درویش نے ساری زندگی تفاسیر، صحاح ستہ،سیرت طیبہ، اسلامی فقہ و تاریخ، قانون شریعت کو پڑھنے اور سمجھنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن سچائی یہ ہے کہ آج اس کا سینہ جل رہا ہے۔
برسوں کی تپسیا و ریاضت سے جو حقائق اور سچائیاں اس پر آشکار ہوئی ہیں، افسوس کہ مادرِ وطن میں ان پر اظہار خیال کی کوئی سبیل نہیں پا رہا۔
مقام حیرت ہے الہٰیات پر جو اظہار بیان قرون اولیٰ یا دور ملوکیت کے سفاک جبر میں بھی روا تھا، آج اس میں بھی چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ چھوڑ دیا گیا ہے۔
معتزلہ جیسی اپروچ عباسیوں کے تشدد میں بھی پروان چڑھتی رہی مگر مابعد راسخ العقیدگی اس قدر حاوی ہوئی کہ حریتِ فکر کاقلع قمع کرتی چلی گئی۔ سرسیدؒ تو ابھی کل کی بات ہے، الہٰیات پر انہوں نے آزادی کے ساتھ کیا کچھ نہیں لکھا کیا آج کوئی اس کا تصور بھی کر سکتا ہے،موجودہ فضا میں سرسید کیا، شاید اقبال بھی معتوب ٹھہرتے۔
ہماری آج کی عقیدت، منافرت میں اس قدر ڈوب چکی ہے کہ اگر کوئی بھی شخص بغیر ریفرنس بتائے مقدس آیات و احادیث اپنے آرٹیکل میں اوریجنل الفاظ کے ساتھ لکھ دے تو فوری طور پر گستاخی کا مرتکب اور قابل گردن زدنی قرار پائے۔
ہمارے روایتی علماء یا متکلمین واضح فرمائیں یہ ’’سرتن سے جدا‘‘ کا نعرہ کہاں سے آیا ؟ آج کل کس زور و شور سے من سب نبیاًفاقتلوہ کے نعرے لگائے جا رہے رہیں اور ایسے متشدد گروہوں اور جتھوں کے پلیٹ فارم سے منافرت میں ڈوبی ہوئی جس نوع کی تقاریر بنیادی عقائد کے اسلوب میں دہرائی جاتی ہیں کبھی یہ سوچا کہ یہ لوگ آج اکیسویں صدی کے انسانوں کو کسی قعر مذلت میں ڈبونے لے جا رہے ہیں۔
سیالکوٹ میں ہونے والاحالیہ سانحہ کیا مذہب کے استعمال کی ہولناک شبیہ واضح کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ سری لنکا کے اس بے گناہ انسان پریانتھا کمارا نے کون سی مذہبی حرمت پامال کی تھی؟ اگر وہ یہ کہتا تھا کہ تنخواہ لیتے ہو تو اسے حلال کرنے کے لیے کام بھی کرو تو فیکٹری کے جنرل یا پروڈکشن مینجر کی حیثیت سے کیا یہ اس کی ڈیوٹی نہ تھی؟ وہ بیچارہ تو اردو یا عربی کے الفاظ پڑھنے یا سمجھنے سے بھی ناآشنا تھا اسے کیا معلوم کہ کس پوسٹر یا اسٹیکر پر یا حسین لکھا ہے یا حضرت خادم حسین۔ ہمارے یہ روایتی لوگ حدیث اول بیان کرتے نہیں تھکتے کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے یہاں کہاں اور کون سی بدنیتی تھی؟ایک بےگناہ انسان پر اتنا ظلم، اتنی سفاکی کہ تم نے بھاگ کر اوپر چوتھی منزل پر چھپنے والے کو پکڑا اور مار مار کر اس کے جبڑے توڑ دیے،قتل کر ڈالا اور لاش کو بھی جلا دیااوردعویٰ ہے کہ تم رحمۃ اللعالمین کے عشاق ہو۔ ظالمو! تمہیں اس کے کمسن بچوں کی یتیمی کا بھی خیال نہ آیا، تم نے اس کی جواں سال شریک حیات کو لمحوں میں بیوہ بنا دیا۔ اس کی بوڑھی ماں کا بھی خیال نہ آیا۔یہ انسانیت سوز درندگی کرتے ہوئے تم کس منہ سے اُس ہستی کا نام لے رہے تھے جنہیں صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام جہانوں اور جہان والوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔
جہل کی انتہا ہے کہ اس مملکت کا ایک وفاقی وزیر میڈیا کے سامنے کھلے بندوں یہ کہہ رہا ہے کہ ہمارے بچوں کا یہ ایمانی و مذہبی جذبہ تھا جوانی میں ایسے ہو جاتا ہے یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں میں بھی جوانی میں ایسا ہی تھا۔ کیا ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد یہ شخص اس قابل ہے کہ وزیر دفاع کی حیثیت سے خود کو قوم کے سامنے پیش کرے، اس کا فیصلہ محکمہ دفاع والوں کو کرنا چاہیے اور جو شخص مذہبی تشدد پر اکسانے والوں یا ان کے سہولت کاروں کو گلے لگانے یا گلدستے پیش کرنے میں پیش پیش ہو، اسے کیا حق ہے کہ وہ خود کو سیاستدان کہے۔ فواد چودھری نے جس ’’بیہودہ حرکت‘‘ کی نشاندہی کی ہے اس کے مرتکب کو لیڈری کا کوئی حق نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے دہشت گردوں کے حوالے سے اولین جو بیان دیا اور ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے آگے بڑھ کر اس کی جن الفاظ میں گرفت کی ،ذمہ دارانہ رویے کی یہ ایک روشن مثال ہے جس پر مولانا نے سفاکی و بربریت کی غیر مشروط مذمت فرمائی اور اب مختلف مسالک کے دیگر مذہبی رہنما بھی اس حوالے سے یک زبان ہو کر مذمتی بیانات دے رہے ہیں یہ ایک مثبت اقدام ہے۔ اے کاش! آگے بڑھ کر یہ علماء اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بلاسفیمی قوانین کو بہتر بنانے کے لیے بھی اسی انسان نوازی کے جذبے سے کام لیں۔ آخر میں ملک عدنان جیسے ہونہار نوجوان کیلئے ڈھیروں نیک تمنائیں۔