بریڈفورڈ(محمد رجاسب مغل ) یارکشائر کرکٹ پر کئی دہائیوں سے کاؤنٹی کی ایشین کمیونٹی میں کھلاڑیوں کو نظر انداز کرنے اور باصلاحیت نوجوانوں کو فروغ دینے میں ناکام رہنے کے الزامات کا سامنا، ممبران پارلیمنٹ نے اسے نسل پرستی کی علامت قرار دے دیا، اس بات کا انکشاف ڈیجیٹل کلچر میڈیا اور اسپورٹ کی پارلیمانی کمیٹی نے کرکٹ میں ادارہ جاتی نسل پرستی کی جاری تحقیقات کے موقع پر کیا جس کا گزشتہ ماہ عظیم رفیق کے شواہد نے دعویٰ کیا تھا کہ کھیل ادارہ جاتی طور پر نسل پرست ہے، اس حوالے سےDCMS کمیٹی نے کرکٹ میں نسل پرستی کے الزامات کی تحقیقات جاری رکھی ہوئی ہے۔ بریڈفورڈ کی قائداعظم پریمیئر کرکٹ لیگ بھی پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی میں پیش ہوئی جس میں ایم پیز کو مزید شواہدملے ہیں کہ یارکشائر سی سی سی کئی دہائیوں تک مقامی ایشیائی کھلاڑیوں کے ساتھ انگیج ہونے میں ناکام رہی، کرکٹرز کا کہنا ہے کہ ممکنہ کرکٹ ٹیلنٹ کو ضائع کر دیا گیا ہے، ای سی بی کے اعدادوشمار بتاتےہیں کہ ایشیائی کھلاڑیوں کے فرسٹ کلاس گیم تک پہنچنے کا امکان کم ہیں، نسل پرستی کے خلاف جاری پارلیمانی تحقیق میں قائد اعظم پریمیئر کرکٹ لیگ کے عہدیداروں نے اراکین پارلیمنٹ کو بتایا کہ انہوں نے یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب کے ساتھ پہلی بار مقامی کرکٹ میں ایشیائی کھلاڑیوں کی شرکت کے بارے میں بات چیت کی ہے حالانکہ ہماری یہ لیگ 40 سال سے زائد عرصہ قبل سے قائم ہے اور اس میں 1700 کھلاڑی کھیل رہے ہیں، قائداعظم لیگ کے چیف ایگزیکٹو بشارت حسین نے کہا کہ لیگ کو صرف ایک بار 2014 میں ہیڈنگلے میں کپ فائنل کھیلنے کی اجازت دی گئی تھی، بشارت حسین نے کمیٹی کو بتایا کہ عظیم رفیق کے نسل پرستی کے انکشافات کے بعد یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب سے 40سال میں پہلی بار باضابطہ رابطہ ممکن ہو سکا، کمیٹی کے چیئرمین جولین نائٹ ایم پی نے کہا کہ یارکشائر کی اس کاونٹی میں 1700 کھلاڑی ہیں اور ان 40 سال میں یارکشائر کائونٹی کرکٹ کلب کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی، اتنے عرصے تک اس کاؤنٹی کو الگ تھلگ رکھنا ایک چونکا دینے والی بات ہے، یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب ایسی صورت حال پیداکرنے کی کیسے اجازت دے سکتا ہے جہاں اپنے طور پر ہزاروں کرکٹرز اپنے کیچمنٹ ایریا میں کھیل رہے ہوں اور ہم سب جانتے ہیں کہ یارکشائر کس طرح آگے بڑھنا پسند کرتا ہے، یارکشائر کے مقامی کھلاڑیوں کو اس طرح نظر انداز کرنا نسل پرستی کی علامت ہے، کمیٹی میں یہ بھی دیکھا گیا کہ انگلش کرکٹ کے اعدادوشمار اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ ایشیائی کھلاڑیوں کو معمول کے مطابق نظر انداز کیا جاتا ہے، یارکشائر میں2018 میں جنوبی ایشیائی کھلاڑی30 فیصد کی نمائندگی کرتے تھے اور ان کی ترقی کے امکانات بہت کم تھے۔ جنوبی ایشیائی پس منظر کے کھلاڑی ملک بھر میں کاؤنٹی گروپ کے کھلاڑیوں کا صرف 15 فیصد، کاؤنٹی اکیڈمی کے کھلاڑیوں کا 11 فیصد اور فرسٹ کلاس کاؤنٹی کے صرف چار فیصد کھلاڑی ہیں۔ بشارت حسین نے کہا کہ قائد اعظم پریمیئر کرکٹ لیگ اس وقت بنائی گئی جب ٹیکسٹائل میں کام کرنے والے کارکنوں نے1980 میں ٹیمیں بنانا شروع کیں، یہ ایک اعلیٰ سطح کی سنڈے لیگ میں تبدیل ہو گئی ہے اور اس میں بنیادی طور پر ایشیائی کھلاڑی شامل ہیں، یہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے کرکٹرز کو بھی خوش آمدیدکہہ رہی ہے، انہوں نے کہا کہ ایشیائی کھلاڑیوں کو پیشہ ورانہ کھیل تک پہنچنے سے روکنے کے لیے بہت سےدیگر مسائل بھی ہیں جن میں والدین کے لیے مالی مسائل بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے کھیل کے سازوسامان اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا بھی شامل ہیں، کمیٹی میں ممبران پارلیمنٹ نے سنا ہے کہ ایشیائی کھلاڑی اکثر محسوس کرتے ہیں کہ وہ لیگ کے اندر دوستوں اور کنبہ کے درمیان اپنے ’’کمفرٹ زون‘‘ میں ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے وہ یارکشائر کے دوسرے شوقیہ کلبوں میں خوش آمدید محسوس نہ کریں۔ لیگ کےفنانس آفیسر عادل محمود نے کہا، ’’نچلی سطح پر‘‘ آپ باہر کی طرح محسوس کرتے ہیں، یہ ٹیموں اور کلبوں میں ایک ذہنیت ہے، میں نے ہمیشہ مختلف کلبوں میں ایک بیرونی شخص کی طرح محسوس کیا ہے، انہوں نےکہا کہ وہ بریڈ فورڈ لیگ میں آٹھ سال میں تین کلبوں میں کھیلتا رہا، انہوں نے بہت سے کھلاڑیوں کو بہت باصلاحیت ہوتے دیکھا ہےلیکن وہ پائپ لائن میں کہیں کھو گئے اور کاونٹی لیول تک نہیں پہنچ سکے، میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے ،ان کو کون سے مسائل کا سامنا ہے جو وہ اس کو پورا نہیں کر رہے ہیں۔ ای سی بی کےچیف ایگزیکٹو ٹام ہیریسن نے کہا کہ ہم نے طویل عرصے سے برطانیہ میں جنوبی ایشیائی کمیونٹیز میں کھیل کے لیے ان کے جذبے کو تسلیم کیا ہے اور ہمارے بہترین ارادے تھے، ہم نے کبھی بھی پوری طرح سے یہ نہیں سمجھا کہ جنوبی ایشیائی کمیونٹیز کے ساتھ کس طرح مشغول ہونا ہے، یہ رپورٹ ہمیں اسے تبدیل کرنے کےلیے ایک روڈ میپ دیتی ہے۔