آج 18نومبر کو سلطنت عمان میں 51سالہ قومی دن منایا جارہا ہے،ہر سال کی طرح آج کے دن بھی سلطان ہیثم بن طارق کے حکم پر دو سو قیدیوںکی عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے، قومی جذبے سے سرشار سر زمین عمان کے باسی آہنی عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ اپنا قومی دن منانے میں مصروف ہیں، آج پورے عمان میں اس عزم کا اعادہ کیا جارہا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کے لئے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو رائیگاں جانے نہیں دیں گے، چند دہائیوں قبل مذہبی رواداری اور برداشت پر مبنی جس مثالی معاشرے کی بنیاد عظیم سلطان قابوس نے 1970 میں رکھی تھی، عمان کے شہری اس کو ایک قدم اور آگے لے کر جائیں گے۔عمان مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جہاں مقامی ہندو کمیونٹی گزشتہ کئی صدیوں سے رہ رہی ہے،ایک اندازے کے مطابق عمانی آبادی کاساڑھے پانچ فیصد حصہ ہندو دھرم کے پیروکاروں پر مشتمل ہے، کم و بیش ایک ہزار ہندو عمانی شہریت کے حامل ہیں جبکہ ہندو کمیونٹی کے تارکین وطن کی کُل تعدادڈھائی لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے، مسقط میں واقع شِو مندر اورشری کرشنا مندر کا شمار مشرق وسطیٰ کے قدیم ترین مندروں میںہوتا ہے ، اسی طرح خوبصورت وادیوں اور صحرا میں گھِرا شری کرشنا کمپاؤنڈ بنیادی طور پرتین مندروں پر مشتمل ہے جن میں شری کرشنا، شری گنیش جی اور ماتاجی مندر شامل ہیں، یہاں ہر سال باقاعدگی سے مذہبی تہوار منائے جاتے ہیں۔ آج سے صرف پانچ دہائیاں قبل عمان کا شمار خطے کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں جب نوجوان شہزادہ قابوس اعلیٰ برطانوی اور یورپی اداروں سے تعلیم مکمل کرکے واپس پہنچے تو انہیں ملکی حالات نے بہت بے چین کیا، اپنے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بہادر قابوس نے عمان حکومت کی باگ دوڑ سنبھال لی۔یہ عمان کی تاریخ کا وہ تاریک دور تھا جب انفراسٹرکچر کی صورتحال زبوں حالی کا شکار تھی، عمانی باشندے غربت کی زندگی گزار رہے تھے، قبائلی دشمنیوں کا دور دورہ تھا، امن و امان کی صورتحال نہایت تشویشناک تھی۔وژنری سلطان قابوس نے حکومت میں آتے ہی ماضی کی دقیانوسی حکومتی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینا شروع کیا۔اس کا ماننا تھا کہ اگر عمان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے توہر قسم کے تنازعات سے دور رہنا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملکی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے تمام بیرونی سرحدی تنازعات کو نہایت خوش اسلوبی سے نمٹا دیا۔ دوسری طرف انہوں نے اندرونی امن واستحکام یقینی بنانے کیلئے حکومت کے مخالفین کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھایا،انتقام کی روش کو ترک کرتے ہوئے باغیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے، سرکاری سطح پر قومی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا اور میرٹ پر قابل لوگوں کو تعینات کیا،عمانی فوج کوخطے کی بہترین تربیت یافتہ فوج کا درجہ دلوایا، انفراسٹرکچر کے شعبے میں تیل سے حاصل کردہ آمدنی سے سرمایہ کاری کرتے ہوئے بہت جلد عمان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔سلطان قابوس کا سب سے بڑاکارنامہ ملک کی خارجہ پالیسی کو آزادانہ اور غیرجانبدارانہ بنانا تھا، انہوں نے تمام پڑوسی ممالک اور عالمی برادری پر واضح کردیا کہ عمان کسی دوسرے کے جھگڑے میں فریق نہیں بنے گا، یہی وجہ ہے کہ ایران اور عراق کے مابین طویل جنگ کے دوران بھی عمان نے دونوں ممالک سے سفارتی تعلقات قائم رکھے،سلطان قابوس نے ایران اور امریکہ سے قریبی تعلقات رکھنے کی بناء پر ایران امریکہ جوہری معاہدہ ممکن بنایا، مڈل ایسٹ میں حالیہ کشیدگی کے دوران بھی عمان نے اپناجھکاؤ کسی ایک فریق کی طرف نہیں کیا، اس نے سعودی عرب اور قطر کے مابین چپقلش میں بھی اپنے آپ کو مکمل طور پر غیرجانبدار رکھا، چند سال قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے بھی عمان کا دورہ کیا جو عمان کی آزاد خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتا تھا۔ مشرق وسطیٰ کا خطہ ایک طویل عرصے سے مختلف تنازعات کی بناء پر عدم استحکام کا شکار ہے لیکن سلطان قابوس نے حکومت سنبھالتے ہی واضح کردیا کہ انکی زیرقیادت عمان میں کسی قسم کی شدت پسندی اور اشتعال انگیزی کیلئے کوئی جگہ نہیںاور ہر قسم کی انتہاپسندی قابلِ مذمت ہے، انہوں نے ہر مذہب کا احترام یقینی بناتے ہوئے اعتدال پسندی کو پروان چڑھایا، انہوں نے اپنے اقدامات سے اس امر کویقینی بنایا کہ عمان کا معاشرہ مذہبی رواداری ، برداشت اور رواداری پر مبنی اقدار کو اپنائے، مختلف مذاہب کیلئے عبادت گاہیں قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ آج سے پچاس سال قبل عمان کا معاشرہ جس کے بارے میں کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ کبھی وہاںایک پختہ سڑک بھی تعمیر ہو گی، جدید انفراسٹرکچر میں اپنی مثال آپ ہے، یہاںمختلف مذاہب کے لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کررہے ہیں، عالمی اداروں کی مذہبی آزادی کے حوالے سے جاری کردہ مختلف رپورٹس میں عمان کی صورتحال کو تسلی بخش قرار دیا جاتا ہے، دنیا سلطنت عمان کی اس بڑھتی ترقی اور خوشحالی سے زیادہ اس بات سے متاثر دکھائی دیتی ہے کہ سلطنت عمان کا آج تک کوئی غیر ضروری تنازع سامنے نہیں آیا۔میں سلطنت عمان کے 51ویں قومی دن کے موقع پرعمان کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،میرےخیال میں اگر ہم ترقی و خوشحالی کیلئے مذہبی رواداری کی اہمیت سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے سلطنت عمان سے بہتر اور کوئی مثال نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)