• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ڈاکٹر سعید اختر کو جانتا تھا اور نہ ان سے کبھی ملا تھا۔ایک دن ”دی نیوز“ کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی نے فون کرکے بتایا کہ ڈاکٹر سعید اختر اور پی کے ایل آئی لاہور کے ساتھ بہت ظلم ہورہا ہے اور یہ کہ مجھے اپنے ٹی وی پروگرام ”جرگہ“ میں اس ایشو کو اٹھانا چاہئے۔

عباسی صاحب نے ہی مجھے تفصیل بتائی کہ ڈاکٹر سعید اختر ایک نیک اور محب وطن انسان ہیں، کس طرح میاں بیوی امریکہ میں ماہانہ کروڑوں روپے کی آمدنی چھوڑ کر پاکستان آئے، کس طرح شہباز شریف حکومت کے ساتھ مل کر، پی کےایل آئی تعمیر کیا اور اب کسی خاص وجہ سے جسٹس (ر) ثاقب نثار ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

چنانچہ میں نے اپنے آئندہ پروگرام میں ڈاکٹر سعید اختر کو بطور مہمان بلایا تاکہ ان کا موقف بھی قوم کے سامنے آسکے۔ ڈاکٹر سعید اختر سے کوآرڈی نیشن میرے پروڈیوسر نے کی تھی۔ لاہور سے ہم نے انہیں وڈیو لنک پر لیا تھا۔

نہ ریکارڈنگ سے پہلے میری ان سے کوئی گفتگو ہوئی اور نہ ریکارڈنگ کے بعد۔ اس ٹی وی پروگرام کے چند روز بعد دوبارہ ڈاکٹر صاحب کی جسٹس(ر) ثاقب نثار کی عدالت میں پیشی تھی جس میں ان کا غصہ پہلے سے کئی گنا زیادہ تھا۔

انہوں نے اس روز معمول سے بڑھ کر اس شریف انسان کی بے توقیری کی اور میرے پروگرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ ہے تم ٹی وی والوں کو پیسے دے کر ان سے اپنے حق میں پروگرام کرواتے ہو۔میں خود کورٹ رپورٹر ہوں، عدالت جاتا ہوں اور عدالتی معاملات کو سمجھتا ہوں لیکن جب ٹی وی پر ٹکرز دیکھے تو میرا خون کھول اٹھا۔

سوچا کہ خود عدالت جاکر ثاقب نثار کے سامنے پیش ہوکر ان سے پوچھتا ہوں کہ ہماری تو خیر لیکن وہ اس شریف شخص پر یہ لغو الزام کیوں لگارہے ہیں لیکن جب کورٹ رپورٹر سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کیس کی سماعت ختم ہوچکی ہے۔ یہ تھا چیف جسٹس کی حیثیت سے جسٹس(ر) ثاقب نثار کے کردار کا ایک نمونہ۔

دوسرا تجربہ مجھے عمران خان کابینہ کے وزیر اعظم سواتی اور باجوڑ کے ایک غریب خاندان کے کیس کی صورت میں ہوا۔ ظلم و زیادتی کے اس کیس کو چونکہ میڈیا میں زیادہ تر میں نے اٹھایا تھا اس لئے سماعت کے لئے خود بھی حاضر ہوا تھا۔

سماعت کے دوران ثاقب نثار صاحب نے مجھے بھی سنا لیکن بعد میں نہ اس مظلوم خاندان کو انصاف ملا، نہ اعظم سواتی کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا اور نہ متاثرہ پولیس والوں کے معاملے میں انصاف سے کام لیا۔

سب چیف جسٹس ایک جیسے ہیں اور نہ سب جج۔ یہاں اچھے لوگ بھی ہیں اور برے بھی۔ جبر اور گھٹن کے اس دور میں جو ججز ضمیر اور انصاف کے مطابق فیصلے کررہے ہیں،وہ جہاد عظیم سے کم نہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ تنازعات جسٹس جمالی سے کیوں منسوب نہیں ہوئے؟ جسٹس فائز عیسیٰ، جسٹس منصور اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی اسی عدالت کے جج ہیں۔ میں نے کبھی کسی نجی محفل میں کسی بندے سے ان کے بارے میں منفی بات نہیں سنی۔ جسٹس اطہر من اللہ بہت ملنے جلنے والے اور ایک معروف خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد ہیں۔

جج بننے سے قبل نہ صرف ٹاک شوز کی زینت ہوا کرتے تھے بلکہ غم خوشی غمی کے موقع پر بھی ہر جگہ پہنچ جاتے تھے لیکن جب سے جج بنے ہیں، سماجی روابط بھی ختم کردئیے ہیں۔

دوسری طرف جسٹس ثاقب نثار عدالت میں کم اور باہر زیادہ نظر آتے تھے۔کبھی اپنے آپ کو مسیحا ثابت کرتے تو کبھی اپنے آپ کو بابا رحمتا پکارتے۔

اچھے جج کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات سننے یا ان میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں لیکن ثاقب نثار صاحب چن چن کر سیاسی معاملات کو اپنی عدالت میں لاتے رہے۔ وہ بیرون ملک گئے اور ایک سیاسی پارٹی کے وہاں کے رہنمائوں کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے۔

ملک کے اندر صرف ڈیم بنانے کی تقریبات نہیں بلکہ عمران خان کے ساتھ حکومتی تقریبات میں بھی شریک ہوتے رہے

۔جب پانامہ کا فیصلہ آیا تو تب بھی اس پر میرا یہی تبصرہ تھا کہ نون لیگ کی قیادت خود کو معصوم ثابت نہیں کرسکی لیکن انصاف ہوتا ہوا بھی نظر نہیں آیا۔ میں نہیں جانتا کہ آڈیوز اصلی ہیں یا جعلی لیکن جسٹس شوکت صدیقی کی تقریر تو اصلی تھی۔ ان کا ضمیر رانا شمیم کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد نہیں بلکہ دوران ملازمت جاگ اٹھا تھا۔

سوال یہ ہے کہ ان کے الزامات پر کیا تحقیقات ہوئیں الٹا جسٹس صدیقی کو فارغ کردیا گیا۔ کیا یہ انصاف ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ پانامہ کے معاملے میں صرف شریف خاندان کو کیوں سنگل آئوٹ کیا گیا اور مزید پانچ سو افراد کے کیسز کا ویسا تعاقب کیوں نہیں ہوا؟ بلاشبہ شریف خاندان اپنے آپ کو معصوم ثابت کرسکا اور نہ عدلیہ کے ساتھ ماضی میں ان کا سلوک اچھا رہا۔

خود جسٹس(ر) ثاقب نثار بھی میاں نواز شریف کا تحفہ ہیں کیونکہ انہوں نے ہی انہیں سیکرٹری لا بنایا اور وہ انہی کے دور میں ہائی کورٹ کے جج بنائے گئے۔ خود میاں صاحب کو بھی جسٹس (ر) عبدالقیوم اور ثاقب نثار جیسے کردار پسند ہیں لیکن شریف خاندان کے جرائم جسٹس ثاقب نثار کو معصوم نہیں بناسکتے۔

وہ چیف جسٹس تھے اور نیب کے ذریعے پولیٹکل مینجمنٹ ہوتی رہی۔ وہ چیف جسٹس تھے اور عدلیہ کو استعمال کرکے عمران خان کو وزیراعظم بنانے اور باقی سیاسی جماعتوں کو آئوٹ کرنے کا کام جاری رہا۔ وہ چیف جسٹس تھے اور آر ٹی ایس سسٹم فیل ہوا۔

وہ چیف جسٹس تھے اور پولنگ ایجنٹس کو باہر نکلوا کر اپنی مرضی کی گنتی کروا کے اسمبلیوں کو مسخروں سے بھر دیا۔ ان سب معاملات پر جسٹس ثاقب نثار خاموش رہے۔ اسی طرح جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ سے بڑی توقعات وابستہ ہوئی تھیں۔

کچھ تو خود چوہدری صاحب کے دور میں خاک میں مل گئیں لیکن جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ایک بار پھر عدلیہ کا وقار تیزی سے مجروح ہونے لگا اور آج نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے صف اول کے سپاہی علی احمد کرد عدلیہ کے بارے میں وہ سخت الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہیں جن کے کہنے یا لکھنے کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

تاہم علی احمد کرد کی خدمت میں عرض ہے کہ جج بھی کبھی وکیل تھا اور ریٹائرمنٹ کے بعد پھر وکیل بن جاتا ہے۔ اس لئےجو کچھ ہورہا ہے اس میں وکلا بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔

تازہ ترین