر لیا تھا؟ کیا اپنا اخبار جاری کرنے کے بعد باہمی چپقلش کے باوجود جس کالم نویس نے ذکر بھی کیا ہے، ان بزرگوں نے مولانا کے پیسے لینے کی اپنی تحریروں میں کوئی نشاندہی کی؟ عرض یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان نہ صرف ہمارے بابائے صحافت ہیں بلکہ جدو جہدِ آزادی کے بےمثل اور بےحد قابل سالار بھی ہیں۔ انہوں نے 14برس سے زائد عرصہ قوم کے لئے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن انگریز استبداد کے سامنے نہیں جھکے۔ انہوں نے اپنی جرأت و بےباکی سے قوم کے دلوں سے اس انگریز کا خوف دور کیا جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے اردو صحافت کو وہ مقبولیت، معیار اور وقار بخشا کہ ان کے بغیر جو شاید اسے ایک صدی بعد بھی نصیب نہ ہوتا۔ وہ ہماری قوم کے محسن اور صحافت کو وہ درخشندہ روایات و اقدار بخشنے والے ہیں کہ جن پر ہمارے صحافی بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ معزز کالم نویس سے درخواست ہے کہ وہ پڑھنے والوں سے رہنمائی کے لئے پوچھنے کے بجائے، پہلے مستند حقائق تک رسائی حاصل کریں اور پھر پورے یقین و ایقان اور سچائی کے ساتھ قوم کی رہنمائی فرمائیں۔

اگر ایک بےحد محترم ہستی پر الزام عائد کر رہےہیں تو انہیں پہلے مکمل تحقیق کے بعد کسی تحقیقی مجلے میں باقاعدہ ریفرنسز کے ساتھ لکھنا چاہئے یا اخبار بھی اگر ایسا ضخیم اور حوالہ جات کے ساتھ مضمون شائع کر سکے تو شایع ہونا چاہئے۔ وجاہت مسعود ایک معتبر کالم نگار ہیں لیکن مولانا ظفر علی خان کا نام ان سے کہیں زیادہ معتبر نام ہے، اس نام کو دھندلانے والی بات ایسے سرسری انداز میں نہیں ہو سکتی۔ یہ بات تاریخی حقائق میں سے ہے کہ جب ترکوں کی مدد کے لئے بر صغیر کے مسلمانوں نے چندہ جمع کرنے کا سوچا تو تمام بڑے قائدین اور عوام الناس کی نگاہیں ایک ہی، سب سے بڑھ کر قابلِ اعتماد شخص پر جم گئیں اور وہ ظفر علی خان تھے جن کی اپیل پر کروڑوں روپے جمع ہو گئے۔ ماؤں، بیٹیوں نے اپنے زیور تک اتار کر دے دیے۔ وہ یہ رقم لے کر ترکی گئے جہاں کے لوگوں نے بےحد ممنونیت کے احساسات کے ساتھ یہ رقم قبول کی۔ واپسی کے وقت قوم نے مولانا کا ایسا زبردست استقبال کیا کہ لاہور کی فضائیں اسے بھلا نہیں پائیں گی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن سے نوجوان ان کا تانگہ ہاتھوں سے میلوں تک کھینچ کر لائے۔ سینکڑوں من پھول ان کے جلوس پر نچھاور کیے گئے۔ لاہور کی سڑکیں پھولوں سے ڈھانپی گئی تھیں۔ آج بھی مولانا ظفر علی خان کی وجہ سے اردو صحافت زندہ ہے۔ ان کا اخبار وسعت پاکر اشاعت میں دوسرے اخباروں سے کم از کم ایک سو گنا بڑھ چکا تھا۔ آپ کی شخصیت اور اخبار سے قارئین اور عوام کی محبت کا یہ عالم تھا کہ انگریز حکومت نے بار بار اس کی ضمانت ضبط کرکے اس کی اشاعت بند کی اور ہر بار عوام نے خود چندہ جمع کرکے یہ ضمانت جمع کرا دی اور زمیندار پھر سے شائع ہونے لگا۔ دنیا بھر کی تاریخِ صحافت میں کسی صحافی سے قارئین کی اس محبت کی مثال نہیں ملتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض مواقع پر ان کی دوسرے صحافیوں یا رہنماؤں سے معاصرانہ کشمکش رہی، ایسا ہر بڑے آدمی کے ساتھ ہوتا ہے، بڑوں کی اپنے حریفوں کی طرف سے محض الزام تراشی سے کبھی کسی کی عظمت میں کمی نہیں ہوتی۔ تاہم بڑوں کی ایسی کشمکش کی صورت میں کسی ایک کو حق پر سمجھ لینا ہر کسی کا حق اور اپنا اپنا انتخاب ہے۔

(صاحب تحریر سابق صدر شعبہ علوم ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین