• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد احمد غزالی

تُرک ڈراما سیریل،’’ ارطغرل غازی‘‘ میں ابنِ عربیؒ کا بھی ایک انتہائی جان دار کردار شامل ہے، جسے بے حد مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کے بعد عوام میں، یہ بزرگ کون تھے؟ کہاں سے تعلق تھا؟ کیا علمی خدمات انجام دیں؟ صوفیائے کرامؒ میں اُن کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ جیسے سوالات نے سَر اٹھایا۔ اُن سے متعلق جاننے کا تجسّس بڑھا، تو آج اُنھی بزرگ کا تفصیلی تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

ولادت، خاندان

17رمضان المبارک 560ہجری، 1165ء کو اندلس( اسپین) کے شہر مُرسیا (Murcia) میں پیدا ہوئے۔محمّد نام رکھا گیا۔آپؒ اپنا نام ’’ محمّد بن علی ابن العربی‘‘ لکھا کرتے تھے، جب کہ صوفیائے کرامؒ میں’’شیخِ اکبر‘‘ کے نام سے معروف ہوئے۔یہ لقب اِس قدر مشہور ہوا کہ اگر آج کسی کے نام کے ساتھ صرف شیخِ اکبر لکھا جائے، تو اُس سے مُراد آپؒ ہی کی شخصیت ہوتی ہے۔اہلِ علم نے آپؒ کو محی الدّین کا خطاب بھی دیا۔ والد، علی کا ایک معزّز عرب خاندان’’ طے‘‘ سے تعلق تھا۔ 

جب اندلس میں مسلم حکومت قائم ہوئی، تو یہ خاندان وہاں منتقل ہوگیا۔ والد ہسپانیہ کے حاکم،محمّد بن سعید مرذنیش کے دربار سے وابستہ تھے۔ابنِ عربیؒ ابھی آٹھ برس کے تھے کہ اقتدار پر موحدین نے قبضہ کرلیا، یہ امام محمّد غزالیؒ کے شاگرد، محمّد بن تومرت کی اصلاحی تحریک کے نتیجے میں قائم ہونے والا ایک گروہ تھا، جس نے برسوں اندلس پر حکومت کی،یوں اقتدار کی تبدیلی کے سبب آپؒ کا خاندان لشبونہ( لزبن، جو اب پرتگال کا دارالحکومت ہے) منتقل ہوگیا۔ تاہم، اشبیلیہ(Seville، اسپین کا تاریخی شہر، جو مسلم اندلس کا دارالحکومت بھی رہا) کے امیر کے دربار میں ملازمت ملنے پر آپؒ کے والد خاندان سمیت وہاں چلے گئے۔ ابنِ عربیؒ نے اپنی جوانی وہیں گزاری اور وہیں تعلیم مکمل کی۔

توبہ کا واقعہ

گو کہ آپؒ کے خاندان میں ذکر و عبادات کا چرچا تھا، والد ایک متقّی اور صاحبِ علم شخص تھے، تو ماموں،ابو مسلم رات بھر عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ اِسی طرح کی روایات دوسرے ماموں اور چچاؤں کے بارے میں بھی ہیں، تاہم، ابنِ عربی عام نوجوانوں کی طرح اپنی ہی دنیا میں مست تھے، لیکن پھر ایک واقعے نے اُن کے دل کی دنیا بدل ڈالی۔ ہوا یوں کہ ایک دولت مند شخص نے اپنے ہاں دعوت کا اہتمام کیا، جس میں امراء کے لڑکے مدعو تھے۔20 سالہ ابنِ عربی کو بھی شرکت کی دعوت ملی تھی۔یوں سمجھ لیجیے کہ ایلیٹ کلاس کے بگڑے لڑکوں کی دعوت تھی۔پُرتکلّف کھانے کے بعد شراب کا جام گردش کرنے لگا۔ جب صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے ہاتھ میں جام تھاما، تو غیب سے آواز آئی’’ اے محمّد! کیا تم کو اِسی لیے پیدا کیا گیا تھا؟‘‘ 

یہ سُنتے ہی آپ نے گلاس نیچے رکھ دیا اور وہاں سے باہر نکل آئے۔ راستے میں ایک چرواہے سے پرانے کپڑے لے کر پہنے اور اپنا قیمتی لباس اُسے دے دیا اور سیدھے قبرستان جا پہنچے۔ چار روز وہیں ایک پرانی قبر میں عبادت میں مصروف رہے، صرف نماز کے وقت باہر آتے۔اِن ایّام میں آپ بہت سے روحانی علوم سے آشنا ہوئے، جن کا اپنی کتاب میں ذکر بھی کیا ہے۔

آپ فوج میں بھرتی ہوئے، کاتب کے طور پر بھی کام کرتے رہے، مگر یہ ملازمتیں زیادہ عرصے تک جاری نہ رکھ سکے۔اِس دوران ابنِ عربیؒ کے روحانی علوم کا چرچا ہونے لگا، تو مشہور فلسفی اور قرطبہ کے قاضی القضاۃ، ابنِ رشد نے اُن سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، جب ملاقات ہوئی، تو وہ اُن کی عالمانہ گفتگو سُن کر ششدر رہ گئے۔

اہل اللہ کی مجالس

اب نوجوان ابنِ عربیؒ کی زندگی بدل چُکی تھی۔ لہو و لعب کی بجائے اللہ والوں کی مجالس کی تلاش میں رہتے اور اپنا وقت ذکر وفکر میں گزارتے۔اُنھوں نے مقامی اہلِ علم اور صوفیا سے استفادے کے بعد دیگر علاقوں کا رُخ کیا۔جہاں کسی اللہ والے کی موجودگی کا علم ہوتا، پہنچ جاتے۔ اِس مقصد کے لیے حرمین شریفین، مراکش، تیونس، شام، عراق، فلسطین، مِصر اور تُرکی کے سفر کیے۔

پہلے دو سفر

30 برس کی عُمر میں پہلی بار اندلس سے باہر قدم رکھا اور تیونس میں ابوالقاسم بن قسی کی کتاب’’ خلع النعلین‘‘ کا درس لیا۔ابو محمّد عبد العزیز بن ابوبکر القریشی سے ملے اور پھر ایک برس تک ابو محمّد عبداللہ بن خمیس الکنانی کے پاس رہے۔ والد کی وفات پر اشبيليہ واپس آگئے، مگر کچھ دنوں بعد ایک بار پھر سفر پر نکل گئے اور اِس بار بھی اُن کی منزل شمالی افریقا تھی۔ فاس(Fes،موجودہ مراکش کا تیسرا بڑا شہر) جا پہنچے، جہاں کئی روحانی تجربات سے گزرے، جن میں’’ خاتم الاولیاء‘‘ سے متعلق مکاشفہ بھی شامل تھا، جو بعدازاں بحث مباحثے کا مرکز بھی بنا۔

گھریلو ذمّے داریاں

ایک طرف روحانی منازل طے کر رہے تھے اور اس کے لیے ایک سے دوسری جگہ جا رہے تھے، مگر والدہ، دو غیر شادی شدہ بہنیں اور بیوی اشبيليہ میں تھیں، جنھیں نظرانداز کرنا ممکن نہ تھا،نیز، والد کی وفات کے سبب گھر کی ذمّے داریاں بھی اُن کی کندھوں پر آگئی تھیں،اِس لیے فاس سے جلد واپس آکر اپنے آبائی شہر، مُرسیا گئے تاکہ والد کی چھوڑی جائیداد فروخت کرسکیں۔والد کے دوستوں نے ملازمت کے لیے قائل کرنے کی بہت کوشش کی تاکہ گھریلو ذمّے داریاں ٹھیک طرح سے ادا ہوسکیں، مگر اُنھوں نے یہ پیش کش قبول نہیں کی۔

سفر در سفر

ایک بار پھر فاس کے لیے رختِ سفر باندھا، تاہم اِس بار والدہ، بیوی اور بہنیں بھی ساتھ تھیں۔ وہاں پہنچ کر بہنوں کی شادی کی ذمّے داری سے سبک دوش ہوئے۔کچھ دنوں بعد والدہ کا انتقال ہوا، تو اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لیے حرمین شریفین کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے۔ بجایہ( Bejaia، الجزائر)، تیونس، مِصر اور فلسطین سے ہوتے ہوئے مکّہ مکرّمہ پہنچے اور دو سال وہاں مقیم رہے۔ 601ہجری میں وہاں سے بغداد، موصل، القدس اور دوسرے شہروں کی سیّاحت کے بعد قاہرہ پہنچے، جہاں اُنھیں سخت مشکلات پیش آئیں، یہاں تک کہ ارتداد جیسے الزام کا بھی سامنا کرنا پڑا، مگر وہاں کے حاکم، الملک العادل نے اُن کی جان بچائی۔

وہاں سے پھر مکّہ مکرّمہ آگئے اور ایک سال تک وہاں قیام کیا۔پھر ایشیائے کوچک(اناطولیہ، موجودہ تُرکی) چلے گئے۔ 607ہجری میں سلجوق ریاست کے پایۂ تخت، قونیا پہنچے، تو سلطان نے بہت گرم جوشی سے استقبال کیا اور اُن کی رہائش کے لیے ایک مکان بنوایا۔ وہیں آپؒ کی ملاقات مولانا جلال الدین رومیؒ کے دوست، صدر الدین قونویؒ سے ہوئی، جنھوں نے آپؒ کی شاگردی اختیار کی اور خطّے میں آپؒ کے نظریات کی اشاعت کی، بعدازاں خود بھی اکابر صوفیا میں شمار ہوئے۔ابنِ عربیؒ نے اُن کی والدہ سے شادی بھی کرلی تھی۔ وہاں سے آپؒ بغداد گئے اور ایک بار پھر مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے612 ہجری میں مکّہ مکرّمہ پہنچے۔620ہجری میں دمشق کو اپنا وطن بنایا اور پھر آخری سانس تک وہیں رہے۔

اساتذہ اور خرقۂ خلافت

ابنِ عربیؒ کی اپنی تحریر کے مطابق، اُنھوں نے70 سے زاید مشایخ سے اکتسابِ فیض کیا۔آپؒ کے ابتدائی روحانی اساتذہ میں شیخ یوسف الکومیؒ کا نام نمایاں ہے، جو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے خلیفہ،شیخ ابو مدین مغربیؒ سے نسبت رکھتے تھے۔ تاہم، بعض روایات کے مطابق، ابنِ عربیؒ نے شیخ ابو مدین ؒسے بھی بیعت کی تھی۔ البتہ آپؒ کو خرقۂ خلافت، سلسلۂ شاذلیہ کے بانی، حضرت ابوالحسن علی بن عبداللہ ابن جامعؒ نے پہنایا۔

ابنِ عربیؒ نے اِس واقعے کا ذکر یوں کیا ہے،’’ مَیں نے یہ مشہور خرقہ شیخ ابوالحسن علی بن عبداللہ ابنِ جامعؒ کے مقدّس ہاتھوں سے مقلی، مضافات موصل میں واقع اُن کے باغ میں 601 ہجری میں پہنا اور ابنِ جامعؒ نے حضرت خضر علیہ السّلام کے ہاتھوں سے پہنا تھا۔ جس جگہ اور جس طرح ابنِ جامعؒ کو حضرت خضر علیہ السّلام نے خرقہ پہنایا تھا، اُسی جگہ اور اُسی طرح بِلا کمی وبیشی اُنھوں نے مجھے خرقہ پہنایا۔‘‘ آپؒ نے اپنی روحانی تربیت میں حضرت خضر علیہ السّلام کا کثرت سے ذکر کیا ہے اور اُن سے ہونے والی کئی ملاقاتوں کا احوال بھی لکھا ہے۔آپؒ کا روحانی سلسلہ کئی اور طریقوں سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

حکم رانوں سے تعلقات

ایّوبی اور سلجوق حکم ران حضرت ابنِ عربی کے معتقد تھے۔ صلاح الدّین ایّوبی کے بیٹے الملک الظاہر سے دوستانہ تعلقات تھے، جب کہ صلاح الدّین ایوبی کے نواسے،امیر عبد العزیز بھی آپؒ سے بہت عزّت و احترام سے پیش آتے تھے۔ ایّوبی حاکم، الملک العادل نے آپؒ کو قاہرہ میں دشمنوں سے بچایا۔ سلجوق سلطان، علاء الدّین کیقباد آپؒ کا مرید تھا۔

تاہم، آپؒ اِن تعلقات کو اسلامی تعلیمات کی اشاعت، مسلم حکومتوں کی مضبوطی اور عام افراد کی بھلائی کے لیے استعمال کرتے تھے، کبھی ذاتی فوائد حاصل کیے اور نہ ہی اُن کے دباؤ میں آئے۔ ایک بار سلطان نے آپ ؒاور آپ ؒ کے ساتھیوں کے لیے دو روز تک کھانا بھجوایا،مگر آپؒ نے کچھ نہ کھایا۔ جب وجہ پوچھی گئی، تو فرمایا،’’ مَیں اِس کھانے کو جائز نہیں سمجھتا، کیوں کہ یہ حرام کا کھانا ہے۔‘‘

تصنیفی کرامت

ابنِ عربیؒ کی اصل وجۂ شہرت اُن کی بے مثال کتب ہیں۔ اُن کی کتب کی تعداد 800 تک بیان کی جاتی ہے، تاہم 500 کتب کی موجودگی پر تقریباً اتفاق پایا جاتا ہے، جن میں سے کئی کتب تو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں۔ اِس قدر وسیع تحریری کام کو آپؒ کی کرامت قرار دیا گیا ہے۔

فتوحاتِ مکیہ اور فصوص الحکم، یہ دونوں کتابیں علمی اور روحانی حلقوں میں زیادہ مشہور ہیں۔ فتوحاتِ مکیہ لکھنے میں 35 برس لگے، جو560 ابواب اور کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ آپؒ روزانہ لکھتے اور اس کام میں کم ہی ناغہ ہوتا۔ آپؒ بلند پایہ شاعر بھی تھے اور پانچ شعری مجموعے بھی آپ ؒسے منسوب ہیں۔

ارطغرل غازی سے ملاقات

ڈراموں کی باتیں اپنی جگہ، مگر ابنِ عربیؒ اور ارطغرل کے درمیان ملاقات کے ٹھوس تاریخی شواہد کم ہی دست یاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس معاملے پر مؤرخین میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ ابنِ عربیؒ اناطولیہ، قونیہ اور حلب میں رہے، جب کہ اُسی دَور میں ارطغرل بھی اُسی علاقے میں اپنے قبیلے کی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔ 

ابنِ عربیؒ نے1240 ء اور ارطغرل نے1280ء میں وفات پائی، یعنی وہ ایک ہی زمانے میں، ایک ہی علاقے میں موجود رہے،تو عین ممکن ہے کہ اُن کے درمیان ملاقاتیں بھی رہی ہوں۔ ارطغرل کے بیٹے، عثمان غازی کے سُسر، حضرت شیخ ادیبالیؒ، ابنِ عربیؒ کے مرید تھے، اِس طرح بھی اِس خاندان میں آپؒ کے گہرے اثرات رہے ہیں۔ ابنِ عربیؒ نے عثمانی سلطنت کے قیام کی پیش گوئی کی تھی، جو پوری ہوئی، یہاں تک کہ اُنھوں نے بادشاہوں کے جو نام بتائے تھے، حکم ران اُسی ترتیب سے آتے رہے۔

شادی، اولاد

حضرت ابنِ عربیؒ نے کئی شادیاں کیں۔اندلس کے ایک امیر کی بیٹی، مریم بنتِ محمّد آپؒ کی پہلی اہلیہ تھیں، جن کا آپؒ نے بہت محبّت سے ذکر کیا ہے۔ وہ ایک نہایت متقّی خاتون تھیں اور شوہر کے ساتھ روحانی مدارج بھی طے کیے۔ فاطمہ بنتِ یونس، صدر الدین قونوی کی والدہ اور دمشق کے قاضی کی بیٹی سے بھی آپؒ کی شادی ہوئی۔گویا آپؒ نے مختلف اوقات میں چار شادیاں کیں، جن سے دو صاحب زادے، سعدالدین محمّد، عماد الدّین اور ایک صاحب زادی، زینب تولّد ہوئیں۔تاہم، یہ اولاد کس کے بطن سے ہوئی، اِس ضمن میں متضاد روایات ہیں۔

وفات اور قبر

ابنِ عربیؒ نے28 ربیع الثانی 638 ہجری، 1240ء میں78 برس کی عُمر میں دمشق میں وفات پائی۔ایک روایت کے مطابق، وفات کے وقت سورۂ کہف کی آیت نمبر 65 لکھ رہے تھے، جس کا ترجمہ یہ ہے،’’ اور اسے ہم نے اپنے پاس سے ایک علم سِکھایا تھا‘‘۔آپؒ کو جبلِ قاسیون پر سپردِ خاک کیا گیا۔آپؒ نے پیش گوئی کی تھی کہ’’میری قبر گم ہو جائے گی اور اُس وقت دوبارہ ظاہر ہوگی، جب سین، شین میں داخل ہو گا۔‘‘

ایسا ہی ہوا کہ منگولوں کے حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے آپؒ کی قبر معدوم ہوگئی۔جب 1516ء میں تُرک سلطان، سلیم نے شام فتح کیا، تو آپؒ کی قبر ظاہر ہوئی۔یعنی س( سلیم) ش( شام) میں داخل ہوا۔ مشہور ہے کہ ایک شب سلطان سلیم نے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا، جو اُنھیں اُس جگہ کھدائی کا حکم دے رہے تھے، جہاں ابنِ عربیؒ کی قبر تھی۔جب دوسرے روز وہاں کُھدائی کروائی گئی، تو آپؒ کی قبر ظاہر ہوگئی، جس پر سلطان نے مقبرہ تعمیر کروایا۔بعدازاں، سلطان عبدالحمید نے اسے توسیع دی۔

نظریات، حامی اور مخالفین

جہاں شیخ ابنِ عربی کو’’ شیخِ اکبر‘‘ جیسے القابات سے نوازا گیا، وہیں اُنھیں کافر، زندیق اور مرتد جیسے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود اُن کے حامیوں اور مخالفین میں یہ تفریق موجود ہے۔ یہ واحد صوفی ہیں، جن کی تعلیمات اور نظریات سب سے زیادہ زیرِ بحث رہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اُنھوں نے اپنے نظریات کتب کی صُورت پیش کیے، جن میں قرآن وسنّت اور اکابر صوفیا کے اقوال کو بھی بنیاد بنایا ہے، مگر زیادہ تر نظریات ذاتی مکاشفات، الہامات اور روحانی کیفیات ہی پر مبنی ہیں۔ 

پھر یہ کہ اُنھوں نے جو دیکھا یا محسوس کیا، اُسے بلاکم و کاست بیان بھی کردیا۔ نیز، اُن کا اسلوب خاصا فلسفیانہ اور دقیق اصطلاحات پر مشتمل ہے،تو اِن تمام چیزوں نے مل کر اُن کے نظریات عام افراد کے لیے اجنبی بنادیے، جو اُن کی عقل اور فہم سے ماورا تھے، اِسی لیے عام افراد اُن کے خلاف ہوگئے۔دوسری طرف، اُنھوں نے ذات و صفاتِ باری تعالیٰ، عرش و کرسی، ملائکہ، انبیائے کرامؑ، مقامِ نبوّت، مدارجِ ولایت، جنّت، دوزخ، تخلیقِ کائنات سمیت بہت سے عنوانات پر ایسے خیالات پیش کیے، جو علماء کے نزدیک متنازع ہیں۔ ابنِ عربیؒ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے باقاعدہ طور پر وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا۔

گو کہ اُن کے حامیوں نے جواب میں تفصیلی کتب لکھیں، جن میں اُن کے نظریات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بھرپور دفاع کیا گیا، مگر اس کے باوجود اعتراضات برقرار ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی رہا کہ جاہل صوفیا نے شرعی پابندیوں سے فرار کے لیے ابنِ عربی ؒکے نظریات کو ڈھال بنایا، جس کے سبب بہت سے لوگ روحانی کمالات تو کیا حاصل کرتے، اپنی راہ ہی کھوٹی کر بیٹھے۔اِس پس منظر میں احتیاط پسند صوفیا نے ابنِ عربیؒ کے معاملے پر سکوت کی تلقین کی ہے۔ 

یعنی وہ اُنھیں اکابر صوفیا میں تو شمار کرتے ہیں، مگر عوام کو اُن کی کتب کے مطالعے سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں، کیوں کہ تصوّف کی مخصوص اصطلاحات سے گہری واقفیت کے بغیر ابنِ عربیؒ کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ اِس حوالے سے حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی یہ رائے گویا فیصلہ کُن حیثیت کی حامل ہے کہ وہ ایک طرف تو ابنِ عربیؒ کو کبار صوفیاء میں شمار کرتے ہیں اور دوسری طرف لکھتے ہیں،’’ہمیں فتوحاتِ مدنیہ( یعنی سُنتِ نبویﷺ) نے”فتوحاتِ مکیہ“(یعنی ابنِ عربی کی کتاب) سے اور نصوص (شریعت) نے ”فصوص“ (ابنِ عربیؒ کی کتاب) سے بے نیاز کردیا ہے۔“

تازہ ترین