• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمزور معیشت کمزور خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اگرعاقبت نااندیشی کا سفر چل رہا ہو تو پھر کچھ بھی ممکن ہو جاتا ہے کہ جس سے محفوظ رہنا اتنا مشکل بھی نہیں ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکہ اوریورپ کے حوالے سے تو کیا بہتری کی جانب گامزن ہوتی، صورتحال یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ ہماراعزیز دوست سعودی عرب بھی پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ چکا ہے اور ہم اب اس بات پر درگزر کے خواہاں ہیں بلکہ ہمیں بلا کر معافی منگوائی جا رہی ہےکہ ہمارا سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے کوئی اور نظریہ پیش کرنے کی جرأت کیسے ہوئی ؟ ایک دستاویزی فلم بنائی گئی جس میں سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اسباب کو بیان کیا گیا ۔ شیخ مجیب کے حوالے سے یہ تصور پیش کیا گیا کہ ان کا وہ موقف مشرقی پاکستان میں رہتے ہوئے نہیں تھا جو انہوں نے بنگلہ دیش میں بیان کیا ۔ یہ ایک تاریخی بحث ہے اس دستاویزی فلم کو ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا اور پھر نہ صرف اس کو ہٹا دیا گیا بلکہ اس کو پوسٹ کرنے پر معافی مانگی گئی یعنی کہ ہم پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے بھی اگر شیخ مجیب کی بیٹی کے پڑھائے گئے سبق سے ہٹ کر کسی معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ایسا ممکن نہیں بلکہ ہمیں اس پر معافی مانگنی پڑے گی تاکہ شیخ مجیب کی بیٹی کی تسلی ہو سکے‘ اس سے زیادہ خطے میں،ہم اور کیا کمزور ہوں گے ؟ یہ معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ کمزوری کا ایک دوسرا پہلو بھی سامنے آیا ۔ افغان طالبان کے برسراقتدار آنے سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب اس طرف کے خطرات ختم اور ہمارے زخم مندمل ہو جائیں گے ۔ خیال رہے کہ افغانستان سے، شروع دن سے پاکستان کو پاکستانی امور میں مداخلت اور ڈیورنڈ لائن کی طرف سے دراندازی کا سامنا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی نے جب اپنے خونیں پنجے بھی گاڑ لئے تو نسلی بنیاد پر مشتعل کرنے کیساتھ یہ ہتھکنڈا بھی اب وہاں سے استعمال ہونے لگا ۔ افغان طالبان جب حال ہی میں برسراقتدار آئے تو پاکستان میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ کابل کی طرف سے روز روز کے معاندانہ بیانات اور اقدامات سے اب جان چھوٹ جائے گی ۔ پاکستان افغان طالبان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتا ہے اور پاکستانی پالیسی سازوں نے یقینی طور پر اس باب میں تحقیق کر رکھی ہو گی کہ پاکستان کو کابل کی طرف سے کیا مسائل درپیش ہیں ؟ اور ان مسائل کے حوالے سے ان کی افغان طالبان کے ساتھ کوئی ذہنی ہم آہنگی بھی موجود ہوگی تا کہ جب افغان طالبان افغانستان کا نظم و نسق سنبھالیں تو وہ اپنے پڑوسی سے دوری کے تاثر کی بجائے برادرانہ تاثرکو برقرار رکھ سکیں۔ جب چائے کی پیالی پیتے ہوئے تصویر نشر کی گئی تو اس تاثر کو مزید مضبوط کیا گیا ۔ مگر اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ چائے کی پیالی بس چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی ہی حد تک تھی کیوں کہ حقیقی مسائل جوں کے توں ہیں ۔ اس بات کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان جو باڑ لگا رہا ہے‘ اس باڑ کو نقصان کابل کی حمایت کے بغیر پہنچایا گیا ہے ۔ پھر کابل کی طرف سے اس کے ردِعمل میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے جو مؤقف اپنایا گیا ہے وہ ہمارے خیال کی مزید تصدیق کرنے کیلئے کافی ہے۔ اس باڑ کو لگانے کی وجہ بالکل واضح ہے کہ ہمیں سرحد پار سے مستقل طور پر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ہماری شہری آبادی سے لے کر فوجی جوان تک جامِ شہادت نوش کر رہے ہیں لیکن ہمارے مطالبات کو کابل ابھی تک تسلیم کرنے پرتیار نہیں اور نہ صرف یہ کہ آمادہ نہیں بلکہ اس میں اس نے عملی طور پر روڑے اٹکانا بھی شروع کر دیے ہیں تاکہ وہ ڈیورنڈ لائن کی مسلمہ حیثیت کو اپنے خیال میں متنازع بنا سکے اور باڑ لگانے کے منصوبے کو مسائل کا شکار کر کے سرحد پار سے در اندازی کے خطرات جنہیں پاکستان ختم یا کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ان کوششوں کو نقصان پہنچایا جا سکے ۔ اس ساری صورتحال میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے وہاں پر حکومت تبدیل نہیں ہوئی بلکہ اس حوالے سے ایک پالیسی کا تسلسل ہے ۔ جب ایسا ہے تو اس صورت میں پاکستان نے اس صورتِ حال کے تبدیل ہونے سے کیا حاصل کیا ؟ یہ ابھی ابتدا ہے اس معاملے کو ابتداءمیں ہی مناسب طریقے سے ہینڈل کر لینا چاہئے تاکہ یہ دوبارہ سے عفریت نہ بن سکے اور یہ تبدیلی بھی گلے نہ پڑ جائے ۔ ان مثالوں سے یہ مکمل طور پر واضح ہو رہا ہے کہ اس وقت خارجہ پالیسی میں ہم کس حد تک کمزوری کا شکار ہوچکے ہیں کہ ہمیں یہ دونوں ممالک ایک لمحے میں آنکھیں دکھانے پر اتر آتے ہیں کہ جن ممالک کے حوالے سے کچھ عرصے قبل تک یہ خیال ایک حقیقت تھا کہ ہمیں کم از کم ان سے معافی مانگنےیا انکے سامنے گڑبڑانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اسکے ساتھ ہی قومی سلامتی کی پالیسی ایسی جاری کی گئی ہے کہ جس میں نہ تو کوئی پالیسی موجود ہے اور نہ ہی سلامتی کا کوئی بیانیہ ہے ۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہمارا ایک موقف موجود تھا، ڈیورنڈ لائن پر ایک سکون کی امید تو تھی مگر افسوس کے صرف ایک فرد کی دشمنی میں اس کو گرانے کے جنون نے ہمیں کس حد تک مشکلات کا شکار کر دیا ہے ۔

تازہ ترین