• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ضمنی انتخابات میں مسلسل کامیابی: پنجاب میں ن لیگ کی مقبولیت کم نہ ہوسکی

نصف مدت پوری کرنے کے بعد حکومت کو ہر میدان میں مشکلات کا سامنا ہے، کہا جارہا ہے کہ اس بار حکومت اپنے ہی پیدا کردہ بھنور میں پھنس گئی ہے، عوامی و سیاسی حلقے اسے ناکام اقتصادی پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں، پشاور سے گورنر شاہ فرمان، ڈپٹی سپیکر، پی ٹی آئی کے 6ایم این این اے، 7 سینٹرز، 13ایم ہی ایز، مردان سے علی محمد خان، عاطف خان، ہری پور سے گوہر ایوب، اکبر ایوب، یوسف ایوب، صوابی سے سپیکر اسد قیصر شہرام ترکئی، کوہاٹ سے شہریار آفریدی ڈی آئی خان سے علی امین گنڈا پور سمیت دیگران نے بھرپور کوشش کی کہ میئر و مقامی حکومت کے انتخاب میں اپنی جیت کو یقینی بنائیں لیکن عوام نے تبدیلی کا نقاب اتار پھینکا ہے۔ 

ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی مسلسل کامیابیوں اور خیبر پختونخواہ میں میئر کے انتخابات میں جے یو آئی ف اور ویلج کونسلوں میں غیرحکومتی امیدواروں کی کامیابی نے خطرے کی ایک نہیں بلکہ کئی گھنٹیاں بجا دی ہیں، کے پی کے جن حلقوں میں انتخابات کروائے گئے وہ تحریک انصاف گڑھ مانے جاتے ہیں وہاں سے ناکامی نے تحریک انصاف کو بہت بڑا دھچکا لگایا ہے۔ 

دوسرے مرحلے میں انتخابات میں کیا نتائج آئیں گے وہ نوشتہ دیوار بن چکا ہے، کے پی میں تحریک انصاف کی ناکامی سے ایک بڑا سیاسی سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ اب کونسی سیاسی پارٹی آئندہ انتخابات میں قومی پارٹی کا کردار ادا کرے گی، تبدیلی کے داعیوں کی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے، صاف پتہ چل رہا ہے کہ نہ صرف سیاسی بساط میں بڑی اکھاڑ پچھاڑ کا وقت زیادہ دور نہیں ہے بلکہ حکومتی پارٹی کی ہر سطح پر پسپائی کے بعد معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، تمام تر مصائب کے باوجود ن لیگ نے رائے عامہ بنا دی ہے کہ آئندہ انتخابات میں صرف وہی قومی پارٹی کا اعزاز حاصل کرے گی۔ 

سیاسی حلقے یہ جان کر بہت خوش ہیں کہ اب انتخاب ووٹوں سے ہوگا، ڈسکہ الیکشن ہو یا خانیوال ن لیگ کی کامیابی نے کامیابی کا جھنڈا گاڑ کر اپنی عوامی طاقت ثابت کردی ہے جب اس کے مخالفین کو تمام ذرائع استعمال کرنے کے باوجود شکست ہوئی ہے، پیپلز پارٹی بھی ضمنی انتخابات میں متحرک ہو گئی ہے، جو نہ ہی اچانک اور نہ ہی بےوجہ ہے لیکن یہ چائے کے کپ میں طوفان سے زیادہ نہیں ہوگا کیونکہ پنجاب میں ن لیگ نے اپنا سکہ جمایا ہوا ہے اور نئے انتخابات کیلئے صف بندی شروع ہو گئی ہے، سیاسی پرندے دوبارہ ن لیگ سے رابطے استوار کرنے میں لگ گئے ہیں، کسی بھی حکومت کیلئے ہیرو سے زیرو بٹا زیرو بننا اتنا آسان نہیں ہوتا، اس کیلئے پوری ایمانداری سے دن رات منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے، جھوٹوں کا ایفل ٹاور کھڑا کرنا پڑتا ہے، عوام کی چمکتی آنکھوں سے خواب چھیننے پڑتے ہیں۔ 

ان کے منہ سے روٹی کے دو نوالے تک نکالنے پڑتے ہیں، عوام کو بڑی تعداد میں بےروزگار کرنا پڑنا ہے، عوام پر مہنگائی کے کوڑے برسانا پڑتے ہیں، پچھلے تین برسوں میں عوام نے جتنی تکالیف کا سامنا کیا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، مستند ایماندار جسٹس وجیہہ الدین نے بنی گالہ کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے بارے جو انکشاف کیا ہے اس نے حکومت کو بہت بڑا ڈینٹ ڈالا ہے، عوامی حلقوں میں ان کی رہی سہی عزت کا دیا بھی گل ہو گیا ہے، ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت اس معاملے پر بیان بازی کے علاوہ کچھ بھی کارروائی کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ لوگ آہستہ آہستہ یہ بھی بھول جائیں گے، او آئی سی کانفرنس پاکستان میں منعقد کرنے پر سیاسی و عوامی حلقے برملا کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت نے غاصبانہ طریقے سے ضم کر لیا لیکن او آئی سی نے اُف تک نہیں کیا، عوام برملا کہہ رہی ہے کہ ساڑھے تین برسوں میں ہمیں مہنگائی کے الائو میں تپا دیا گیا ہے لیکن کسی کو پاکستان میں پیدا ہونے والے انسانی المیے بارے سوچنے کا خیال نہیں آیا البتہ اس افغانستان کے انسانی المیے بارے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں جس کے سیاست دان کھلے عام اور کھلاڑی میدان میں ہمیں دشمن قرار دیتے آر ہے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین