کسی بھی ملک یا اس کے صوبوں کو انتظامی طور پر چلانے کے لئے کچھ قاعدے اور قوانین وضع کئے جاتے ہیں۔ ان قوائد و قوانین، جنہیں انگریزی میں رولز آف بزنس کا نام دیا جاتا ہے، میں اختیارات، کردار اور ذمہ داریوں سمیت مختلف چیزوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ گویا یہ کہہ لیں کہ کسی ملک یا صوبے میں اصل گورننس ہی رولز آف بزنس ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں افسر شاہی کے اکثر لوگوں نے شاید رولز آف بزنس پڑھے ہی نہ ہوں یا پھر پڑھے بھی ہوں گے تو یہ سوچ کر ان کو اہمیت نہیں دی کہ ان پر کون سا عملدرآمد ہوتا ہے۔افسر شاہی میں انحطاط پذیری پہلے ایک بیماری کی شکل میں سامنے آ جاتی تھی لیکن اب یہ ایک سنڈروم کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ کسی کو یہ اندازہ ہی نہیں ہو پارہا کہ اصل بیماری کیا ہے؟ سب سے بڑا چیلنج اب یہ ہے کہ اس سنڈروم کی مختلف بیماریوں کا علاج بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ گوربا چوف نے بھی سوویت یونین کی بربادی کی ایک بڑی وجہ یہی بتائی تھی کہ اس نے صحیح جگہ پر غلط لوگ تعینات کئے جنہوں نے قوم کی دولت لوٹ کر کارپوریشنیں بنانا شروع کردیں۔ پنجاب، جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، میں بدقسمتی سے حالیہ دور حکومت میں ایسا انتظامی و سماجی نظام نہیں لایا جاسکتا جس میں لوگوں کی اہلیت کے مطابق انہیں اختیارات اور مقام دیا جاسکے۔ صوبے کی بیوروکریسی کے (FATHERLY FIGURE) ریفارمز اور پتہ نہیں کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن رولز آف بزنس پر آئے روز کئے جانے والے سمجھوتوں کی وجہ سے کچھ پریشان مگر پرامید دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب کی اہم ترین وزارت خزانہ کے حال ہی میں تعینات ہونے والے انتظامی سیکرٹری افتخار امجد کا تعلق 29 ویں کامن سے ہے۔ یہ ان لینڈ ریونیو سروس سے ہیں اور جنرل امجد کے بیٹے ہیں۔ میرے علم کے مطابق ان کی تقرری کےلئے بھی بہت اوپر سے احکامات آئے۔ چلیں کوئی بات نہیں یہاں اکثر (BLUE EYED) لوگ ہی اہم پوسٹوں پر لگتے ہیں لیکن ہمیں کچھ تو قانون کو دیکھنا ہوگا۔ پنجاب رولز آف بزنس 2011ء کے مطابق سیکرٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کیڈر پوسٹیں ہیں جن پر صرف پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس یا پھر پرونشل مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس) کا افسر ہی تعینات ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو سیکرٹری خزانہ جیسی اہم سیٹ پر ان لینڈ ریونیو سروس کا افسر بٹھانا کیا رولز آف بزنس کی خلاف ورزی نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ نئے سیکرٹری خزانہ پنجاب میں بڑے تعلق والے افسر ہوں اور وفاق میں بڑے کارنامے سرانجام دے چکے ہوں لیکن رولز آف بزنس پر عملدرآمد نہیں کرنا تو پھر انہیں ختم کر دیں تاکہ ملک بنانا ریپبلک بن جائے۔ آخر ان رولز آف بزنس پر عمل کرنے میں خرابی کیا ہے؟ انہی رولز کے تحت اسسٹنٹ کمشنروں کی تعیناتی کا اختیار ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ایس اینڈ جی اے ڈی) کے پاس ہے لیکن تمام تعیناتیاں سیاسی مداخلت سے ہو رہی ہیں۔ ٹرانسفر پوسٹنگز پر پابندی ہے لیکن وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پابندی ہٹانے کا اختیار استعمال کرتے ہوئے تعیناتیوں کے احکامات جاری کر رہا ہے۔ پنجاب رولز آف بزنس 2011ء میں صوبے کو (GOVERN) کرنے کیلئے وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری اور انتظامی سیکرٹریوں سمیت دیگر تمام محکموں کے اختیارات کا تعین کردیا گیا ہے اور ان کے کردار کے حوالے سے ذمہ داریاں فکس کردی گئی ہیں لیکن اسکے باوجود رولز آف بزنس کو ایک مقدس کتاب کی طرح الماریوں میں رکھ دیا گیا اور لگتا ہے کہ گور ننس اور قانون کی عملداری کے لئے بنائے گئے یہ قواعد وضوابط اب قصہِ پارینہ بن چکے ہیں جو کہ کامیابی کی اصل ضمانت ہیں۔ رولز آف بزنس کےمطابق کسی بھی اہم یا دیگر عہدوں پر تعیناتی کی زیادہ سے زیادہ مدت 3سال اور کم از کم 2سال ہے۔ اگر ان پر عملدرآمد ہوتا تو آج پنجاب کا دوسرا چیف سیکرٹری اور دوسرا آئی جی پولیس ہوتا۔ انہی سنہری قواعد وضوابط پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ ہے کہ آج سوا تین سال میں پنجاب کا پانچواں چیف سیکرٹری اور ساتواں آئی جی تعینات ہوا۔ شہباز شریف حکومت کے بارے میں چند افسران کی شاید غلط رائے ہو لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ بطور وزیر اعلیٰ انہوں نے اہم عہدوں پر افسران کی تعیناتیوں میں کبھی سنیارٹی اور دوسراتعیناتی کی مدت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ پنجاب میں بیورو کریسی ریفارمز کی بجائے یا تو چینی اور کھاد میں یا پھر کبھی لانگ مارچوں اور فسادات سے نمٹنے میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ کئی افسران کا خیال ہے کہ بیوروکریسی کو عدلیہ، وکلاء اور صحافیوںکی طرف سے متعدد چیلنجز درپیش ہیں لیکن کچھ کا خیال ہے کہ افسر شاہی میں موجود انحطاط پذیری کی بڑی وجہ نیب ہے جس نے سارے نظام کو ایک طرح سے اپاہج کرکے رکھ دیا ہے۔ بہتر تو پھر یہ ہے کہ اگر نظام چلانا ہے تو نیب سے ڈرنے والے افسران کو انتظامی عہدوں پر نہ لگائیں۔ سیدھا کام کرنے والے شریف افسروں کوسائیڈ لائن کرنے کی بجائے انہیں اچھی جگہوں پر تعینات کریں تاکہ الیکشن جیتنے کے لئے جو پرفارمنس اور سروس ڈلیوری چاہئے وہ حاصل ہو سکے۔ پنجاب میں اب تعیناتیوں کی مدت میں بہتری دکھائی دے رہی ہے لیکن پنجاب پولیس میں اب بھی آئے روز ڈی پی اوز اور دیگر اہم عہدوں پر ٹرانسفر پوسٹنگز کا سلسلہ نہیں رک سکا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ سابق چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان 5سال بطور سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس اور 5سال ہوم سیکرٹری پنجاب رہے۔تعیناتی کی مدت میں بہتری کی وجہ سے اس دور میں محکموں کی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ بہتر یہی ہوگا کہ پنجاب رولز آف بزنس 2011 ء پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا جائے تاکہ ہر ادارے سے اس کی کاکردگی کا حساب اور جواب بھی لیا جاسکے۔