• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا کے معروف میگزین اور کاروباری جریدے ’’فوربز‘‘،ٹائم میگزین کے علاوہ بین الاقوامی شماریاتی اداروں نے دنیا کے با اثر طاقت ور ممالک 2021کی فہرست جاری کی ہے ، جس کے مطابق بالتر تیب امریکا پہلے نمبر پر ، چین ، روس ، یورپی یونین دوسرے ، تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں، جب کہ بھارت پانچویں نمبر پر ہے۔ یہ فہرست ان ممالک کی معیشت، آبادی، دفاع، تعلیم، کلچر اورٹیکنالوجی کی جائزہ رپورٹس کے مطابق مرتب کی گئی ہے۔ ذیل میں2021ء کے ’’12‘‘ طاقت ور ممالک کے بارے میں ملاحظہ کریں:

ریاست ہائے متحدہ امریکا

ریاست ہائے متحدہ امریکا53 ریاستوں پر مشتمل ہے۔ آبادی تینتیس کروڑ سے زائد ہے۔ رقبہ 92 لاکھ مربع کلو میٹر کے برابر ہے۔ مجموعی سالانہ آمدن 23 ٹریلین ڈالر سے کچھ زائد ہے جبکہ فی کس سالانہ آمدنی 70 ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔، امریکا کی جمہوری روایات ، انسانی حقوق اور اظہار رائے کی روایات مستحکم ہیں۔ فری اکنامی کا زبردست علم بردار ہے۔ امریکا کے صنعتی، زرعی، تعلیمی، تحقیقی، معاشرتی، سماجی جدید ترقی یافتہ اور فعال ہیں۔ سائنسی اور تحقیقی میدان میں بے حد ترقی یافتہ ہے۔ امریکی خلائی تحقیق کا ادارہ ناسا بہت اہم اور منظم ہے۔ امریکانے گزری صدی میں بڑی سرعت سے ترقی اس دورر میں یورپی ممالک کے بیشتر سائنس داں، انجینئرز، پروفیسرز، مصنفین، موسیقار اور فنکار ہجرت کر کے امریکا میں آبسے جن میں معروف سائنس دان آئن انسٹائن بھی شامل تھے۔ 

اس برین ڈرین سے امریکا کی ترقی مزید تیز ہو گئی۔ دفاعی طور پر بھی امریکابڑی طاقت بن کر ابھرا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکاکی کوئی قدیم تاریخ نہیں ہےاس لئے کہا جاتا ہےکہ امریکی تاریخ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ امریکی سیاست نے ترقی پذیر ممالک کی سیاست اور معیشت پر خاصے منفی اثرات مرتب کئے۔ امریکانے درحقیقت پوری دنیا میں اپنا ایک کلچر متعارف کرایا اور اہم ملک بن گیا۔ جین کی پتلون، کوکو کولا، خواتین کی آزادی ہالی ووڈ موویز، موسیقی، فاسٹ فوڈ وغیرہ کلچر متعارف کرا کر دنیا میں اپنا الگ نمایاں مقام بنایا۔ یہاں سب سے زیادہ نوبل انعام یافتہ شخصیات ہیں، دوسرے لفظوں میں امریکہ جمہوریت، آزاد معیشت اور جدید کلچر کا علم بردارہے۔

عوامی جمہوریہ چین

عوامی جمہوریہ چین اس وقت دنیا کی بڑی معیشت بن کر سامنے آیا ہے،جس کی مجموعی سالانہ آمدنی 26 ٹریلین سے کچھ زائد ہے۔ آبادی ایک ارب چالیس کروڑ کے لگ بھگ، جبکہ سالانہ فی کس آمدن 12ہزار کے لگ بھگ ہے۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی 22 لاکھ ، جبکہ ریزرو ٹیم تربیت یافتہ رضا کار12لاکھ کے قریب ہیں۔ دفاعی اعتبار سے بھی چین تقریباً امریکا کے ہم پلہ تصور کیا جاتا ہے۔ چین نے 80 کی دہائی میں اپنی معاشی پالیسی میں بڑی لچک پیدا کی ،عالمی منڈی میں اپنی نمایاں جگہ بنائی ۔ چین کے صدر شی جن پنگ کا عزم ہے کہ چین کو 2050 تک ہر اعتبار سےنمبرون ملک بنائیں گے اور کوئی چینی باشندہ بے روزگار نہیں ہوگا۔ 

چین کی تاریخ بہت قدیم ہے، منگولوں اور وسطی ایشیائی قوتوں نے ماضی میں چین کو بار بار فتح کر کے مصائب و آلام کا شکار بنایا، تب ہی چین نے منگولوں کے عذاب سے محفوظ رہنے کے لئے دیوار چین تعمیر کی تھی جو دنیا کے عجائبات میں ایک عجوبہ ہے۔ چین نے سال 2021 میں اپنی کمیونسٹ پارٹی کی صدسالگرہ منائی ہے۔ اس پارٹی نے ملک میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لئے بڑی جدوجہد کی، بے شمار قربانیوں کے بعد 1949 میں چین نے پرانا چولا اتار پھینکا اور انقلابی حکومت تشکیل دی۔

چین کے انقلابی رہنما ماوزے تونگ نے ساٹھ کی دہائی میں ثقافتی انقلاب برپا کیا۔ ان کے بعض اقدام پر نکتہ چینی بھی ہوئی مگر اصل کامیابی اور ترقی کا راستہ معاشی پالیسی میں تبدیلی سے میسر آیا۔ امریکہ کا چین پر الزام ہے کہ وہ ون بیلٹ، ون روڈتجارتی منصوبہ کے تحت دنیا کی معیشت پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے، مگر چین ایسے تمام الزامات کو رد کرتا ہے۔ تاحال افریقی جنوبی امریکی ممالک میں ڈیڑھ ٹریلین سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے اور مزید سلسلہ جاری ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی چین بہت آگے نکل چکا ہے۔

روس

روس کو دنیا کا تیسرا طاقتور ملک شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ پونے دو کروڑ مربع کلو میٹر ،آبادی چودہ کروڑ سے زائد ، سالانہ مجموعی آمدنی 4.5 ٹریلین ڈالر ، جبکہ سالانہ اوسط آمدنی 12 ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ روس کا شمالی برفانی ساحل اور سائبریا کا وسیع برفانی علاقہ طرح طرح کی معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ اس کے وسیع جنگلات اہم قدرتی ذریعہ ہیں۔ ماہرین ارضیات کا دعویٰ ہے کہ روس کے قدرتی وسائل کی مجموعی لاگت کا اندازہ 4 تا 6 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے اگر روس معدنیات کی کھدائی اور فروخت شروع کردے تو دنیا کی پہلی بڑی طاقتور سپر پاور بن کر ابھر سکتا ہے۔ سائنس دانوں اور روسی ماہرین ماحولیات کا کہنا کہ گلوبل وارمنگ پوری دنیا کے لئے عذاب بن رہی ہے مگر روس کے لئے باعث رحمت ہے کیونکہ شمالی بحر اوقیانوس اور روس کے شمال سمندریں، سائبریا کے وسیع برفانی خطے کی برف پگھل رہی ہے اور آہستہ آہستہ ان علاقوں میں آباد کاری بھی ہو رہی ہے۔ 

اس حوالے سے روس جلد ہی سائبریا کے برفانی خطے سے معدنیات نکالنا شروع کر دے گا، تاہم اس کے پاس تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہیں جو وہ یورپی ممالک کو فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ کو تشویش ہے کہ یورپی ممالک کا تیل گیس کے حوالے سے روس پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد 1991 میں روسی فیڈریشن نے ازسر نو اپنے آپ مستحکم کیا۔ سچ یہ ہے کہ سوویت روس اپنی ناکام معاشی پالیسی کی بدولت منتشر ہوا،مگراس کی امکانی قوت اس کو پھر سے سپر پاور سنا سکتی ہے۔

یورپی یونین

یورپی یونین براعظم یورپ کے ستائس ممالک کا اتحاد ہے۔ سوائے برطانیہ کےجو یونین سے جنوری 2020 میں الگ ہوگیا۔دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی ممالک اپنی اپنی زبانوں پر ثقافتوں، قوم پرستی اور نسل پرستی کے بخار میں مبتلا رہے، تاہم برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل نے زیورچ یونیورسٹی میں اس مسئلے پر سیر حاصل تقریر کی تھی اور تجویز دی تھی کہ یورپی ممالک ریاستہائے متحدہ یورپ بنائیں، یہ وقت کی ضرورت ہے مگر اس پر اس وقت عمل نہ ہوا،تاہم چند برس بعد پانچ ممالک نے یورپی کونسل قائم کرلی۔ بعدازاں روم میں 1957 میں یورپی کونسل کے اجلاس میں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزاد معیشت کی بنیاد پر یورپی اتحاد کے قیام کا معاہدہ طے پایا، مگر 1993 میں حقیقی طور پر یورپی یونین کا نظریہ فروغ پایا۔

برطانیہ اپنی وسیع نو آباد بات کی وجہ سے اور یورپ سے کٹا جزیرہ ہونے کی وجہ سے یورپی اقوام سے زیادہ تر الگ الگ ہی رہا۔ یورپ میں برطانیہ کو مچھروں کی بستی کہا جاتا تھا،کیونکہ ماضی میںاس ملک کا گزر بسر زیادہ تر ماہی گیری پر ہوتا تھا۔ یورپی یونین نے ایسے اقدام کئے کہ وہ ایک برادری میں ڈھل جائیں، خاص طور پر ویزا ختم کر دیا، کرنسی ایک کردی اور تجارت میں بھی بیشتر سہولتیں و مراعات دےدیں۔ دیکھیں آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ تاہم یونین ایک بڑی مشترکہ قوت بن کر ابھر رہی ہے۔

برطانیہ

برطانیہ چار مختلف علاقوں کا مجموعہ ہے۔ انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمال آئرلینڈ، ا برطانیہ کا مجموعی رقبہ چوبیس ہزار مربع کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ 1920 تک برطانیہ دنیا کی سپر پاور اور سب سے زیادہ طاقتور ملک تھا۔ ایک تہائی آبادی اس کی غلام تھی اور دنیا کا ایک چوتھائی حصہ اس کے زیر تسلط دنیا میں، جابجا اس کی کالونیاں تھیں۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں تاجر انگریز باشندے تجارت کرتے ہوئے آہستہ آہستہ دنیا کے مختلف ممالک پر قابض ہو گئے۔ برطانیہ کی سب سے بڑی اور سب سے امیر ترین کالونی یا نو آبادیات ہندوستان تھا۔ 

یورپی نو آباد کاروں پرتگال، اسپین، فرانس اور برطانیہ نے دنیا پر ظلم بھی بہت ڈھائے دوران کا استحصال بھی بہت کیا۔ ہالینڈ اور بیلجیم ان کے بغل بچہ رہے۔ سترہویں صدی کے اوائل میں برطانیہ اور ہالینڈ کی ملکہ نے اشتراک سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی ، اس کے بعد کیا ہوا یہ سب کے علم میں ہے۔ برطانیہ کی مجموعی سالانہ آمدنی 3.4 ٹریلین ڈالر ہے۔ آبادی پونے سات کروڑ کے قریب ہے۔ 

فی کس سالانہ آمدنی 46 ہزار ڈالر ہے۔ برطانیہ کا سیاسی، معاشی اور سماجی اثر انگریزی کی وجہ سے ہے انگریزی دنیا میں اپنا سکہ جما چکی ہے۔ برطانیہ نے سائنس، تعلیم، تحقیق، ایجادات اور دریافتوں میں بھی بہت نمایاں رہا ہے۔ دنیا کے معروف سائنس داں موجد جن میں آئیزک نیوٹرز، چارلس ڈارون، اسٹیفن ہاکٹس، جیمس کلارک، فلیمنگ، فرانس کلارک وغیرہ انگلینڈ میں پیدا ہوئے۔ برطانوی سائنس دانوں نے امریکہ میں جوہری بم کی تیاری میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ برطانیہ اپنی روایت پسندی کے لئے بھی بہت مشہور ہے۔ برطانیہ نے امریکہ کی طرح دنیا کو دیا بھی بہت اور لوٹا بھی بہت، زخموں پر مرہم رکھنے کا سامان بھی کیا اور دنیا کو زخم بھی بہت دیئے۔

فرانس

فرانس یورپ کا بہت اہم ملک ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے بعد فرانس کی یونین میں اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ فرانسیسی عوام اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت پر بہت ناز کرتے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے فلاسفر، مصنف، شاعر، موسیقار، مصور اور فن کار پیدا ہوئے، جن میں روسو، بالزمک، سارتر، ہوگو، دانتے، ہومر، ایمل زرلا، البرٹ کاسیو، اسپائی نوزا، کانٹ، والشائر وغیرہ شامل ہیں۔

فرانسیسی عوام کو اپنی زبان، ثقافت اور اپنی سرزمین سے والہانہ لگائو ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فرانس یورپ کی تہذیب و تمدن کا مرکز ہے۔ نفاست، نگارش اور نزاکت فرانس کا وتیرہ رہا۔ یہ خصوصیات فرانس کی عام زندگی کے علاوہ شاعری، مصوری، آرکیٹکٹ، فنون لطیفہ میں نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ علم و دانش، تعلیم و تحقیق اور سائنسی علوم میں بھی بہت ترقی یافتہ ہے۔ یورپ کی تمام علمی، ادبی، ثقافتی تحریکوں کا بانی رہا ہے۔ دسویں بڑی معیشت، دنیا کی پانچویں بڑی اور جدید ترین اسلحہ سے مسلح فوج ہے۔ جوہری ہتھیاروں کا تیسرا سب سے بڑا ذخیرہ فرانس کے پاس ہے۔ اس کی عسکری طاقت زمین، سمندر، فضا اور خلاء تک پہنچ رکھتی ہے۔ جدید سینمار آرٹ، فیشن، ادب، شاعری میں بڑا مقام رکھتا ہے۔ تعلیم کا اوسط99 فی صد ہے۔ دنیا کے سیاحوں کا مرکز نگاہ ہے یہاں ہر سال 90 ملین سیاح آتے ہیں۔

بھارت

بھارت آبادی میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جس کی آبادی ایک ارب پینتیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں بھارت آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ بھارت کی سالانہ آمدنی 10.4 ٹریلین ہے جبکہ سالانہ فی کس آمدنی ڈھائی ہزار ڈالر کے مساوی ہے۔اس کی معیشت دنیا میں17نمبر میں شمار ہونے لگی ہے۔ جمہوری نظام رائج ہے۔ آئین کے مطابق مقررہ مدت میں عام انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔ بھارت میں پہلی اکائی ہندووں کی اور دوسری بڑی اکائی مسلمانوں کی ہے اس کے بعد سکھ، چین، بدھ مت، عیسائی شمار ہوتے ہیں۔ بھارت کی قدیم تاریخ میں بہت سے پڑائو ہیں۔ ہندوستان میں آریاوں کی آمد سب سے بڑا پڑائو تھا جس نے ہندو قوم کی ہیت بدل کر رکھ دی۔ چھوت چھات اور نسلی امتیازات آریاوں کا تحفہ ہے۔ 

قدیم بھارت کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ ایک خدا کی عبادت کرتے تھے۔ ایک دیش ایک قوم تھی، ذات پات کا شائبہ تک نہ تھا پھر کلچر تبدیل ہوا، ذات پات کا عمل شروع ہوا ہر جاندار اور بے جان چیز کی پوجا کا سلسلہ شروع ہوا۔ تاریخ دان لکھتے ہیں ہندوستان میں تیس کروڑ سے زیادہ بھگوان، اوتار اور خدا ہیں۔ صنم تراشی کا فن عروج پر ہے۔ آریاوں نے ہندو قوم کو پابند کرنے کے لئے انہیں سمندر پار سفر اور گوشت کھانے سے منع کر دیا۔ ہندوستان کو ہمالیہ سے راس کماری تک ریاستوں سیکڑوں راجدھانیوں میں تقسیم کر دیا، اس نے قدیم ہندوستان کے دور ہی سے بیگانگی کو فروغ دیا۔ اعلیٰ اوصاف، علم و ہند، سیاست اور طاقت صرف ایک بالائی طبقہ تک محدود کردی گئی جو برہمن کہلاتا تھا۔ بھارت ابھی تک اس دکھ میں مبتلا ہے اور معاشرہ تقسیم ہے۔

جاپان

جاپان بحرالکاہل کے مشرق میں ایک بڑا جزیرہ ہے، ا س کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ آبادی پونے تیرہ کروڑ کے قریب ہے۔ قوم محنتی اپنے ہدف پر نگاہ رکھنے والی اور جرات مند ہے۔ مجموعی سالانہ آمدنی 5.6 ٹریلین ڈالر ہے، جبکہ سالانہ فی کس آمدنی 44 ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جاپان کا فوری مسئلہ یہ ہے کہ اس کی آبادی کا بڑا حصہ ساٹھ سال سے زائد عمر والوں پر مشتمل ہے۔ گزرے دس برسوں کے اعداد و شمار کے مطابق بتدریج جاپان کی آبادی میں اضافے کے بجائے کمی واقع ہو رہی ہے۔ انڈسٹریز بہت وسیع اور جدید ہے۔ ٹیکسٹائل، کیمیکل، کاریں، ٹول بنانے، مشینری، سربند خوراک، ادویات اور دیگر اشیاء کے کارخانے ہیں۔ دنیا کا جدید انفرا اسٹرکچر اور جدید ٹرانسپورٹ ہے۔ 

جاپان دوسری عالمی جنگ کے دور میں ایشیا اور بحرالکاہل میں فتح کا پرچم لہراتے ہوئے برما تک پہنچ چکا تھا۔ پرل ہاربر پر جاپان کا تاریخی حملہ اور امریکا کی ہزیمت ایک اہم جنگی تاریخی واقعہ ہے۔ جاپانیوں نے پرل ہاربر پر اپنا سارا غصہ اس لئے نکالا کہ امریکا نے جاپان کو اناج کی فراہمی بند کردی تھی، مگر جاپانی سپاہی جس جوش اور جنون سے جنگ لڑ رہے تھے وہ سب کے لئے باعث تشویش تھا۔ جاپان جنگ بند کرنے پر قطعی تیار نہ تھا ایسے میں امریکہ نے اس سے بھی زیادہ وحشت ناک عمل کیا اور جاپان کے دو جزائر ایک بعد دوسرا ایٹمی حملہ کر دیا۔ اس سے نہ صرف جاپان بلکہ پوری دنیا دم بخود رہ گئی۔ جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے۔

وفاقی جمہوریہ جرمنی

وفاقی جمہوریہ جرمنی کی کل آبادی آٹھ کروڑ تیس لاکھ ،سالانہ آمدنی 4.7 ٹریلین ڈالر اورسالانہ فی کس آمدنی باون ہزار سے زائد ہے۔ جرمنی دنیا کے جدید ترقی یافتہ ممالک میں نمایاں ہے۔ دوسری عالمی جنگ میںیہ نہ صرف تباہ ہوا بلکہ اس کے دو حصے کر دیئے گئے تھے، مشرقی اور مغربی جرمنی۔ سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد جرمنی پھر متحد ہوگیا۔ دیوار برلن گرادی گئی تھی۔ جرمن قوم محنتی، جفاکش اور جری واقع ہوئی ہے۔ ستر کی دہائی تک جرمنی نے تیز رفتار ترقی کر کے دنیا کی اولین صف میں اپنی جگہ بنالی۔ 1949 میں جرمن ایکٹ کے تحت انتخابات ہوئے تو جرمن عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ 1953 تا 1945 کا دور فسطائیت اور ہٹلر کے نازی ازم کا دور تھا ،جس میں اڈونف ہٹلر نے تقریباً پوری قوم کو فسطائیت کے جنون میں مبتلا کر دیا تھا۔ روس کے ہاتھوں جرمن نازی لیڈر کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جرمن وار مشن تباہ ہوئی۔ ہٹلر نے خودکشی کرلی۔ جرمنی نازی ازم اور جنونیت سے آزاد ہوا۔ 

جرمنی نے دستور کے مطابق جمہوری عمل کا سلسلہ جاری رکھا اور بتدریج تمام شعبوں میں تیزی سے ترقی کرتا گیا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں جرمنی نے عظیم فلاسفر، موسیقار، ماہر تعلیم، سائنس دان، مصنفین، شاعر، موسیقار، مصور پیدا کئے ، کو ہیگل، مارکس، نطشے، اینگل، فریگٹس، اسپینگلر جیسے عظیم فلسفیوں سے نوازا۔ فلسفے، نثر نگاری، شاعری، ڈرامہ نگاری، موسیقی میں دنیا کو ایک اہم ورثہ عطا کیا۔ جرمن قوم جفاکش اور محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ رزق جمالیات سے بھی بخوبی آشنا رہی اور اعلیٰ ذوق رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں متنوع، حسن اور دلکشی دکھائی دیتی ہے۔ جرمنی نے انسانی فلاح و بہبود کیلئے بھی نمایاں خدمات سرانجام دیں۔

براعظم آسٹریلیا

آسٹریلیا ،بحرالکاہل کے جنوب مشرق میں واقع ہے اس کو براعظم کا درجہ بھی حاصل ہے۔ اس کی آبادی پونے تین کروڑ کے قریب ہے۔ سالانہ آمدنی 1.9 ٹریلین ڈالر جبکہ فی کس سالانہ آمدنی باسٹھ ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ سب سے پہلے سترہویں صدی کے اوائل میں ہالینڈ کے جہاز رانوں نے یہ براعظم دریافت کیا تھا۔ برطانیہ نے ڈیرھ سو سال بعد 1788 میں ہالینڈ پر اپنا تسلط جمایا۔ ہالینڈ سے معاہدہ کیا۔ ابتدا سے آسٹریلیا میں جمہوری نظام رائج ہے۔ اس کا دارالخلافہ کینبرا جدید شہر اور بحرالکاہل بحرہند کا سیاسی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ سڈنی اور برسبن بڑے تجارتی مرکز ہیں۔ آسٹریلیا میں چار موسم ہیں قطب جنوبی کی وجہ سے موسم سرما، موسم گرما، موسم خزاں اور بہار نے وہاں زرعی پیداوار پر اچھا اثر ڈالا ہے۔ دوسری طرف اسی خطے میں معدنیات کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں۔ دفاعی طور پراس کی افواج نویں نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ 

حال ہی میں برطانیہ اور امریکا کے اشتراک سے آسٹریلیا کو جوہری آبدوز دی گئی ہے جس پر چین سراپا احتجاج ہے۔دوسری عالمی جنگ میں جب جرمنی کی جارحیت عروج پر تھی ، فسطائیت کا زور تھا تب برطانیہ اور یورپ کے بیشتر عوام آسٹریلیا کو اپنی محفوظ پناہ گاہ تصور کرتے تھے۔ آسٹریلیا صنعتی، زرعی، تعلیمی، تحقیقی اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے ہر شعبہ میں ترقی یافتہ اور نمایاں ہے۔ کھیلوں، صحت کے شعبے میں بھی وہ نمایاں رہا ہے۔ برطانیہ سے نسلی اور سیاسی رشتے ہمیشہ مستحکم رہے ہیں اس لئے دولت مشترکہ کا رکن ہے اور رسمی طور پر برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ دوئم کی ہر دفتر میں تصویر آویزاں کی جاتی ہے ۔ مستقبل قریب میں آسٹریلیا اہم کردار ادا کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔

اٹلی

اٹلی ایک زمانہ میں یورپ کا اہم ترین ملک مانا جاتا تھا۔ ۔ اٹلی کا ربہ تیرہ لاکھ مربع کلو میٹر کے قریب اور آبادی چھ کروڑ ہے۔ مجموعی آمدنی پونے تین ٹریلین، جبکہ سالانہ اوسط آمدنی پینتیس ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ قدیم ثقافت، رہن سہن اور رویئے میں قدیم مصر اور قدیم ہندوستانی تہذیبوں کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اٹلی یورپ کے اہم ترین سیاحتی مراکز میں سر فہرست شمار ہوتا ہے۔ سیاحت کا شعبہ بہت وسیع اور فعال ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں سیاح یہاں آتے ہیں۔ روم کے کھنڈرات اور قدیم طرز تعمیر ہر ایک کی دلچسپی کاباعث ہوتا ہے۔ اٹلی صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملک ہے البتہ معاشی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ مستحکم نہیں ہے۔یہ خوبصورت ملک اور بحیرہ روم کا آب دار موتی ہے۔

کینیڈا

کینیڈا کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق پونے چار کروڑ سے زائد ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے یہ ملک بہت بڑا ہے ۔مشرق میں بحراوقیانوس شمال اور مغرب میں بحرالکاہل سے گھرا ہوا ہے۔ دو سرکاری زبانیں رائج ہیں، انگریزی اور فرانسیسی، اکثریت انگریزی اور دوسرے نمبر پر فرنچ بولنے والے ہیں۔ تارکین وطن بھی بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں جو ایشین اور افریقن باشندوں پر مشتمل ہیں، باقی عرب، چینی اور دیگر غیر ملکی آبادی آباد ہے۔ ملک میں جمہوریت ہے ۔

آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کی طرح یہ بھی دولت مشترکہ کا رکن ہے۔ ملکہ ایلزبتھ ان کی رسمی سربراہ ہے۔ کینیڈا کا ایک پڑوسی ہے امریکا جس سے اس کی جنوبی سرحد ملتی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین آزاد آمد و رفت ہے۔ ہزاروں کینیڈین امریکہ میں ملازمت کرتے ہیں، اسی طرح امریکی باشندے کینیڈا میں ملازمت کرتے ہیں۔ 

مشہور زمانہ نیا گرا فال اسی سرحد کے قریب واقع ہے جو دنیا کا سب سے بڑا آبشار ہے۔ کینیڈا سرد ملک کہلاتا ہے مگر گزشتہ دس پندرہ برسوں سے گلوبل وارمنگ نے وہاں بھی اپنا منفی اثر دکھانا شروع کیا ہے اور اکثر ہیٹ وے کا سلسلہ رہتا ہے۔ گزشتہ موسم گرما میں کینیڈا میں ہیٹ وے کی وجہ سے ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کنیڈا کو دنیا کے دسویں طاقت ور ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جس کا گراف امن، بھائی چارہ، صفائی ستھرائی اور سماجی طور پر بلند درجہ رکھتا ہے۔ دنیا کی دسویں بڑی معیشت ہے۔ قدرتی وسائل اور معدنیات کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ جنگلات وسیع ہیں۔ مستقبل میں کینیڈا مزید اہم ملک اور مزید بڑی طاقت بن کر ابھر سکتا ہے کیونکہ اس ملک کے پاس ترقی کے تمام لوازمات اور امکانی قوت موجود ہے۔ عام باشندے مہذب تعلیم یافتہ اور امن پسند واقع ہوئے ہیں، تاہم ملٹی کلچر معاشروں میں چھوٹے موٹے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں یہ ایک فطری عمل ہے۔

(لے آؤٹ آرٹسٹ :نوید رشید)

تازہ ترین