• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں اُس انڈیا سے ہوں، جہاں دن میں خواتین کی پوجا، رات کو عصمت دری ہوتی ہے‘‘

گزشتہ ماہ کی12 تاریخ کو امریکی دارالحکومت، واشنگٹن ڈی سی کے جے ایف کینیڈی سینٹر میں ایک تقریب جاری تھی۔ ہال عوام سے کھچا کھچ بَھرا ہوا تھا۔گو کہ کئی ایک نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، مگر لوگ بھارت کے42 سالہ مشہور اسٹینڈ اَپ کامیڈین، ویرداس کے منتظر تھے کہ ٹکٹس اُنہی کے نام پر بِکے تھے۔ وہ آئے اور’’آئی کم فرام2 انڈیاز‘‘ کے نام سے ایک نظم پڑھی، جس میں اپنے مُلک میں پائے جانے والے متضاد رویّوں پر طنز کیا گیا تھا۔

بالخصوص خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے واقعات، کرکٹ، اسلامو فوبیا، کورونا وبا، سیاست دانوں کے رویّے اور کسانوں کے دھرنے وغیرہ اس کا موضوع تھے۔ عوام، کامیڈین کی پرفارمینس سے بہت محظوظ ہوئے اور خُوب تالیاں بجا کر نظم پر پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ اور پھر یہ پروگرام طے شدہ شیڈول کے مطابق اپنے اختتام کو پہنچا۔ ویرداس نے چار روز بعد، 16 نومبر کو اپنی یہ پرفارمینس، ویڈیو شیئرنگ ایپ، یوٹیوب پر تقریباً چھے منٹ کی ایک ویڈیو کی صُورت لوڈ کی، جو چند گھنٹوں ہی میں وائرل ہوگئی۔

یقیناً کسی بھی اداکار کے لیے یہ خوشی کی بات ہوتی ہے کہ اُس کی کوئی ویڈیو یوں وائرل ہوجائے، مگر یہاں معاملہ اُلٹ نکلا، کیوں کہ اُنھیں لینے کے دینے پڑ گئے۔ وہ یوں کہ ویرداس نے ہلکے پُھلکے مزاح کے انداز میں جو حقائق بیان کیے تھے، اُن پر حکم ران جماعت کی قیادت اور انتہا پسند بھڑک اُٹھے، مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ، ٹوئٹر پر دیکھتے ہی دیکھتے ہیش ٹیگ’’ اسٹینڈ اَپ فار انڈیا‘‘ ٹاپ ٹرینڈبن گیا، جس کے تحت لوگ ویرداس کو کوسنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے رہے۔ گو کہ اِس نظم کے حق میں بھی کچھ آوازیں اُٹھیں، مگر اُن کی تعداد بہت کم تھی۔

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مُلک کو بدنام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کامیڈین سے معافی مانگنے کا مطالبہ ہو رہا تھا، تو کئی ایک اُن کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے تھانے بھی جا پہنچے اور پولیس نے مقدمہ درج بھی کرلیا۔ بالی وڈ اداکارہ، کنگنا رناؤت نے ویڈیو کو ’’سافٹ دہشت گردی‘‘ قرار دیا، تو کئی پروڈیوسرز نے اعلان کیا کہ وہ ویرداس کا مکمل بائیکاٹ کریں گے۔ مدھیہ پردیش کے وزیرِ داخلہ، ڈاکٹر نروتم مشرا نے اُن کے معافی مانگنے تک ریاست میں داخلے پر پابندی عاید کردی۔

بی جے پی کی رہنما، پریتی گاندھی نے کہا،’’ویرداس! تم اُس انڈیا سے ہو، جو بہت عرصے سے تمہاری توہین برداشت کر رہا ہے۔‘‘مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے بدنام، بھارتی نیوز پورٹل’’اوپ انڈیا‘‘ نے مونولاگ کو’’بکواس‘‘ کہتے ہوئے آگ بھڑکائی کہ’’داس نے ہندوؤں کو برداشت سے عاری اور مسلمان دشمن کے طور پر پیش کیا ہے۔‘‘ جب بات زیادہ بڑھی، تو ویر داس نے یہ بیان جاری کرکے جان چُھڑانے کی کوشش کی، ’’مجھے اپنے مُلک پر فخر ہے اور مَیں اس فخر کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہوں۔عوام ویڈیو کے ایڈٹ کیے گئے حصّوں سے دھوکے میں نہ آئیں، یہ ویڈیو انڈیا کی دو حقیقتوں کی ہے، خوبیاں اور خامیاں ہر قوم میں ہوتی ہیں اور یہ کوئی راز نہیں۔‘‘

ایسا کیا کہہ دیا تھا…!!!

ویرداس نے کامیڈی شو کے دَوران بھارتی معاشرے میں پائے جانے والے تضادات سے متعلق کہا،٭میرا تعلق ایک ایسے انڈیا سے ہے، جہاں ہم دن کے وقت خواتین کی پوجا کرتے ہیں، جب کہ رات کو ان کا گینگ ریپ کرتے ہیں۔٭ مَیں ایسے انڈیا سے ہوں، جہاں ہم جب بھی گرینز(پاکستانی ٹیم) کے خلاف کھیلتے ہیں، تو ہماری (رگوں) میں خون بھی نیلا( بھارتی ٹیم کی شرٹ کا رنگ) بہتا ہے، لیکن جب بھی ہم گرینز سے ہار جائیں، تو اچانک ہمارا رنگ اورنج( ہندو مذہبی رنگ) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔٭جہاں کم سن بچّے کورونا کی وبا سے بچنے کے لیے فیس ماسک پہنتے ہیں، لیکن دوسری طرف،سیاسی رہنما فیس ماسک کے بغیر بغل گیر ہو رہے ہوتے ہیں۔ ٭مَیں اُس انڈیا سے ہوں، جہاں صحافت ختم ہو چُکی ہے، کیوں کہ مرد صحافی اچھے لباس میں پُرتعیش اسٹوڈیوز میں بیٹھے رہتے ہیں، جب کہ خواتین گلیوں سے لیپ ٹاپ کے ذریعے رپورٹنگ کر رہی ہوتی ہیں۔٭مَیں اُس انڈیا سے آیا ہوں، جہاں ہم اپنے سبزی خور ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن سبزی اُگانے والے کسانوں کو گاڑیوں تلے روندتے ہیں۔٭ مَیں اُس انڈیا سے ہوں، جہاں کی بیش تر آبادی30 برس سے کم پر مشتمل ہے، لیکن ہم150 سال پرانے خیالات رکھنے والے75 برس کے رہنماؤں کی باتیں سُنتے ہیں۔٭مَیں اُس انڈیا سے ہوں، جہاں اے کیو آئی(ائیر کوالٹی انڈیکس) نو ہزار ہے، لیکن ہم پھر بھی رات کو چھت پر تارے دیکھتے ہیں۔٭میرا تعلق اُس انڈیا سے ہے، جہاں ہنسنے کی آوازیں گھروں کے باہر بھی سُنائی دیتی ہیں، لیکن کامیڈی کلب کی دیواریں اِس لیے توڑ دی جاتی ہیں کہ اندر سے ہنسی کی آواز آ رہی ہوتی ہے۔٭مَیں اُس انڈیا سے ہوں، جہاں خواتین ساڑیاں اور جوگرز پہنتی ہیں، لیکن پھر بھی وہ ایسے بوڑھے مرد سے مشورہ کر رہی ہوتی ہیں، جس نے زندگی میں کبھی ساڑی نہیں پہننی۔٭میرا تعلق اُس انڈیا سے ہے، جہاں آپ فوجیوں کو تب تک مکمل سپورٹ کرتے ہیں، جب تک کہ اُن کی پینشن کی بات نہ کی جائے۔٭میرا تعلق اُس انڈیا سے ہے، جہاں لوگ اِس ویڈیو کو دیکھ کر کہیں گے کہ اس میں کامیڈی کہاں ہے؟ لطیفہ کہاں ہے؟٭ اور میرا تعلق اُس انڈیا سے بھی ہے، جہاں لوگ اسے لطیفہ تو کہیں گے، لیکن یہ اُن کے لیے مزاحیہ نہیں ہو گا۔

کچھ غلط کہا …؟؟

پاکستان میں عُمر شریف اور معین اختر سمیت بہت سے کامیڈین یہاں کے مسائل پر اپنے مخصوص انداز میں بات کرتے رہے اور اب بھی نجی ٹی وی چینلز پر ایسے کئی پروگرام نشر ہو رہے ہیں، جو سماجی اور سیاسی معاملات پر طنز و مزاح سے بھرپور ہوتے ہیں، مگر عوام کبھی ان فن کاروں یا لکھاریوں کے پیچھے پتھر لے کر نہیں دوڑے۔دیکھا جائے، تو ویرداس نے بھی ایسا کچھ نہیں کہا، جس پر اُنھیں گالیاں دی جائیں یا پرچے کٹوائے جائیں۔اُنھوں نے بھارتی معاشرے کے جن تضادات کی طرف اشارہ کیا، وہ تو ایک کُھلی حقیقت ہیں۔اُن کا یہ کہنا کہ’’ہم دن کے وقت خواتین کی پوجا کرتے ہیں، جب کہ رات کو ان کا گینگ ریپ کرتے ہیں‘‘، کیا کوئی اِس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے؟؟ ہرگز نہیں۔

اِس لیے کہ خود بھارت کے سرکاری اعداد وشمار ویرداس کے اِس جملے کی مکمل تائید کرتے ہیں۔’’نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو‘‘ (این سی آر بی) کے مطابق،’’ مُلک میں ہر15 منٹ میں ایک خاتون کا ریپ کیا جاتا ہے۔ ہر ڈھائی دن بعد کسی نہ کسی خاتون پر تیزاب سے حملہ کردیا جاتا ہے۔‘‘دارالحکومت، دہلی میں تو خواتین، خاص طور پر غیر مُلکی خواتین کی عصمت دری کے اِس قدر واقعات ہوئے کہ دنیا میں اُسے’’ ریپ دارالحکومت‘‘ کہا جانے لگا، یہی وجہ ہے کہ تمام تر دعووں کے باوجود بھارت کو دنیا بھر خواتین کے لیے سب سے غیر محفوظ مُلک تصوّر کیا جاتا ہے۔

چند برس قبل نئی دہلی میں رونما ہونے والا وہ واقعہ عالمی میڈیا کا بھی موضوع بنا رہا، جس میں ایک بس میں سوار میڈیکل کالج کی طالبہ کو اوباش لڑکوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر چلتی بس سے نیچے پھینک دیا تھا۔ لڑکی کئی روز بے ہوش رہنے کے بعد ہلاک ہو گئی تھی۔مودی حکومت کے حامی سمجھے جانے والے اخبار’’ دی ہندو‘‘ نے 7 جولائی 2021ء کو یہ خبر دی کہ’’ دارالحکومت ، دہلی میں 2020ء کے مقابلے میں رواں برس کے ابتدائی چھے ماہ میں خواتین کے خلاف جرائم میں 63 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

پولیس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 15 جون تک عصمت دری کے واقعات میں 43 فی صد اضافہ ہوا، جو 580 سے بڑھ کر اِس سال833 ہو گئے، خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے واقعات 733 سے بڑھ کر 1022 ہو گئے۔اِسی طرح خواتین کے اغوا کے 1580 واقعات ہوئے، جب کہ 56 خواتین جہیز سے متعلقہ مسائل کے سبب موت سے ہم کنار ہوئیں۔‘‘یہ صرف راج دھانی کے اعدادوشمار ہیں، جسے ایک’’ جدید‘‘ اور’’ تعلیم یافتہ‘‘ شہر قرار دیا جاتا ہے۔ مُلک کے باقی حصّوں میں خواتین کی حالتِ زار کا ان اعداد وشمار کی روشنی میں بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مودی حکومت کے بلند بانگ اعلانات، دعووں اور وہاں کی فلمز میں دِکھائے جانے والے بھارت سے متاثر ہوکر ہمارے ہاں بھی بہت سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ شاید بھارت بہت ترقّی یافتہ مُلک بن چُکا ہے، مگر ایسا ہے نہیں۔ ایک ایٹمی قوّت کے لیے اِس سے زیادہ شرم ناک بات کیا ہوگی کہ وہاں اب بھی30 کروڑ سے زاید افراد، جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے، رفعِ حاجت کے لیے کُھلے مقامات کا رُخ کرنے پر مجبور ہیں اور اس کے ساتھ حکومتی ادارے کی یہ رپورٹ بھی شامل کرلیجیے کہ اِن میں سے بہت سی خواتین، اوباش افراد کی ہوس کا بھی نشانہ بنتی ہیں۔

ویرداس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے میچز پر اپنے مُلک میں سامنے آنے والے ردّ ِعمل کا بھی ذکر کیا، جو حقیقت کی بھرپور عکّاسی کرتا ہے۔ پاک، بھارت میچز کے موقعے پر ایک طرح کا’’ جنگی ماحول‘‘ دیکھنے کو ملتا ہے اور اگر بھارت کو شکست ہوجائے، تو پھر وہاں کی مسلم اقلیت کی شامت آجاتی ہے، جب کہ پاکستان میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ شکست کا غصّہ مقامی اقلیت پر اُتارا گیا ہو۔ 

حالیہ ٹی-20 ورلڈ کپ کی مثال سامنے ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں تاریخی شکست ہوئی، تو اُسے مذہبی رنگ دے دیا گیا۔ بھارتی اخبارات کے مطابق، جنونی اور مشتعل ہندوؤں نے مختلف تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم کشمیری طلبہ پر حملے شروع کردیے، جن کی شدّت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتظامیہ کو پولیس طلب کرنی پڑی۔اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا مسلمانوں کے خلاف گھٹیا جملے بازی سے اَٹ گیا۔بھارتیوں نے اپنے کھلاڑی، محمّد شامی کو اُس کی مسلم شناخت کی بنیاد پر بدترین تنقید کا نشانہ بنایا۔ نیز، بھارت میں اقلیتوں پر حملوں کے لیے بہانے تلاش کرنا معمول کی بات ہے۔

مسلمان، عیسائی اور دیگر اقلیتیں برسوں سے انتہا پسند اور جنونی ہندوؤں کے نشانے پر ہیں، جس میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ ان پر ظلم و ستم سے متعلق عالمی اداروں کی رپورٹس موجود ہیں۔ وہاں کسی بھی مسلمان پر گائے کا گوشت رکھنے کا الزام لگا کر تشدّد ایک کھیل بن چُکا ہے۔جنونیوں نے ایسے گروپس قائم کر رکھے ہیں، جو مسلمانوں کے گھروں میں یہ دیکھنے کے لیے گھس جاتے ہیں کہ کہیں اُنھوں نے گائے کا گوشت تو نہیں پکایا؟اِس ضمن میں حالیہ مہم کا ذکر بھی ضروری ہے۔ 

انتہا پسند ہندو گزشتہ دو ماہ سے نمازِ جمعہ کے اجتماعات محدود کرنے کی مہم چلا رہے ہیں اور اِس کام میں اُنھیں وزیرِ داخلہ، امیت شاہ کی سرپرستی حاصل ہے۔جنونی ہندو ہر جمعے کو مساجد کے باہر اپنے میلے منعقد کرتے ہیں تاکہ مسلمان نماز ادا نہ کرسکیں، بعض علاقوں میں ہندوؤں کی اِن حرکات کے سبب سِکھوں نے اپنی عبادت گاہیں مسلمانوں کے لیے کھولیں تاکہ وہ سکون سے نمازِ جمعہ ادا کرسکیں۔ کورونا وبا کو بھی سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے سَر ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اِس سلسلے میں تبلیغی جماعت کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور اس کی آڑ میں عالمی تبلیغی مرکز ایک سال تک بند رکھا گیا، جب کہ اِسی دوران دنیا کا سب سے بڑا ہندو مذہبی میلہ’’کمبھ میلہ‘‘ حسبِ معمول ہوا، جس میں کروڑوں افراد شریک ہوئے۔ 

بھارت میں مسلمان اقلیت کے خلاف سرکاری سطح پر کس قسم کی مہم چلائی جا رہی ہے، اس کا اندازہ محض اِس بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جو ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کے رہنما نے دیا تھا۔اُس کا کہنا تھا،’’مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کرنا چاہیے۔‘‘یہاں خشونت سنگھ کی وہ بات یاد آتی ہے کہ ’’پاکستان یا دنیا کا کوئی بھی مُلک بھارت کو تباہ نہیں کرے گا، بلکہ یہ اپنے متعصبانہ رویّوں کے سبب خود ہی ہلاک ہوگا۔‘‘

ویرداس نے کورونا کو مثال بناتے ہوئے بھارتی معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان موجود تفریق کو طنز کا نشانہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ مَیں اُس انڈیا سے ہوں، جہاں کم سن بچّے کورونا کی وبا سے بچنے کے لیے فیس ماسک پہنتے ہیں، لیکن دوسری طرف،سیاسی رہنما فیس ماسک کے بغیر بغل گیر ہوتے ہیں۔‘‘ اِس تضاد کی ایک مثال تو ہم اوپر بیان کرچُکے کہ ایک طرف تو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو کورونا کی آڑ میں شکنجے میں کَسا گیا اور دوسری طرف، ہندو میلے ٹھیلے جاری رہے۔

سری نگر سے شایع ہونے والے اردو اخبار ’’کشمیرِ عظمیٰ‘‘ میں کچھ روز قبل ایک شہری کا خط شایع ہوا، جس میں بھارتی معاشرے میں پائے جانے والے کئی تضادات نمایاں کیے گئے۔ اُنھوں نے لکھا،’’غیر ممالک میں پھنسے ہندوستانیوں کو لاک ڈائون سے پہلے ہوائی جہازوں سے واپس لایا گیا۔ لاک ڈائون میں ہری دوار میں پھنسے 1800 گجراتی زائرین کی واپسی کے لیے صوبائی حکومت نے لگژری بسز کا انتظام کیا۔ 

پہلے نوراترے کو یوپی کے وزیرِ اعلیٰ لاؤ لشکر کے ساتھ پوجا کرنے ایودھیا پہنچ گئے۔ لاک ڈائون میں ہی شیو راج سنگھ چوہان کی شاہی تقریب میں وزیرِ اعلیٰ کے طور پر حلف برداری ہوئی۔ مہاراشٹر کے شولاپور میں رتھ یاترا نکالنے کے لیے ہزاروں لوگ مندر پر جمع ہو گئے۔ اسی لاک ڈائون کے دَوران کرناٹک میں سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمار سوامی کے بیٹے کی سگائی اور پھر شادی ہوئی۔ سگائی میں تو وہاں کے چیف منسٹر، یدیو رپا بھی شامل ہوئے تھے۔ کرناٹک کے گلبرگہ میں شوبھا یاترا نکالی گئی، جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اسی بیچ کوٹہ راجستھان میں پھنسے طلبہ کو یوپی اور مدھیہ پردیش نے بسیں بھیج کر واپس بلایا۔ 

اتنا ہی نہیں، مدھیہ پردیش کی ہیلتھ سیکریٹری نے امریکا سے آئے اپنے بیٹے کی ٹریول ہسٹری کو چُھپایا، اس کی وجہ سے وہ خود اور قریب40 بیوروکریٹ کورونا سے متاثر ہو گئے۔ امیر، بارسوخ لوگوں کے کتنے ہی واقعات سامنے آچُکے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لاک ڈائون اُن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ دیش کے سب سے امیر9 لوگوں کے پاس مُلک کے سب سے غریب پچاس فی صد لوگوں کی کُل مالیت کے برابر دولت ہے۔ اِس لیے غریبی اور امیری نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ 

ایک فی صد امیروں کی دولت میں ایک سال میں46 فی صد اضافہ ہوا، جب کہ سب سے غریب پچاس فی صد کی مالیت میں صرف تین فی صد۔ دیش کے 63 لوگوں کے پاس مُلک کے سالانہ بجٹ سے زیادہ دولت ہے۔ مُلک کے ایک فی صد امیر 2 ہزار، 200 کروڑ روپے یومیہ کماتے ہیں۔‘‘ کانگریس کے صدر، راہول گاندھی نے بھی ایک بیان میں مودی حکومت پر مُلک کو 15سے 20 سرمایہ داروں کے درمیان تقسیم کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ورلڈ ہنَگر انڈیکس کے مطابق، بھارت میں غربت کی سطح خطرناک ہے اور وہ اپنے پڑوسی ممالک نیپال، بنگلا دیش اور پاکستان سے بھی کافی نیچے آ چکا ہے۔اب وہ افغانستان، نائجیریا اور کانگو جیسے چند ممالک ہی سے آگے ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق، وہاں کے 68 فی صد افراد کی یومیہ آمدنی محض دو ڈالر ہے، جب کہ30 فی صد شہری صرف ایک ڈالر ہی کما پاتے ہیں۔

تازہ ترین