امریکی صدر، جو بائیڈن اور چین کے صدر، شی جن پنگ کے درمیان گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات کو عالمی سیاست میں ایک بڑی پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔ گو کہ اِس ملاقات سے بہت زیادہ خوش فہمی یا اُمیدیں وابستہ نہیں تھیں، لیکن پھر بھی یہ اپنی اہمیت کے سبب کئی دنوں تک عالمی خبروں کا موضوع بنی رہی۔
دونوں عالمی طاقتوں کے تعلقات گزشتہ برسوں میں جس طرح نچلی سطح پر گئے، اُس سے نہ صرف اِن دونوں ممالک میں، بلکہ خطّے اور دنیا میں بھی تناؤ نے جنم لیا اور اس کے باعث دنیا پر بہت سے خطرات منڈلانے لگے۔اِس پس منظر میں16 نومبر کی یہ وَرچوئل ملاقات ایک طرح سے بریک تھرو کہی جاسکتی ہے کہ دونوں بڑی طاقتوں کے صدور کم ازکم آمنے سامنے بیٹھنے پر تو راضی ہوئے۔ یہ ملاقات صدر بائیڈن کی دعوت پر ہوئی، جس میں ایسے تین معاملات زیرِ غور آئے، جو امریکا او ر چین کے درمیان تنائو کا باعث ہیں۔تجارت، انڈو پیسیفک میں امریکا کی سرگرمیاں اور انسانی حقوق کے معاملات پر بات چیت اِس اجلاس کا بنیادی ایجنڈا تھا۔
ساڑھے تین گھنٹوں سے زاید جاری رہنے والی گفتگو اِنہی تین معاملات کے گرد گھومتی رہی، جب کہ تائیوان، موسمیاتی تبدیلیوں،افغانستان سے امریکی انخلا اور ہانگ کانگ جیسے امور پر بھی کُھل کر بات ہوئی۔امریکا کو اِس امر پر شدید تشویش ہے کہ چین فوجی طاقت کے اعتبار سے بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ معاملہ اُس کے لیے اِس لیے بھی زیادہ سنجیدہ ہے کہ چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہونے کے ساتھ، وہ مالی صلاحیت بھی موجود ہے، جس سے وہ اپنی قوّت مزید مضبوط کر سکتا ہے۔
علاوہ ازیں، جدید ٹیکنالوجی بھی اُس کی دسترس میں ہے، جس میں وہ مسلسل آگے بھی بڑھ رہا ہے۔دونوں صدور کے درمیان ہونے والی اِس ملاقات کی اہمیت اِس لیے بڑھ گئی کہ اس سے ایک ہفتے قبل ایک تاریخی قرار داد کے ذریعے صدر شی جن پنگ کو جدید چین کے بانیان، مائوزے تنگ اور ڈینگ زیاؤپنگ کے برابر کا مقام دیا گیا تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر شی جن پنگ اب چین کے مستقبل کا ویژن طے کریں گے، اِس لیے امریکا کے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ وہ عالمی اسٹیج پر کس نوعیت کا کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔دوسری طرف چین یہ جاننا چاہتا ہے کہ ٹرمپ سے بائیڈن تک کے سفر میں اُن کے لیے کیا تبدیلیاں آئی ہیں،اِسی لیے باہمی احترام کے ساتھ دونوں کا اندازِ گفتگو صاف اور لگی لپٹی کے بغیر تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اِس طویل ملاقات میں تقریباً اُن تمام ہی معاملات پر کُھل کر بات چیت ہوئی، جو دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان تنائو کی وجہ ہیں یا تعاون کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس ملاقات میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا اور اس کی کسی کو توقّع بھی نہیں تھی، کیوں کہ چین اور امریکا کے تعلقات میں تناؤ جوبائیڈن کے پیش رو، ڈونلڈ ٹرمپ کے دَور سے چلا آرہا ہے۔
دونوں بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔دونوں مختلف نظامِ سیاست کی حامل ہیں۔البتہ ،اہم بات یہ ہے کہ ملاقات کا ماحول خوش گوار تھا، شاید اِس لیے بھی کہ دونوں رہنما پہلے ہی سے ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔اِس ملاقات سے قبل بھی وہ ٹیلی فون پر بات چیت کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف تلخ بیانات آتے رہے ہیں، لیکن تنائو نے کبھی بھی سنجیدہ یا خطرناک شکل اختیار نہیں کی۔اِس ورچوئل ملاقات میں جوبائیڈن وائٹ ہاؤس میں تھے، جب کہ شی جن پنگ چین کے عظیم ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔
صدر بائیڈن بتاتے رہے ہیں کہ جب وہ اور شی جن پنگ اپنے اپنے ممالک کے نائب صدر تھے، تو دونوں گھنٹوں بات کیا کرتے تھے اور ہزاروں میل کا سفر بھی اکٹھے کیا، اِسی لیے صدر شی جن پنگ نے کہا،’’ مجھے خوشی ہے کہ مَیں اپنے پرانے دوست کو دیکھ رہا ہوں، حالاں کہ یہ آمنے سامنے کی ملاقات کی طرح نہیں ہے۔‘‘صدر جوبائیڈن نے جواباً کہا،’’ ہم ایک دوسرے سے کافی عرصے سے بات چیت کر رہے ہیں، اِس لیے آج کی ملاقات بھی خوش گوار ہوگی۔‘‘ گو، ملاقات کا ماحول خوش گوار تھا، لیکن دونوں رہنما اِس امر سے بخوبی واقف تھے کہ ان دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان کئی شعبوں میں سنجیدہ اختلافات موجود ہیں، جو گزشتہ کئی سالوں سے دونوں کے لیے پریشانی کا باعث بھی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل میں دوطرفہ ٹینشن مینج کرنا دونوں کے لیے بہت اہم تھا۔یاد رہے، کچھ ماہ قبل برطانیہ میں ہونے والی جی۔7 ملاقات میں صدر جوبائیڈن نے چین کو مغربی دنیا کا سب سے بڑا حریف قرار دیا تھا،خاص طور پر اس کی بڑھتی فوجی طاقت پر شدید تنقید کی تھی۔جی۔7 امیر اور طاقت وَر ممالک کا گروپ ہے، جو مغربی اتحاد کی طاقت کا بھی مظہر ہے۔ اس میں یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک بھی شامل ہیں۔جی-7 اجلاس میں صدر جوبائیڈن نے کورونا وبا کے بعد پہلی بار اپنے حلیف ممالک کے رہنماؤں سے براہِ راست ملاقاتیں کی تھیں، جن میں چین کی طاقت کاؤنٹر کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
اس پر چین نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ چین کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کرنے والا عظیم دیوارِ چین سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گا۔‘‘غالباً اِس سے شدید تنقید چین نے کبھی نہیں کی تھی۔جی-7 کے بعد نیٹو اجلاس میں امریکا اور اتحادیوں نے روس کو اپنا دوسرا بڑا حریف قرار دیا، گو کہ اجلاس کے فوراً بعد صدر بائیڈن اور روسی صدر پیوٹن کی برسلز میں ملاقات بھی ہوئی۔
امریکی صدر نے چین کو بے دست وپا کرنے کی جو بات کی تھی، اُسے عملی شکل دینے کے لیے اُنہوں نے دو بڑے اقدامات کیے۔پہلا افغانستان سے فوج کی واپسی اور دوسرا آکوس معاہدہ۔ اِس سے قبل امریکا مِڈل ایسٹ سے بھی واپس ہوچُکا ہے، اِس طرح جنوب مشرقی ایشیا پر ارتکاذزکی جو پالیسی صرف بیانات میں نظر آرہی تھی، اُسے ٹھوس شکل کی حیثیت مل گئی۔آکوس معاہدہ اُسی کا فالو اَپ قدم ہے، کیوں کہ آسٹریلیا کو اس کے ذریعے ملنے والی 12 ایٹمی آب دوزیں بنیادی طور پر انڈو پیسیفک ہی میں کام کریں گی۔یہی وہ علاقہ ہے، جہاں چین اور امریکا اب آمنے سامنے ہیں۔چین نے آکوس معاہدے پر بھی شدید تحفّظات کا اظہار کیا تھا، لیکن اس کے بعد جو معاملات سامنے آئے، اُن میں تائیوان کا ایشو اہم ترین ہے۔
یہ چین کا حصّہ ہے اور امریکا بھی’’ وَن چائنا پالیسی‘‘ کے تحت اِسے اُسی کا حصّہ تو مانتا ہے، مگر اس کے نظام کے تحفّظ کی ضمانت بھی دیتا ہے۔تائیوان کی سیکیوریٹی کا محافظ درحقیقت امریکا ہی ہے، جس طرح اِسی علاقے میں وہ جاپان اور جنوبی کوریا کی حفاظت کرتا رہا ہے۔ افغانستان سے امریکی واپسی کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ پہلا تو یہ کہ وہ افغانستان اور اس سے ملحق علاقوں میں اب دخل اندازی کرے گا اور نہ ہی کوئی امداد دے گا۔اور اسی بات پر اُس کے یورپی اور دوسرے حلیف بھی عمل پیرا ہیں، کیوں کہ وہ افغانستان میں انسانی المیے کی روک تھام کی اپیلز کے باوجود کسی قسم کا کردار ادا کرنے پہ تیار نہیں۔
اب یہ چین اور روس کی ذمّے داری ہے کہ وہ اس معاملے سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ عرب ممالک بھی، جو مسلم دنیا کے رُکن ہونے کے حوالے سے طالبان کے پہلے دَور میں خاصے فعال تھے،اب پیچھے ہٹ چُکے ہیں۔ اب اگر کوئی افغانستان کی مدد کرنا چاہے گا، تو اُسے مغربی ممالک سے کم ہی امید وابستہ کرنی چاہیے۔ وہ خود یا زیادہ سے زیادہ چین اور روس کے بل بُوتے ہی پر امدادی کام کرپائے گا۔افغانستان کا بحران اب فوجی نہیں، بلکہ معاشی ہے۔ اُسے سرمائے اور بنیادی اشیاء کی ضرورت ہے۔نیز، اُسے ایک ایسا نظام چاہیے، جس سے مُلک فعال طور پر چلایا جاسکے۔ اِسی لیے 16 نومبر کی میٹنگ میں صدر شی جن پنگ اور صدر جو بائیڈن کے درمیان سب سے اہم معاملہ چین اور امریکا کی تجارت کا رہا۔
امریکا ٹرمپ دَور میں الزام لگاتا رہا کہ چین سے تجارت میں امریکا کو خسارہ ہو رہا ہے، جس سے مُلکی معیشت پر بُرے اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔جو بائیڈن نے اسی فُٹ پرنٹ کی پیروی کی اور تجارتی معاملات پر چین پر دبائو برقرار رکھا۔دونوں سربراہان نے تجارت میں مقابلے کا رجحان برقرار رکھنے پر اتفاق کیا، تاہم اسے کسی تجارتی جنگ میں تبدیل ہونے سے روکنے کی بھی بات کی۔اِسی طرح سائبر سیکیوریٹی اور موسمیاتی تبدیلیوں میں دونوں لیڈرز نے تعاون پر رضامندی ظاہر کی، تاہم اِن معاملات پر جو گلے شکوے ہیں، اُن کا حل پیش نہیں کیا گیا۔یاد رہے، گلاسگو کانفرنس میں امریکا اور چین نے اتفاق کیا تھا کہ عالمی درجۂ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کمی کے لیے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کم ہوگا اور اگلے دس سال میں جنگلوں کی کٹائی روک دی جائے گی تاکہ ماحول بہتر بنایا جاسکے۔
امریکا اب انڈوچائنا میں آچکا ہے اور وہاں اپنے قدم مضبوط کرنے شروع کردیے ہیں۔اِس علاقے میں دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کی سب سے بڑی وجہ تائیوان ہے۔گزشتہ مہینوں میں اِس معاملے پر سخت اور تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا۔اس میٹنگ میں بھی صدر شی جن پنگ نے واضح طور پر کہا کہ امریکا، تائیوان کی خود مختاری کو ہوا دے کر آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کرے، جب کہ صدر بائیڈن اِس امر پر اصرار کرتے رہے کہ اُن کا مُلک’’ ایک چین، دو نظام‘‘ کی پالیسی پر کاربند ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ یہ تائیوان کے لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنا مستقبل کس طرح طے کرتے ہیں، امریکا کسی بھی خود مختاری کو ہوا نہیں دے رہا۔تاہم، ماہرین کے مطابق، اُنہوں نے تائیوان کی سیکیوریٹی پالیسی بدلنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ دوسرے الفاظ میں بظاہر یہ تو طے ہوا کہ دونوں طرف سے کوئی فوری فوجی پیش رفت نہیں ہوگی، تاہم چین، تائیوان کو اپنا حصّہ مانتا ہے اور وہ اسے خود میں ضم کرنے کے اقدامات کرے گا، جب کہ امریکا کے صدر کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پالیسی کے مطابق تائیوان کی حفاظت جاری رکھیں گے۔علاقے میں امریکا اور چین کی فوجی تیاریاں جاری ہیں۔
امریکا کا آکوس معاہدہ اور کواڈ فورم کا اجلاس انہی تیاریوں کی نشان دہی کرتا ہے۔امریکا کچھ اِس طرح چین کا گھیرائو کرنا چاہتا ہے کہ وہ جنوب مشرقی ایشیا میں اثر ورسوخ نہ بڑھا سکے، کم ازکم اُس وقت تک تو بالکل بھی نہیں، جب تک امریکا یہاں اپنی فوجی موجودگی مستحکم نہیں کر لیتا۔اِس سلسلے میں اُس کا سب سے بڑا اتحادی جاپان ہے، جو خود بھی ایک بڑی اقتصادی طاقت کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی پر مکمل عبور رکھتا ہے۔اِس کے علاوہ باقی کئی چھوٹے مُمالک، جو امریکا کے اتحادی ہیں، ایک دائرے میں چین کے اردگرد موجود ہیں۔
چین کے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے جاپان کے ساتھ تعلقات خراب چلے آرہے ہیں اور وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ جاپان کوئی فوجی کردار ادا کرے۔تاہم، اب جاپان اپنے غیر فوجی کردار کو خیرباد کہہ چُکا ہے، اِس لیے چین کے لیے چوکنّا ہونا ضروری ہے۔یاد رہے، جاپان کو دوسری جنگِ عظیم میں ایک سُپر پاور کی حیثیت حاصل تھی اور اُس کے بعد بھی وہ 40 برس تک دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوّت رہا، پھر چین نے اُس کی جگہ لے لی۔امریکا، جاپان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ علاقے میں اپنا فوجی کردار بڑھائے۔
اس کے ساتھ ہی اُس نے جاپان اور بھارت کو قریب بھی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔بھارت کواڈ فورم میں امریکا کے ساتھ ہے اور اُس سے سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی حاصل کر رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ چین اِس امریکی حکمتِ عملی کو کیسے کائونٹر کرتا ہے؟ اس نے بھارت سے تعلقات بہتر بنائے ہیں۔ شی جن پنگ اور مودی کے ذاتی مراسم بھی ہیں اور وہ اسے ہوم ٹائون ڈپلومیسی کے ذریعے مضبوط بھی کرتے رہے ہیں۔
بھارت، چین کے بعد دنیا کی دوسری بڑا آبادی والا مُلک ہے۔ظاہر ہے، امریکا اِسی لیے اُسے اپنی حکمتِ عملی میں اہم کردار دینا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد بھارت کو جو مواقع مل رہے ہیں، خاص طور پر امدادی کاموں اور خوراک کی فراہمی کے حوالے سے، غالباً اس پر چین اور امریکا دونوں ہی متفّق ہیں۔چین کبھی نہیں چاہے گا کہ بھارت مکمل طور پر امریکی کیمپ میں چلا جائے اور اسے بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑے۔
صدر،جو بائیڈن اور صدر، شی جن پنگ کی یہ پہلی اور طویل ملاقات اِس لیے بھی فیصلہ کُن نتائج کی حامل نہیں رہی کہ ابھی دونوں کی انتظامیہ کو بہت سا گرائونڈ ورک کرنا ہے۔ اُنہیں یہ دیکھنا ہے کہ کہاں کہاں اُن کے مفادات ایک دوسرے کے لیے معاون ہوسکتے ہیں اور کہاں کہاں اُن کے درمیان ٹکرائو کے خطرات ہیں۔ دونوں پوسٹ کووِڈ معیشت سے فائدہ اُٹھانا چاہیں گے، جب کہ کسی بھی تصادم سے پرہیز دونوں کی اقتصادی مضبوطی اور عالمی امن کے لیے بھی ضروری ہے۔اِسی لیے امریکا اور چین کے صدور نے اِن معاملات کو حتمی شکل دینے کا کام اگلی ملاقات کے لیے اُٹھا رکھا۔