پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی، یہ وہ سلوگن ہے، جو اس ادارے کا جھومر اور تاج ہے اور جب ظالم کے ظلم سے ستائے معاشرے کے بے وسیلہ فرد اپنی فریاد لےکر اس ادارے کے در پر پہنچتے ہیں، تو انہیں اس سلوگن کو پڑھ کر تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اگر پولیس سمیت تمام ادارے عوام کا خادم بن کر جو کہ عوام کے خون پسینہ کی کمائی سے دیے گئے ٹیکسوں پر چل رہے ہیں۔ ان کی خدمت کریں اور اپنے فرائض کی بجا آوری ایک قومی فریضہ اور خدمت خلق سمجھ کر اجر آخرت کی نیت سے ادا کریں، تو پورا معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے۔
تاہم جہاں تک اچھے بُرے کی بات ہے، تو پانچوں انگلیاں جس طرح برابر نہیں ہو سکتی ہیں، اسی طرح کسی بھی محکمے میں تمام لوگ ایک جیسے اور فرض شناس ہوں اس وقت ممکن ہوسکتا ہے، جب محکمے کے کارپرداز ان پر کڑی نگاہ اور چیک اینڈ بیلنس رکھنے والے ہوں،جہاں تک محکمہ پولیس سندھ کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے سیاسی مداخلت کے باوجود اس ادارے کو سب کے لیے یکساں خدمات کا مظہر بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، گو کہ پنجاب ،خیبر پختون خواہ اور بلوچستان پولیس کے بارے میں بھی اسی طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
تاہم سندھ پولیس میں ماضی قریب میں جو بھرتیاں کی گئیں، اس بارے میں خود محکمہ پولیس کی اپنی مقررہ کمیٹیوں کی رپورٹ اور اس کے نتیجے میں پولیس اہل کاروں کی محکمہ سے برخواستگی شاہد ہے۔ محکمہ پولیس میں قائد وضوابط کی خلاف ورزی کے ذریعہ کی گئی بھرتی کی تفتیش محکمہ کے ایک سینئر افسر ثناءاللہ عباسی نے بھی کی تھی اور اس کے نتیجہ میں ایک سو سے زائد پولیس اہل کاروں کو جو کہ محکمے کے معیار پر پورا نہیں اترے تھے فارغ کیا تھا۔
دوسری جانب آئی جی سندھ مشتاق مہر کی جانب سے نشہ آور گٹکا مین پوری کی فروخت میں سہولت کاری کے الزام کی تحقیقات پولیس اسپیشل برانچ سے کرا نے کے نتیجے میں ایک درجن ایس ایچ او کو معطل اور لائن حاضر کرنے کی کارروائی کی بازوگشت ابھی باقی تھی کہ ایس ایس پی کیپٹن ریٹائرڈ امیر سعود مگسی نے ضلع کے اٹھارہ پولیس اہل کاروں جن میں کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل شامل ہیں، کو ضلع بدر کردیا ہے۔
اس بارے میں ایس ایس پی امیر سعود نے بتایا کہ ضلع شکار پور سے ضلع شہید بے نظیر آباد تبادلہ کے بعد انہیں شکایات ملیں کہ پولیس میں موجود کچھ کالی بھیڑیں راتوں رات دولت مند بننے کے چکر میں مہلک نشہ آور گٹکا مین پوری اور منشیات کے اسمگلروں کے سہولت کار کا نہ صرف کردار ادا کررہے ہیں، جس اس کی نقل و حمل کے لیے پولیس ٹرانسپورٹ بھی استمال کی جارہی ہے۔
ایس ایس پی امیر سعود نے بتایا کہ ان کے لیے یہ اطلاع کسی دھماکے سے کم نہ تھی، اس لیے انہوں نے فوری طور پر محکمہ کے اچھی شہرت رکھنے والے افسران پر مشتمل ٹیم تشکیل دےکر رپورٹ لی تو معلوم ہوا کہ اٹھارہ پولیس اہل کار نشہ آور گٹکا مین پوری z21سمیت دیگر قسم کی منشیات کی بھتہ خوری میں ملوث اور اس کی ترسیل کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ بلکہ ان میں کچھ پولیس اہل کار قبضہ گروپوں کے ساتھ ملے ہوئے بھی تھے اور اس سہولت کاری کے بدولت انہوں نے خوب مال سمیٹا تھا۔
جب کہ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ اس دھندے میں مختلف تھانوں کے ایس ایچ اوز اور ہیڈ محرر بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں شامل بتائے گئے ہیں اور ان کے خلاف کچھ شواہد بھی ملے ہیں۔ تاہم ان شواہد کی روشنی میں ہماری خفیہ ٹیم جس کے ارکان کے نام ظاہر نہیں کئے گئے ہیں، بلکہ اس ٹیم میں ضرورت کے مطابق افراد کا ردوبدل بھی کیا جارہا ہے، حتمی نتائج حاصل ہونے کے بعد ایسے افسران کو چاہے، وہ ایس ایچ او یا ڈی ایس پی یا محکمے کے کسی بھی عہدے پر فائز افسر ہو، نہیں بخشا جائے گا اور وہ ضرور سزا پائے گا۔
ادھر آئی جی سندھ مشتاق مہر کی جانب سے نشہ آور گٹکا ،مین پوری ماوہ ،z21کی فروخت کا سلسلہ روکنے کے لیے کئے گئے موثر اقدامات، جس میں خصوصی ٹیم تشکیل دے کر چھاپے مارنا اور اس کی ذد میں آنے والے ایک درجن ایس ایچ او کی معطلی اور تنزلی شامل تھی، کو عوامی حلقوں میں بڑی پزیرائی ملی ہے۔ تاہم اب آہستہ آہستہ اس سلسلے میں پولیس کی گرفت کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے ، جب کہ بدقسمتی سے دولت کی ہوس رکھنے والے سیاسی خانوادوں کی بگڑی نسل اپنے بڑوں کے نام کو استمال کرکے اس بھیانک نشے کی مختلف شکل میں کی گئی پیکنگ جس میں پندرہ قسم کے کیمیکل سے تیار کردہ z21شامل ہے اور کو فروخت کرانے میں پیش پیش ہے۔
اس سلسلے میں انچارج سی آئی اے پولیس مبین پرھیار کا کہنا تھا کہ گٹکا بنانے کے مٹیریل کے کئی ٹرک پکڑے ہیں اور ان سینکڑوں بوری مواد سے جہاں لاکھوں کی تعداد میں z21 مین پوری اور ماوہ بنایا جاتا، اس سلسلے میں گرفتار افراد نے اعتراف کیا کہ وہ یہ مٹیریل ملتان سے جیکب آباد لاکر اس کی دوبارہ پیکنگ کرکے سندھ کے مختلف اضلاع میں اس کی سپلائی کررہے تھے، جب کہ اس سلسلہ میں پولیس نے گرفتار ڈرائیور اور مٹیریل مالکان سے بیانات لیے تو انکشاف ہوا کہ بعض اعلی شخصیات کے نہ صرف بیٹے بلکہ بھانجے بھتیجے تک اس زہر کی فیکٹری چلا رہے ہیں۔
دوسری جانب پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی جی مشتاق مہر کی ٹیم تھانے کی حدود میں چلنے والے اڈوں سے چشم پوشی کرنے یا مبینہ طور پر بھتہ وصولی کرکے صرف نظر کرنے والے ایس ایچ اوز کی تنزلی کرکے ضلع بدر کرے۔ اس کے ساتھ جیکب آباد اور کشمور جو کہ حب ہیں گٹکا مین پوری ماوہ اور z21کے جہاں کروڑوں روپیہ کا یہ زہر جو کہ ہماری نوجوان نسل کو کینسر کے لاعلاج خوف ناک مرض میں مبتلا کرکے موت کی وادی میں دھکیل رہا ہے۔ اسٹاک کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، تاکہ ہماری نوجوان نسل جوکہ بقول ڈائریکٹر نورین کینسر اسپتال ڈاکٹر قرت العین جعفری کے نہ صرف نوجوان نسل جس میں اسکول کالج کے بچے بچیاں اور مزدور پیشہ طبقہ بھی شامل ہیں۔
اس زہر کے استمال سے نشے کے عادی اور کینسر میں مبتلا ہوکر معاشرے پر بوجھ اور راہئ عدم ہورہے ہیں کو بچایا جاسکے، جب کہ اس بارے میں سابق ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کا کہنا تھا کہ تمام اضلاع کی حدود جو کہ ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہوتی ہیں اور اگر ایک ضلع کا ایس ایس پی سختی کرتا ہے تو دوسرے ضلع سے جو کہ چند کلومیٹر پر واقع ہوتا ہے اس زہر کی سپلائی شروع ہوجاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو اضلاع کو ملانے والے سرحدی تھانوں کی ذمہ داری دونوں اضلاع کی پولیس کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے ضلع سے دوسرے ضلع میں اس زہر کی ترسیل روکے اس طرح اس زھر کی ترسیل پر قابو پاکر صحت مند اور منشیات سے پاک معاشرہ وجود میں لایا جاسکتا ہے۔