• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض دوست پوچھتے ہیں تم چٹ پٹے چٹخارے دار سیاسی موضوعات کو چھوڑ کر کبھی مذہبی طبقات پر لبرلز کی تنقید کا جواب دیتے ہو تو کبھی خود ہی ان کی خامیاں آشکار کرنے لگتے ہو۔ دینی و فکری موضوعات کوحِرز جاں اور وِرد زباں بنانے کی وجہ یہ ہے کہ دین اور سیاست زمانے کی بے رحم موجوں کے تھپیڑوں میں دو بازووٴں کا کام دیتے ہیں انہی کے زور سے انسان ہر قسم کی طغیانی کا مقابلہ کرتا ہے اگر یہ بازو شل ہوجائیں تو آج اور کل دونوں لا ینحل ہوجاتے ہیں بد قسمتی سے رجالانِ سیاست ہوں یا کارپردازان ریاضت و عبادت‘ دونوں طرف ٹھنگنے اور ناٹے قد کے لوگ غالب دکھائی دیتے ہیں فکر و تدبر کے حامل علماء نایاب اور ہنگامہ اُٹھانے یا شور مچانے والے نیم ملاء ارزاں و فراواں نظر آتے ہیں حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ فقیہانہ طرز‘ مجتہدانہ اسلوب اور دُور اندیشانہ سوچ کے حامل ایسے محقق‘ محدث اور مفتی سامنے آئیں جن کی نگاہ افلاکی‘ پرواز لولاکی اور فکر آفاتی ہو۔ جن کے کمال ِجنوں کا یہ عالم ہو کہ پانے کا خُمار ہو نہ کھونے کا آزار‘ شوقِ کمال ہو نہ خوفِ زوال ‘ ان کی گفتگو کا یہ عالم ہو کہ پوری کائنات پرِ کاہ کی حیثیت سے دکھائی دے اور جستجو ایسی کہ قطرے میں دجلہ اور ذرّے میں صحرا کا گمان ہو مگر شومئی قسمت کہ مجتہدانہ اور فقیہانہ فکر تو درکنار یہاں تو واعظانہ سوزو گداز بھی کم یاب ہے اور محض مقررانہ بلکہ جارحانہ اور ناقدانہ صلاحیتوں کے حامل لوگ ممبر و محراب پر قابض دکھائی دیتے ہیں اسی لئے گناہ گاروں کے لبوں پر یہ الفاظ مچل جاتے ہیں:
واعظ سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
شیخ ضیاء الدین سہروردی اپنی کتاب ”کتاب المریدین“ میں افراد کی درجہ بندی کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک مانند غذا جن کے بغیر گزارہ نہیں‘ دوم مثل دوا جو بوقت ضرورت کام آتے ہیں اور تیسری قسم کے لوگ بیماری کی مانند ہوتے ہیں جن سے بچنا لازم ہے۔“ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمارے خطیب اور واعظ جنہیں مثل غذا ہونا چاہئے وہ ایک ایسی جان لیوا بیماری کی صورت اختیار کر چکے ہیں جس سے ہر شخص بدکتا ہے مثلاً کوئی بھولا بھٹکا شخص مسجد چلا جائے تو غرور تقویٰ کا شکار باریش لوگ اسے یوں گھور کر دیکھتے ہیں جیسے برہمنوں کے مندر میں کوئی اچھوت داخل ہوگیا ہو ۔کوئی بزرگ داڑھی نہ رکھنے پر کوسنے دے گا ‘ کوئی سر پر ٹوپی نہ ہونے پر ملامت کرے گا‘ کوئی شلوار ٹخنوں سے اوپر نہ ہونے پر ٹوکے گا یہاں تک کہ امام مسجد تکبیر اولیٰ سے پہلے باآواز بلند فتویٰ صادر کر دیں گے کہ جو لوگ ننگے سر ہیں ان کی نماز مکروہ ہے گویا حرم پاک میں عمرہ اور حج کرنے والے بیشتر نمازیوں کی نماز بھی قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچتی۔ چند روز قبل ایک قاری صاحب نے مسجد میں بیٹھ کر نہایت اشتعال انگیز انداز میں ان لوگو ں پر لعنت بھیجی جو شیو کر کے روضہٴ رسول پر جانے کی جرأت کرتے ہیں حالانکہ اگر کلین شیو شخص ایک سنت کے احیاء سے محروم ہے تو یہ باریش لوگ بھی بے شمار سنتوں پر عمل کرنے سے قاصر ہیں ۔اونٹ کی سواری سے بیوہ سے نکاح کرنے تک کتنی ہی سنتیں آج متروک ہو چکیں یا ان پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آتی۔
تکفیری سوچ کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص دوسرے کو کافر نہیں تو کم از کم اپنے سے کم تر‘ سیاہ کار اور گناہ گار مسلمان ضرور سمجھتا ہے مثلاً میرے ایک صحافی دوست جو صوم و صلوٰة کے پابند ہیں راسخ العقیدہ مسلمان ہیں انہوں نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کی نیت کر لی۔ عید الفطر کے بعد ان کی آپ بیتی سنی تو تشویش کچھ اور بڑھ گئی۔ پہلے دن سے ہی ان کے لباس پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو گیا حالانکہ انہوں نے پینٹ شرٹ نہیں پہنی تھی بلکہ ڈھیلا ڈھالا سا ٹراوٴزر اور شرٹ پہن رکھی تھی۔ مسجد کی انتظامیہ اور دیگر زاہدین و عابدین کا خیال تھا کہ یہ کافرانہ اور غیر اسلامی لباس ہے پے درپے حملوں اور مسلسل تنقید سے زچ ہو کر انہوں نے شلوار قمیص زیب تن کی تو اب توپوں کا رُخ ننگے سر کی طرف ہو گیا۔ مجھے قوی یقین ہے کہ علم و عمل میں ان ناقدین سے برتر ہونے کے باوجود اس شخص نے آئندہ معتکف ہونے سے توبہ کر لی ہو گی ۔دوران اعتکاف مسائل کے ضمن میں ایسی مضحکہ خیز اور لا یعنی بحث ہوتی ہے کہ علماء کے علمی و فکری استدلال کے معیار پر رونا آتا ہے۔ یہ کالم ان مسائل کے حوالے سے بحث و تمحیص کا متحمل نہیں ہو سکتا مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا آج ہمیں اُسی طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کہ جب بغداد پر تاتاریوں کے حملے کی خبر پہنچی تو علماء کا ایک گروہ اس بات پر جھگڑ رہا تھا کہ سوئی کی نوک پر فرشتے بیٹھتے ہیں یا نہیں اگر بیٹھتے ہیں تو کتنے اور دوسرا گروہ اس لاحاصل بحث میں مصروف تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو جو من و سلویٰ دیا جاتا تھا اس میں شامل روٹی خمیری تھی یا فطیری۔
ہمارے ہاں سب سے زیادہ اعتراضات لباس کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے سے متعلق ہیں۔ پینٹ شرٹ اور ٹائی کو فرنگی لباس کہہ کر مسترد کرنے اور اسے پہننے والوں سے کراہیت محسوس کرنے کا رجحان پورے ملک میں موجود ہے ۔اگرچہ شہروں کی حد تک پر امن بقائے باہمی کا اصول اس حد تک قابل عمل ہے کہ پینٹ شرٹ والوں کو دل ہی دل میں برا سمجھا جاتا ہے مگر اپنے خیالات کا برملا اظہار نہیں کیا جاتا ہے مگر دیہات میں تو پینٹ شرٹ پہن کر مسجد میں داخل ہونے والوں کو یوں گھور کر دیکھا جاتا ہے جیسے بے لباس اللہ کے گھر میں داخل ہو گئے ہوں۔ اس کے مقابلے میں شلوار قمیض خواہ کتنی ہی چست اور تنگ کیوں نہ ہو اسے اسلامی ہونے کی سند حاصل ہے۔ یہاں تک کہ تہمد اور قمیص جیسا وہ لباس بھی قابل قبول ہے جو ہوا کے ایک ہی جھونکے سے ستر کھلنے کا موجب بن سکتا ہے ہمارے وہ بزرگ جو قیام پاکستان کے وقت ایام لڑکپن میں تھے انہیں اچھی طرح یاد ہو گا کہ بیسویں صدی کے اوائل تک برصغیر میں تہمد ہی اکثریتی لباس تھا اور جب شلوار قمیض کا کلچر آیا تو اُس وقت شلوار قمیص پہننے والوں کو ایسے ہی کھا جانے والی نظروں سے دیکھا جاتا تھا جیسے آج پتلون پہننے والوں کو گھور کر دیکھا جاتا ہے ۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے جو لباس 60,70 سال پہلے کافرانہ و ملحدانہ تھا آج وہ اسلامی قرار پایا ہے۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ڈریس پینٹ بھی اسلامی قرار پائے اور پھر جینز یا جانگیا کی مخالفت کا بیڑا اٹھا لیا جائے ۔میری طالب علمانہ تحقیق تو یہ ہے کہ اسلام جیسے آفاقی مذہب کا کوئی ایک مخصوص لباس ہو ہی نہیں سکتا ۔لہذا اسلام نے اس پر قدغن نہیں لگائی محض ستر پوشی یعنی مردوں کے لئے گھٹنوں سے ناف تک ملبوس ہونے کی شرط رکھی۔ہر وہ لباس جو اس بنیادی تقاضے کو پورا کرتا ہے عین اسلامی اور شرعی ہے خواہ وہ شلوار قمیص ہو‘ پینٹ شرٹ ہو‘ عربی جُبہ ہو یا کچھ اور۔ شیخ ابو بکر ترمذی کا نام تمام مکاتب فکر کے لئے قابل احترام ہے وہ معاشرے کے بگاڑ پر لکھتے ہیں: ”امراء بگڑیں تو رعیت کی معاش بگڑ جاتی ہے‘ علماء بگڑیں تو شریعت کا طریق بگڑ جاتا ہے اور جب فقراء بگڑیں تو لوگوں کے اطوار و اخلاق خراب ہو جاتے ہیں امراء کا بگاڑ ظلم‘ علماء کا بگاڑ طمع اور فقراء کا بگاڑ ریا کاری ہے۔“ امراء تو اہل سیاست ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے‘ علماء کے بگاڑ پر آج بات ہوئی آئندہ کالم میں انشا ء اللہ فقراء کے بگاڑ پر با ت ہوگی۔
تازہ ترین