• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کا صوبائی دارالحکومت لاہور گزشتہ چند دنوں سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی لسٹ میں سرفہرست ہے،ہر طرف دھوئیں اور دھند کی آمیزش کی وجہ سے زہریلے ا سموگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں، سردی اور فضا میں نمی کے اضافے کے باعث آلودہ دھند کی لہرشدت اختیار کرگئی ہےجس سےسانس لینے میں شدیدپریشانی کا سامنا ہے،اسپتالوں میں امراضِ قلب ، چیسٹ انفیکشن کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ لاہورسمیت پنجاب کے متعدد علاقوں میں حدِ نگاہ صفر بتائی جارہی ہے، بیشتر مقامات پر نظامِ زندگی عملاََ معطل ہوکر رہ گیا ہے،سنگین نوعیت کے ٹریفک حادثات کے پیش نظر حفاظتی اقدامات اٹھانے پڑ رہے ہیں، موٹر وے کو وقت فوقتاََ چندمتاثرہ مقامات پر بند کیا جارہا ہے،اسی طرح مختلف ایئر لائنز کے فضائی آپریشنز بھی تعطل کا شکار ہیں،تعلیمی ادارے بھی اسموگ سے شدید متاثر ہیں۔یونیورسٹی آف شکاگوکے اعدادوشمارکے مطابق ا سموگ کے باعث ہر پاکستانی شہری کی اوسط عمر میں 2.7سال کی کمی آ رہی ہے، جبکہ لاہور کے ہر شہری کی عمر میں 5.3سال، فیصل آبادکے 4.8 سال اور گوجرانوالہ کے 4.7سال عمر کی کمی آ رہی ہے۔سرحد پار بھی صورتحال مختلف نہیں ہے، بھارتی دارالحکومت نئی دہلی اور پاکستانی سرحد سے ملحقہ علاقے اسموگ سے شدید متاثر ہیں،دہلی کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میںشمار کیاگیاہے جہاں ہرسال موسم سرما میں کارخانوں اورگاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں اورفصلوں کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے ا سموگ کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے ، ایک عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے تیس آلودہ ترین شہروں میں سے بائیس بھارت میں ہیں جبکہ نئی دہلی عالمی سطح پر سب سے زیادہ آلودہ دارالحکومت ہے، اسی طرح 2019ء میں بھارت میں سولہ لاکھ سترہزار اموات فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوئیں، سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ماہ دارالحکومت میں تمام تعمیراتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ، سپریم کورٹ نے دہلی کی پڑوسی ریاستوں میں فصلوں کا فضلہ جلانے پر بھی پابندی عائد کردی ہے،اسکولوں سمیت متعدد تعلیمی و نجی اداروں کو وقتی بندش کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ ہر سال نومبر اور دسمبر میں فضائی آلودگی میں اضافے کی بنیادی وجہ مشرقی پنجاب اور ہریانہ کی پڑوسی ریاستوں کے کسانوں کابھوسا جلانا ہے،دیگر ماحول دشمن سرگرمیاں مثلاً تعمیراتی غبار، فیکٹریوں اور گاڑیوں کا دھواں بھی اسموگ کی وجوہات میں شامل ہیں، بی بی سی کے مطابق شمالی انڈیا میں ہر سال موسمِ سرما میں 80ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر 20لاکھ سے زائد کسان فصلوں کی دو کروڑ 30لاکھ ٹن باقیات جلاتے ہیں، اس آگ سے اٹھنے والا دھواںذرات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کا زہریلا مرکب ہوتا ہے،یہ آگ اتنے وسیع پیمانے پر لگائی جاتی ہے کہ اسے امریکی خلائی ادارے ناسا کی سیٹلائٹ سے بھی مانیٹر کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اسموگ کی صورت میں فضائی آلودگی کا چیلنج صرف پاکستان اور بھارت کو ہی درپیش نہیں بلکہ عالمی طاقتیں بشمول چین، روس اور امریکہ بھی اس سے نبرد آزما ہیں۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ سمیت مختلف علاقے بھی اس وقت اسموگ کی لپیٹ میں ہیں، ماہرین کے مطابق چین کے شمالی حصے میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی کوئلے کا استعمال فضا میں آلودہ دھند کا باعث بنتا ہے۔تاہم حکومت چین نے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ گریٹ گرین وال جیسی شجرکاری مہم کے دوران بارہ صوبوں میں 35بلین درخت لگائے ہیں، چین میں درختوں کی یہ بڑی تعدادفضائی آلودگی کا بخوبی مقابلہ کررہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فضائی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے سارا سال مسلسل کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، تاہم اسموگ کا سامنا ہمیں ہر سال ایک مخصوص سیزن میں کرنا پڑتا ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ خطے کے ممالک اس مشترکہ مسئلے کے خلاف تعاون بڑھانے کے بجائے الزام تراشی میں مصروف ہیں، پاکستان میں اسموگ کا ذمہ دار بھارتی پنجاب میں فصلیں جلانے کو قرار دیا جاتا ہے تو بھارت اس حوالے سے پاکستان ا ور چین کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ مختلف عالمی معاہدےبالخصوص پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ ، آسیان، ساؤتھ ایشیین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن، مالے ڈیکلیریشن ریاستی سطح پر فضائی آلودگی کی روک تھام کیلئے تعاون پر زور دیتے ہیں۔ میری نظر میں ہمارے خطے کا سب سے بڑا مسئلہ عوامی ایشوز پر حکومتی تعاون کا ناپید ہونا ہے، ہم دوطرفہ امن، سرحدی تنازعات اور دیگر حساس معاملات پر تو ڈائیلاگ کی اہمیت سمجھتے ہیں لیکن اسموگ جیسا ایشوز جس سے خطے میں بسنے والے تمام لوگ بلا تفریق متاثر ہیں، اس پربات کرنے سے کتراتے ہیں۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ پڑوسی ممالک عوام کو اسموگ جیسے موذی عفریت سے محفوظ رکھنے کیلئے سیاسی اختلافات اور سرحدی کشیدگی سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایسے ماحول دشمن اقدامات سے گریز کریں جن کا خمیازہ پورے خطے کو بھگتنا پڑتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین