• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
عید آئی بھی اور گزر گئی۔ دنیا کی وہی رونق۔ دل کی وہی تنہائی۔ عید سے قبل ہونے والی دہشت ناکیوں اور خودکش حملوں سے ہونے والے قیمتی انسانی جانوں کے زیاں نے عید کی خوشیوں کو ملیامیٹ کردیا۔ آپ یقین کریں بہت سے لوگ عید کی نماز میں جانے سے خوفزدہ تھے مگر پھر یوں گئے کہ سال میں عیدالفطر صرف ایک مرتبہ آتی ہے۔ اگلی عید پر نہ جانے ہم ہوں یا نہ ہوں اور پھر بچوں کی خوشیوں کی خاطر بڑوں کو کئی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں چاہے وہ جان کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہوں۔ منیر نیازی کی غزل سے مندرجہ بالا چند اشعار میں نے نقل کردئیے ہیں کیونکہ دل اداس تھا تو پھر ایسے میں اداسی اور غم کے شعر ہی یاد آتے ہیں آپ یقین کریں لکھنے سے پہلے میں نے اپنے ذہن پر زور دیا کہ کوئی خوشی کا شعر یاد آجائے۔ خوشی کا موقع ہے مگر باوجود کوشش کے کوئی بھی خوشی کا شعر مجھے یاد نہیں آیا۔ لگتا ہے دل ہی مر گیا ہے اور مرے بھی کیوں نہ۔ کبھی کسی کرنل کی شہادت کی خبر آتی ہے تو کبھی ڈی آئی جی 30پولیس افسران اور سپاہیوں کے ساتھ بحالت نماز جام شہادت نوش کرتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہم سب یہاں شہید ہونے آئے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے سعادت حسن منٹو کا افسانہ ”شہید ساز“ یاد آ جاتا ہے۔ کیا تماشہ ہے۔ اپنے ملک اور اپنے ہی شہر میں ہم محفوظ نہیں۔ پرانے زمانے میں پاکستانیوں کو Asylum سیاسی پناہ لینے کیلئے کچھ کاغذات اور کچھ گراؤنڈ کی ضرورت ہوتی تھی۔ اب تو میرے خیال میں اتنا کہہ دینا ہی کافی ہوگا کہ ”میں پاکستان سے آیا ہوں میری زندگی کو خطرہ ہے“ اگر کوئی سمجھدار افسر ہوگا تو فوری طور پر Asylum کی درخواست منظور کرکے ٹھنڈا اور میٹھا شربت بھی پلائے گا۔ شربت سے یاد آیا کہ رمضان میں شیطان بند تھا اور صرف میٹھے اور ٹھنڈے مشروب پر زور تھا خاص طور پر مشروب مشرق عید کا چاند نظر آتے ہی یاروں نے سارے بند توڑ ڈالے اور برسات کے موسم کا مزھ لینے میں مشغول ہوگئے۔ بہت سے دوستوں نے تو بس سال بھر کی عبادات کرلی ہیں اور اگلے رمضان میں اوور ٹائم لگائیں گے۔ میں ان دوستوں سے خواجہ حیدر علی آتش کی زبان میں کہتا ہوں…
سن تو سہی جہاں میں سے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
صیاد اسیر دام رگ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے دام و دانہ کیا
وزیراعظم نے عمرے سے واپس آتے ہی وزارت خارجہ میں اہم اجلاس کی صدارت کرکے کافی اہم اور بڑے مسئلے پر غور و خوض کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج نکلیں گے اور دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمی اور ٹینشن کم ہوجائیگی۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اسے پرائم منسٹر اور چیف آف آرمی اسٹاف کے لیول پر ہی حل ہوجانا چاہئے۔ اس معاملے میں ہونے والی پیشرفت حوصلہ افزا ہے اور مجھے امید ہے کہ بات سنبھل جائے گی کیونکہ اسے بروقت سیاسی انداز سے روک لیا گیا ہے۔ کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی میں رمضان کے آخری عشرے میں اچانک تیزی پاک چائنہ تعلقات اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کا ایک ری ایکشن معلوم ہوتا ہے۔ خاص طور پر چائنا کو گوادر پورٹ کا انتظام دینا اور پھر وہ مبینہ طور پر چائنا کی ہیوی انسولیمنٹ لگائی جانے کی خبروں نے ان قوتوں کو متحرک کردیا ہے جو اینٹی چائنا جذبات رکھتی ہیں یا جو نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور چائنا کا ٹھوس بنیادوں پر اقتصادی تعاون ہو اور دونوں ملک ایک دوسرے کے مزید قریب آ جائیں یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے پاکستانی لوگوں میں عقل اور سمت کی کوئی کمی نہیں ہے اور خدا کے فضل و کرم سے اب ہمارا نوجوان طبقہ جن سے ہمارا مستقبل واسطہ ہے کافی حد تک اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کرچکا ہے اور نئے نوجوان مزید اچھی تعلیم کے حصول کیلئے امریکہ، برطانیہ، ملائیشیا، آسٹریلیا اورکینیڈا کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر ملک واپس آرہے ہیں یا آگئے ہیں اس لحاظ سے ہمارے پاس آئی ٹی ایکسپرٹ اور انجینئرنگ کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نوجوانوں کی فوج ظفر موج ہے۔ اگر یہ تمام لوگ چائنا کے انجینئروں کی مدد سے آن جاب ٹریننگ حاصل کرکے تمام انتظام سنبھال لیں اور نئے پراجیکٹس میں ایک یا دو ملین نئی نوکریاں نکل آئیں تو نہ صرف ہمارا معاشی مسئلہ حل ہوجائیگا بلکہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی وجہ سے افزائش پانے والی بری خصلتوں یا عادتوں میں بھی کمی واقع ہوجائے گی۔ معیشت کی بحالی اور بے روزگاری کے خاتمے سے خودکش حملہ آوروں میں کمی واقع ہوگی اور جو لوگ بے روزگاری اور بھوک سے تنگ آکر چند روپوں کی خاطر اپنے آپ کو خودکش حملے کیلئے پیش کرتے ہیں وہ بھی رک جائیں گے اور جب جیب میں پیسے ہوں تو حوریں دنیا میں بھی مل جاتی ہیں جو انسان کے دل میں زندہ رہنے اور فٹ رہنے کا شوق ابھار دیتی ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے اور آپ چاہیں تو اس سے اختلاف کرسکتے ہیں کہ موجودہ دہشت گردی کے حملوں میں تیزی کا ایک سبب پاک، چائنا تعلقات، ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ اور بلوچستان میں معاشی ترقی کے منصوبے 2000 کلو میٹر کاشغر تک بننے والی سڑک اور اس طرح کے دوسرے عوامل شامل ہیں۔ اس وقت حکومت کو معاشی ترقی سے پہلے کوئٹہ اور بلوچستان میں سرکاری افسروں، پنجابیوں، ھدک مکتب سے تعلق رکھنے والے ہزارہ اور عام آدمی کی زندگی کی حفاظت کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہیں۔ یہ اقدامات جنگی بنیادوں پر ہوں گے اور اس کی ایک ترکیب یہ ہے کہ بلوچستان میں ایمرجنسی لگا کر بنیادی حقوق معطل کردئیے جائیں۔ صوبائی حکومت کام کرتی رہے۔ فوج کو شہروں میں طلب کرکے سمری ملٹری کو رٹ بنائے جائیں جس کے سربراہ کرنل اور سیشن جج پر مشتمل ڈبل بنچ ہوں اور 12 گھنٹے میں کیس کا فیصلہ کیا جائے۔ اس ترکیب سے مکمل امن تو نہیں ہوگا مگر حالات کافی حد تک کنٹرول میں آ جائیں گے۔ کوئٹہ میں رات کا کرفیو لگایا جائے اور پھر اس طرح کریمنل کو رات 8بجے سے صبح 7بجے نہ صرف تلاش کیا جائے بلکہ ٹھکانے بھی لگا دیا جائے فی الحال جمہوریت کو تھوڑی سی دیر کیلئے بھول کر موجودہ حکومت کے ماتحت فوج سے ایمرجنسی کا کام لیکر لاء اینڈ ارٓڈر کو درست کیا جائے۔ اگر ابھی یہ نہ کیا گیا تو پھر یاد رکھیں کہ دہشت گرد علیحدگی پسند تنظیموں کو بیرونی مدد حاصل ہے اور دیر کرنے سے وہ اسلحہ اور ڈالر سے لیس ہوجائیں گے اور پھر جہاں ڈالر ہوگا بے روزگار وہیں جائیگا۔ ابھی دیر نہیں ہوئی۔ حالات قابو میں ہیں۔ حالت جنگ میں سخت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کو حکومت فوری طور پر اعتماد میں لیکر عملی اقدامات کرے۔ صرف بیان بازی سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا اور مجیب غدار سے ہیرو بن گیا تھا۔ ابھی دیر نہیں ہوئی۔ جاگ جائیں۔ حکومت اگر یہ کہے کہ ”جاگدے رہنا تے ساڈے تے نہ رہنا“ تو پھر کام نہیں چلے گا۔ آخر میں فیض احمد فیض کے حسب حال اشعار…
جو نفس تھا خار گلو بنا، جو اٹھے تو ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا
نہ وہ رنگ فصل بہار کا، نہ روش وہ ابر بہار کا
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاج باد صبا گیا
تازہ ترین