• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری میں قواعد نظر انداز

اسلام آباد (انصار عباسی) حال ہی میں بائیس گریڈ کے ریٹائرڈ افسر کو نیب کا ڈائریکٹر جنرل لگائے جانے کے معاملے میں قواعد و قوانین میں نرمی کی گئی ہے جس کی اجازت وزیراعظم عمران خان نے نیب کے چیئرمین جاوید اقبال کی سفارش پر دی۔

ماضی میں نیب وہی ادارہ رہا ہے جو قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے کی گئیں بھرتیوں کے معاملے پر تحقیقات کرتا رہا ہے لیکن اب اس کا اپنا ڈائریکٹر جنرل جمیل احمد بائیس گریڈ کا ریٹائرڈ افسر ہے۔

افسر کی تعیناتی کیلئے جاوید اقبال نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ افسر کو ایک سال کیلئے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جائے اور اشتہار شائع کرانے اور قانونی لوازمات پوری کرنے کی شرائط میں نرمی کی جائے۔

رابطہ کرنے پر نیب کے ترجمان نے بتایا کہ یہ بھرتی نیب کے مفاد میں کی گئی ہے کیونکہ جس شخص کو ڈی جی لگایا گیا ہے اس کے پاس وسیع تر تجربہ ہے جس سے بیورو کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مجاز اتھارٹی قواعد میں نرمی کر سکتی ہے اور اس کیس میں بھی یہی کچھ کیا گیا ہے۔

تاہم، سرکاری ذرائع نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ قواعد و ضوابط اور پالیسی کے ساتھ ایسٹا کوڈ کے مطابق نیب چیئرمین کو یہ اختیار نہیں کہ وہ وزیراعظم کو ایسی کوئی سمری ارسال کریں۔ ایسی کوئی بھی سمری وفاقی سیکریٹری قانون کی جانب سے بھیجی جانا تھی کیونکہ یہی وزارت نیب کیلئے کنٹرولنگ منسٹری ہے۔

بتایا گیا ہے کہ قواعد کے تحت، وزیراعظم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جس میں متعلقہ سیکریٹری اور اس محکمے کا سربراہ شامل ہوتا ہے جس میں بھرتی کرنا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی متعلقہ جوائنٹ سیکریٹری ایڈمنسٹریشن امیدواروں کا جائزہ لیتے ہیں اور باضابطہ طے شدہ عمل اور اشتہار وغیرہ کے بعد وزیراعظم کو سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔

اس کیس میں ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو کنٹریکٹ پر براہِ راست چیئرمین نیب نے بھرتی کیا ہے جس کیلئے انہوں نے وزیراعظم سے پالیسی میں نرمی کی منظوری لی۔

ایسٹا کوڈ میں جس انداز سے کمیٹی کی تشکیل کا طریقہ کار بتایا گیا ہے ویسا نہیں کیا گیا اور پالیسی معاملات پر نظر ثانی تک نہیں کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے حج کرپشن کیس میں سینئر عہدوں پر ایسی کنٹریکٹ بھرتیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس ریٹائرڈ افسر کو نیب نے ڈی جی لگایا ہے اس کے پاس انوسٹی گیشن (تحقیقات) یا وائٹ کالر اکنامک کرائم (معاشی جرائم) کی تحقیقات کا کوئی تجربہ نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اس بھرتی سے یہ اخلاقی اور اصولی سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی کیا بات تھی کہ ایک ایسے شخص کو ایک سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جو وزیراعظم کے مخالفین کے کیسز کی تحقیقات کرے گا اور ان کیخلاف کیسز بنائے گا؟ ذریعے کا کہنا تھا کہ پالیسی کے مطابق کنٹریکٹ دو سال کا دیا جاتا ہے لیکن یہاں ایک سال کا کنٹریکٹ دے کر اس افسر کو ’’دیہاڑی دار افسر‘‘ بنا دیا گیا ہے۔

22؍ نومبر کو نیب چیئرمین نے اِس بھرتی کیلئے وزیراعظم کو سمری بھیجی تھی جس میں نیب چیئرمین نے ادارے کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا اور اربوں روپے کے زیر التوا انوسٹی گیشن اور انکوائریز کے کئی کیسز کا معاملہ بیان کیا۔

سمری میں بتایا گیا کہ گریڈ 21؍ پر ڈی جی کا عہدہ گزشتہ کچھ عرصے سے خالی ہے لہٰذا سینئر لیول پر اس عہدے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کچھ کیسز اور تحقیقات کے معاملوں میں بیحد ضروری ہے کہ ڈی جی کے عہدوں پر خالی اسامیوں کو تجربہ کار اور پیشہ ور افراد سے پُر کیا جائے۔

اس ضمن میں چیئرمین نیب نے ’’بیحد ضروری‘‘ معاملے سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم کو تین ریٹائرڈ افسران بشمول جمیل احمد (پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروسز کے ریٹائرڈ گریڈ 22) کے نام بھیجے۔ ان کے علاوہ دو دیگر نام الطاف باوانی (نیب سے ریٹائرڈ گریڈ 21 کے افسر) اور نیب سے ہی ریٹائرڈ گریڈ 20؍ کے مجاہد اکبر بلوچ کے تھے۔ چیئرمین نیب نے ان افسران کے نام بھیجتے ہوئے جمیل احمد کو بھرتی کرنے کی سفارش کی۔

جاوید اقبال کے مطابق جمیل احمد کے پاس مختلف سرکاری اداروں میں کام کرنے کا وسیع تر تجربہ ہے اور اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ چیئرمین نیب نے سمری میں لکھا ہے، ’’تاہم، انہیں بھرتی کیلئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے او ایم مورخہ 6؍ مئی 2000ء کے پیرا نمبر اول (چہارم) میں نرمی کرنا ہوگی، لہٰذا اس ضمن میں وزیراعظم کی منظوری درکار ہے تاکہ جمیل احمد کو نیب میں ڈی جی عہدے پر ایک سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے کے معاملے میں اسامی مشہتر کرنے کی شرط پر استثنیٰ مل سکے، قانونی استثنیٰ بھی دیا جائے‘‘۔

تازہ ترین