گزشتہ دنوں جنرل راحیل شریف نے کوہاٹ میں ایک فوجی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کر پشن کی لعنت خاتم کئے بغیر ملک میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا اور ملکی سا لمیت کے لئے سب کا بلا امتیاز وبے لاگ احتساب ضروری ہے۔اس کے دوسرے ہی دن انھوں نے کرپشن کے الزام میں گیارہ اعلیٰ فوجی افسروںکو برطرف کر کے ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس اور مراعات سے محروم کر کے فوج سے احتساب کا آغاز کر تے ہوئے اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنایا کہ احتساب بلا امتیازاور اپنے گھر سے شروع ہو نا چاہئے۔اس خبرنے سیاست میں ہلچل مچا دی۔ویسے بھی کرپشن کا الزام لگا کر صرف سیاستدانوں کو بدنام کیا جاتا ہے جبکہ یہ ناسورپورے نظام کے جسم میں پھیل چکا ہے۔ اگراحتساب کا عمل قیام پاکستان کے فوراـ"بعد شروع ہوجاتاتو شایدآج ملک کی یہ صورتحال نہیں ہوتی کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوگیا۔لاہورمیں معمولی کاروبار کرنے والے تحریک انصاف کے ایک کارکن کے لئے جب بڑے میاں صاحب نے اوپر بات کی تو انھیں اچانک وزیر خزانہ بنادیا گیا پھر اس وقت کے لاہور کے بڑے کو تحفتاََ ـ"کوٹھی دی گئی توانھیں وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا ،جس شخص کی اپنی صرف ایک کوٹھی ہو وہ دوسروں کو تحفے میں کیسے کوٹھی دے سکتا ہے،یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر ذی شعور کے پاس ہے،قائد اعظم کے سیکرٹری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ایوب خان نے سازشیں شروع کیں تو انھیں بطور سزا ریٹائرڈکر دینا چاہئے تھاتاہم جنرل ایوب کاصرف مشرقی پاکستان میں ٹرانسفر کرنے پراکتفا کیا گیا۔اس وقت کی بیوروکریسی اور مورخین نے بھی یہی لکھا ہے کہ اگر انھیں ریٹائرڈ کر دیا جاتاتوملک میں ابتدا سے ہونے والی سازشوں اورکرپشن کے د ر کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جاتا ۔ایوب خان نے مشرقی پاکستان جانے سے پہلے اپنے حلقہ احباب سے کہا تھا کہ وہ جا تو رہے ہیں لیکن اب واپسی شاندار انداز میں ہوگی۔اس دوران انھوں نے اپنا سازشی ذہن بنا لیا تھا،پھر لیاقت علی کی شہادت اور غلام محمدجیسے لنگڑے لولے شخص کومسند اقتدار پر بٹھانااور پھر انھیں جنرل اسکندر مرزا کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا جانا، بعد ازاں اسکندر مرزا کو پہلے نظر بند کیا جانا پھر ملک بدر کر کے اقتدارپر مکمل طور قبضہ کیاجانا اسی سازشی ذہن کی سازشوں کا شاخسانہ ہے۔یہیںسے صحیح معنوں میںکرپشن کی بنیاد رکھی گئی کیونکہ اپنے اقتدارکو مضبوط اور طول دینے کے لئے بغاوت میں شریک معاونین اور ان کے رفقاء کو نوازشوںاور بیجا مراعات سے نوازا گیا۔
کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد سے ہی چھوٹی موٹی کرپشن شروع ہو چکی تھی لیکن ایوب خان نے اسے بام عروج پر پہنچا دیا۔ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں جو نفرتوں اور کرپشن کے بیج بوئے اس کا نتیجہ علیحدگی کی صورت میں برآمد ہوا،کاش اس وقت کرپشن پر قابو پالیا جاتا تو شاید ہم دو لخت نہ ہوتے اس دوران مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے اور جنر ل یحییٰ خان کے دور میں سقوط ڈھاکا ہو گیا ،ٹوٹے ہوئے پاکستان کو جوڑنے کیلئے بھٹو کو اقتدار دیا گیا جنہوں نے دن رات محنت کی اور شاہ فیصل او ر قذافی کی مدد سے ملک کے قرضے اتارے ، اسے ایٹمی قوت بنایااورعربوں میں تیل کی اہمیت کو اجاگر کیا جس کی پاداش میںانھیں پھانسی پر لٹکنا پڑا۔لیکن ان پر کسی بھی کرپشن کا الزام ان کے دشمن بھی نہیں لگا سکے۔ اس کے بعد جنر ل ضیاء کے دور میں محسن پاکستان کو ٹھکانے لگانے اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے کرپشن کے دروازے کھول دئیے گئے ۔ایک معمولی اسٹیل مل کے مالک کے بیٹے کو اپنا منہ بولا بیٹابنایا اور جب ان کے خلاف بغاوت ہوئی توخود لاہور آئے اور ائیرپورٹ پر کہا کہ ان کا کلہ گڑا ہوا ہے ۔کیونکہ ان کے پیچھے میں ہوں۔ایک اسٹیل اور ایک کوٹھی کے مالک کے پاس آج کئی اسٹیل ملز،کئی شوگر ملز، ملک اور بیرون ملک لا تعداد کوٹھیاں و محلات اور اربوں کے بے نامی اکائونٹس اور دنیا کے جمہوری ملکوں کے سربراہوں میں انھیں دنیا کا امیر ترین سربراہ شمار کیا جاتا ہے ۔ایسی عیش و عشر ت کی زندگی چھوڑنا آسان نہیں ہے خود گھر جانے کا رواج نہیں۔ یہاںقوم کی خدمت کا جذبہ حکمرانوں کو اقتدار سے الگ نہیں ہونے دیتا خاص طور پر ان حکمرانوں کیلئے جو اس کے حصول کے لئے ہر طرح کی سازش کر تے ہیں الیکشن کمیشن کے آر او زسے لے کر ووٹر تک کو لبھانے کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں ان کے لئے اقتدار سے الگ ہونا خاصا مشکل اور کٹھن کام ہے ۔
نوشتہ دیوار ان کے لئے باعث تشویش ہو تا ہے جو اسے پڑھنے پر قادر ہوں ۔آرمی چیف نے پہلے ہی ایک سخت وارننگ جاری کرتے ہوئے بے لاگ احتساب کو پاکستان کے امن اور استحکام کے لئے ناگز یر قرار دیا ہے آج حکومت کے پاس کچھ وقت ہے کل شاید دیر ہوچکی ہو کیونکہ پھر فیصلہ کسی اور کے ہاتھ میں ہوگا ۔جمہوریت میں مداخلت کاکوئی نہیں سوچ رہا بلکہ مدخلت کر نے والوں کی مخالفت میں ،میںخود ہراول دستہ کا کردار ادا کروں گا۔لیکن موجود ہ حکومت خود مداخلت کی دعوت دے رہی ہے۔نواز شریف خود کو اور اپنے اہل خانہ کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن التوا میں رکھنے والے حربے ،چکمہ دینے کی کوششیں،مبہم اور گنجلک اقدامات شریف فیملی کی کاروباری سلطنت سے کہیں آگے دیگر امور خصوصا "جمہوریت کو بھی شدید نقصان پہنچارہے ہیں۔احتساب ہمیشہ حکمرانوں کا ہوتا ہے ۔ برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون کے احتساب کی بات ہورہی ہے نہ کہ مارگریٹ تھیچر کی۔آئس لینڈ اور یو کرین کے وزیر اعظم اور اسپین کے وزیر خزانہ نے استعفیٰ دیا لیکن ان کے کسی پیش رو کا احتساب نہیں ہورہا ۔امریکہ کے سب سے مقبول صدر نکسن پرجب واٹر گیٹ اسکینڈل کا الزام لگاتوڈیموکریٹس پارٹی یا کسی اور کو موردالزام نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ صرف نکسن کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا عوام سڑکوںپر نکلے جس پر انھوںنےعہدے سے استعفیٰ دے دیا۔احتساب سب کا ہونا چاہئے اور میں اس کے حق میں ہوں لیکن نواز شریف کے بنائے ہوئے ٹی او آر (TOR) میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے حکمرانوںاور ان افراد کابھی احتساب کیا جانا شامل ہے جنھوں نے بنکوں سے قرضے معاف کرائے اور کسی بھی طریقے سے کرپشن میں ملوث ہیں،لیکن ان سب کے احتساب کے لئے سالہاسال درکار ہیں جو اس مختصر وقت میں ممکن نہیں۔یہ دراصل وقت کو ٹالنے کے لئے کیا جارہا ہے لیکن اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے اور اگر اس لیت و لعل کے نتیجے میں جمہوریت کو کوئی نقصان ہوا یا ڈی ریل ہوئی تو اس کے تمام تر ذ مہ د ار نواز شریف اور ان کا خاندان ہو گا ۔
میں پھر یہی کہوں گا کہ ملک کی موجودہ گمبھیر صورتحال کا تقاضا ہے بلکہ قرین انصاف ہے کہ پاناما لیکس میں کیونکہ نواز شریف اور ان کے خاندان والوں کا نام آیا ہے اور وہ اس وقت ملک کے و زیر اعظم ہیں اس لئے سب سے پہلے ان کا احتساب کیا جائے ،بیشک بعد میں دوسروں کا بھی کیا جائے بلکہ ان کی خواہش پر 1947 سے کیا جائے اور اس کے لئے سب سے پہلے میں اپنے آ ٓپ کو پیش کرتاہوں کیونکہ میں اس وقت میںپاکستان کاسب سے پرانا پارلیمنٹیرین اور سیاستدان ہوں اور مسلسل کئی سال سے بلکہ بھٹو صاحب کے زمانے سے الیکشن جیت کراسمبلی میں آ رہاہوں،لیکن پوری دنیا کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ احتساب سب سے پہلے ہمیشہ مسند اقتدار پربیٹھے ہوئے شخص کا ہوتا ہے اور اب پاکستان میں بھی تمام اپوزیشن جماعتوں کا اس پرمکمل اتفاق ہے۔