• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

شکوہ نامہ…

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو۔ آج ایک ’’ایک شکوہ نامہ‘‘ ارسال کررہا ہوں، دراصل کافی عرصے تک انتظار کے بعد مجبوراً یہ چند سطور لکھ رہا ہوں۔ مَیں نے سات مضامین اور ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘کے لیے دو کہانیاں، ڈائجسٹ کے لیے ایک تحریر اور پیارا وطن کا ایک مضمون عرصہ 3ماہ قبل بھیجے تھے۔ نہ تو ناقابلِ اشاعت کی فہرست آئی اور نہ ہی اُن کی اشاعت کی باری۔ پتا نہیں، فائل میں موجود بھی ہیں یا نہیں؟ کچھ اور مضامین بھی پائپ لائن میں موجود ہیں، مگر مندرجہ بالا مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہو، تو اُنہیں بھیجنے کا قصد کروں۔ (ڈاکٹر اطہر رانا، فیصل آباد)

ج:آپ کے’’نسخہ نما خط‘‘ میں گرچہ تِل دھرنے کی بھی جگہ نہیں، جو ہماری ہدایات کے یک سر منافی عمل ہے، تو اصولاً خط بھی شامل نہیں ہونا چاہیے، لیکن پھر بھی بتائے دے رہے ہیں کہ آپ کی تحریریں نہ صرف وقتاً فوقتاً وصول پاتی رہتی ہیں، بلکہ تواتر سے شایع بھی ہو رہی ہیں۔ اس لیے آپ کاشکوہ قطعاً بےجاہے۔ ہمیں ملنےوالی تحریروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جب کہ صفحات کی تعداد محدود، اِسی سبب ہر ایک لکھاری سے التماس بھی کی جاتی ہے کہ جب تک ایک تحریر شایع نہ ہوجائے، دوسری نہ بھیجی جائے۔

ہمیں یاد رکھتا ہے

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ثروت جمال اصمعی کا مقالہ پڑھا، بھئی بہت عُمدہ۔ حالات و واقعات میں منور مرزانےایک انوکھا واقعہ رقم کیا۔ برطانیہ جیسے مُلک میں بھی ایسا ہوتا ہے، حیرت کی بات ہے۔ اردو ادب کی ایک دنیا معترف ہے، تو پھر نوبیل ایوارڈسےمحرومی عجیب ہی بات ہے۔ فاروق اقدس’ ’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ سے کیا بتانا چاہ رہے ہیں، تاحال واضح نہیں ہوا۔ عبدالمجید ساجد ایک نیا فیچر منظرِعام پر لائے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے مکینوں کو بتادیجیے کہ قرآنِ پاک کا ترجمہ اور تفسیر نصاب میں شامل کردیےگئے ہیں۔ عثمان غنی صدیقی کا انٹرویو اچھاتھا۔ ’’ناول‘‘ ایک عُمدہ انتخاب ہے۔ کرن عباس کے قلم سے نور کی کرنیں پھوٹتی معلوم ہوتی ہیں۔ ’’متفرق‘‘ بھی اس بار عُمدہ تھا۔ اونٹ کے آنسو، ماں کی پکار، خُوب رہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمیں یاد رکھا گیا، ممنون ہیں۔ اگلے شمارے کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں عدم اعتماد کی تحریک کا اندرونی احوال پڑھا۔’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں غالباً فاروق اقدس کھرے، کھوٹے میں فرق نہیں کر پارہے۔ اب عابدہ حسین سے دیگر خواتین سیاست دانوں کا بھلا کیا مقابلہ۔ متفرق میں بے قابو منہگائی کا المیہ پڑھا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں نمونیا پر اچھا مضمون تھا۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں وادئ کیلاش کی سیر کروائی گئی۔ ناول ’’دھندلے عکس‘‘ کی تازہ قسط کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’ڈائجسٹ ‘‘ میں ’’اجاڑ مسکن‘‘ کی ترجمانی کرتی تین غزلیں پڑھیں۔ نئی کتابیں ایک کونے میں پڑی دکھائی دیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو بہت ہی عُمدہ ہے،ہمیں جو یاد رکھتا ہے۔

ج: چوں کہ آپ،’’آپ کا صفحہ ‘‘ کو یاد رکھتے ہیں، تو جواباً اُسے بھی آپ کو یاد رکھنا پڑتا ہے، وگرنہ ایڈا وی کوئی سخی نہیں ’’آپ کا صفحہ‘‘، کبھی جو بائیڈن، شی جن پنگ، پیوٹن، نریندرمودی یا بل گیٹس کو یاد کیا گیا، نہیں ناں؟ اس لیے کہ وہ آپ کا صفحہ میں خط نہیں لکھتے، تو آپ کا صفحہ بھی اُنہیں لفٹ نہیں کرواتا۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ای میل بھیجنے کا طریقِ کار

سنڈے میگزین کے مندرجات پر رائے دینے سے قبل عرض ہے کہ حقیقت میں میگزین میں کوئی مقناطیسی قوت ہے کہ جب تک ہاتھوں میں نہ آجائے، بےقراری سی رہتی ہے۔ اندازہ کریں کہ پچھلا شمارہ مجھے مل نہ سکا، تو سخت بے چینی رہی۔ آخرایک اور گھر سےلاکر مطالعہ کرکے واپس کیا، تو سکون آیا۔ اس کی طرز تحریر انوکھا پن لیے ہوئے ہے، مَیں نے دسیوں میگزین دیکھے، پڑھے، مگر اس میں عجب ہی چاشنی پنہاں ہے۔ اللہ اسے چار چاند لگائے۔ صفحہ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ پر فاروق اقدس نے صنفِ نازک کی سیاست اور مزاجوں سے خُوب آگاہ کیا، کبھی مرد سیاست دانوں پر بھی یوں قلم اُٹھائیں گے؟ منور مرزا تو سب کے محبوب ہیں، حالاتِ حاضرہ مُلکی وغیر مُلکی پر خُوب روشنی ڈالتے ہیں، اللہ کرے اُن کے قلم میں قوت اور زیادہ۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا مشاہداتی اور کارِخیر والا1995ء کا ایران، استنبول کا سفرنامہ پڑھ کر بےحد لُطف آیا۔ اور محترمہ! مَیں نے کسی گزشتہ خط میں مضمون بذریعہ ای میل بھیجنے کا طریقِ کار پوچھا تھا، تو آپ نے فرمایا کہ بذریعہ کمپوزڈ فائل بھیجیں، چوں کہ میرے پاس کمپیوٹر وغیرہ نہیں ہے، تو مارکیٹ سےکمپوزنگ کا ریٹ معلوم کیا، وہ فی صفحہ 100 سے125روپے تک لیتے ہیں اور دیر تک پاس بھی بیٹھنا بھی پڑتا ہے، تو اگر صاف ستھرامضمون کاغذپرلکھ کرآپ کےای میل ایڈریس پر یونہی بھیج دیا جائے تو..... (جمیل احمد اعوان، سبزہ زار اسکیم، ملتان روڈ،لاہور)

ج:تو آپ کو اس قدر تردّد میں پڑنےکی ضرورت ہی کیا ہے، جیسے یہ خط ہاتھ سے لکھ کر بھیجا ہے، ایسے ہی بھیج دیا کریں۔ ہاں، اتنی زحمت فرمائیں کہ خط حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں، تاکہ ہمیں بھی نوک پلک سنوارنے کے لیے کچھ جگہ مل جایا کرے۔

نیا انداز پسند آیا

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے جی-20کوپ اجلاس کی رپورٹ پیش کی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ثروت جمال اصمعی اور اقصیٰ منور کے مضامین شایع ہوئے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ شفق رفیع کی بدولت بہت اسپیشل لگا۔’’گفتگو ‘‘میں پاکستانی سفیر منصور علی خان سے عُمدہ گفتگو کی گئی۔ سرِورق کی ماڈل آمنہ ملک پسند آئی۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ بھی فاروق اقدس اچھے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ کا نیا انداز اچھا لگا۔ کرن عباس کے ناول کے تو کیا ہی کہنے۔ ’’متفرق‘‘ میں سیّد رضوان الحق نے بہترین مضمون لکھا۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی کے تبصرے لاجواب ہوتے ہیں۔ ناقابلِ فراموش کے دونوں واقعات پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے اور اس بار ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ سینٹرل جیل، ملتان والوں کی قرار پائی، مبارک ہو۔ (رونق افروز برقی،دستگیر کالونی،کراچی)

شادی کا شوق

شمارہ موصول ہوا، سرِورق کے آنچل کا رنگ سرسری دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں وحید زہیر، جام کمال حکومت کے دھڑن تختے کی کہانی سُنا رہے تھے۔ بلوچستان ایسا صوبہ ہے، جہاں شاید ہی کوئی حکومت اپنی مدّت پوری کرسکی ہو۔ ویسے لوگ خواہ جو بھی تبصرے کریں، مگر ہمیں تو وہاں پس ماندگی کے باوجود سیاسی شعور کی خاصی پختگی نظر آتی ہے۔ وہاں کے عوام کسی ایک پارٹی یا لیڈر کے سحر سے آزاد ہیں۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں فاروق اقدس سیّدہ عابدہ حُسین کے حالات ِزندگی بیان کر رہے تھے۔ ’’حالات واقعات‘‘ میں منور مرزا گرے لسٹ کی گھمن گھیریوں کا تذکرہ لیے آئے۔ ہم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا کہ بھارت کی کشمیر کے خلاف دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت پیش کر کے اُسے دُنیا کے سامنے ایک بڑا دہشت گرد ہی باور کروا دیتے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عبدالتوحید خان اپنے مضمون میں نمونیا کے خطرات اور ویکسی نیشن کی افادیت بتا رہے تھے، غور سے سُنا، مگر ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں حیدر بیابانی کے نومبر کے شعر سے لُطف اندوز ہوکے گزرگئے۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر معین الدّین عقیل نے علّامہ اقبال کی مولانا رومی سے محبت و عقیدت اور اُن کے افکار و نظریات کا ذکر چھیڑا۔ شبّیر غوری قائد اعظمؒ کے خوابوں کے شہر، کراچی کی زبوں حالی کا شکوہ کررہے تھے، تو اریب فاطمہ دُنیاوی زندگی میں مگن رہنے والوں کو آخرت کی یاد دلا رہی تھیں۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں سیّد محسن علی نے وادیٔ کیلاش اور وہاں کے خُوب صُورت باسیوں کی جھلک دِکھلائی۔ منوّر راجپوت نئی کتابوں پر نئے انداز سے تبصرہ کرتے نظر آئے، تو ناول میں الفاظ کی بُنت تو مناسب ہے، مگر کہانی پر مصنّفہ کی مکمل گرفت نظر نہیں آتی۔’’ڈائجسٹ‘‘میں’’اُجاڑ مسکن‘‘پڑھ کر محسوس ہوا، جیسے یہ کہانی پہلے بھی کہیں پڑھی ہے۔ محبوب حیدر سحاب، غالب عرفان کا کلام مَن کو خوب بھایا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ماں کی دُعا کا کرشمہ نظر آیا، تو اپنے صفحے میں ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ پر شوخ و چنچل اسماء خان دمڑ براجمان تھیں۔ واقعی، اس عُمر میں شادی کا شوق سر چڑھ کے بولتا ہے۔ بہرحال، آپ کا جواب ناصحانہ تھا۔باقی لکھاری بھی سنجیدہ، اچھی تحریرات لائے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج:چلیں، بچّیوں/خواتین کا تو یہ شوق پھر ایک خاص عُمر تک محدود ہے، حضرات نے تو اپنے شوق کی تکمیل کے لیے باقاعدہ کہاوتیں گھڑ رکھی ہیں کہ جی ’’مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔‘‘ تب ہی تو بے شک مُنہ میں دانت، پیٹ میں آنت ہو نہ ہو، مگر ’’شادی‘‘ کا نام سُنتے ہی باچھیں کِھلنے لگتی ہیں۔

مفید طبّی مشورے، وقت کی ضرورت

’’حالات و واقعات‘‘ میں منوّر مرزا نے پاکستان کے اندرونی حالات اور بیرونی دُنیا سے تعلقات کے پس منظر میں حل طلب مسائل کا جائزہ لیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں محمّد ہمایوں ظفر کا مرتّب کردہ واقعہ، بذریعہ ریل سفر جتنا خوف ناک تھا، اس سےکہیں زیادہ سبق آموز بھی تھا۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں فاروق اقدس نے پیرانہ سال سیاسی شخصیت سیّدہ عابدہ حُسین سےمتعلق سیر حاصل معلومات فراہم کیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی ثاقب صغیر کی ’’اُجاڑ مسکن‘‘ سیدھی دل میں اُتری۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر معین الدّین عقیل کا علّامہ اقبال اور مولانا رومی کے فلسفۂ خودی اور فلسفۂ عشق و محبت پر روشنی ڈالنا بہت ہی پسند آیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں کورونا کے ساتھ نمونیا کے اثرات سے متعلق متعدد طبّی مشورے وقت کی ضرورت تھے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالتوحید کے بےحد ممنون ہیں اور ’’پیارا وطن‘‘ کے ذریعے سیّد محسن علی کے ساتھ وادیٔ کیلاش کے پُرپیچ سفر کا تو بہت ہی لُطف آیا۔ ’’تھینک یو سنڈے میگزین۔‘‘ (ایم۔اے۔ ثاقب، راول پنڈی)

ج: آپ کی آمد کا بھی بےحد شکریہ۔

کیسے کیسے مفید مشورے

اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم بخیریت ہوں گے۔ اس بار آپ نے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں جو واقعہ شایع کیا ہے، وہ تو ناقابلِ یقین ہی لگا۔ بھلا ایسا کیسے ممکن ہے کہ کوئی اتنی دیر ٹرین سے باہر لٹکا رہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘کی اُجاڑ مسکن بھی ادھوری ادھوری سی لگی۔ ہاں، عرفان غالب کی غزل اچھی تھی۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کی بھی کئی پرتیں کُھل گئیں۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں سیّد محسن علی نے کیلاش کی سیر کروا کے تو دل ہی جیت لیا۔ ڈاکٹر عبدالتوحید کی معلوماتی تحریر اور منوّر مرزا کا ’’حالات و واقعات‘‘ پر بے لاگ تبصرہ بہت پسند آئے۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں عابدہ حُسین سے ملاقات نے دل خوش کردیا۔ اگلے ایڈیشن کے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع نے امتحانی نتائج پر فکرانگیز مضمون تحریر کیا۔ سارہ عُمر نے اسپیشل افراد کی طرف سب کی توجّہ مبذول کروائی۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ سے خواتین سیاست دانوں کے اصل چہرے سامنے آ رہے ہیں۔ ’’متفرق‘‘ میں رفیعہ ملّاح کا مضمون بے موقع شایع کیا گیا، اِسے اگر بے نظیر کی برسی کے موقعے پر شایع کیا جاتا تو اچھا تاثر اُبھرتا۔ اب آیئے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، لکھنؤ کے نواب کا خط موجود تھا، پڑھ کے مزہ آگیا۔ کیسے کیسے مفید مشوروں سے نوازتے ہیں آپ کو۔ اور اعتراضات بھی کیا انوکھے انوکھے لاتے ہیں۔ ہاہاہا… ہمیں تو اُن کے خط پڑھ کے بہت ہی مزہ آتا ہے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: اور اُنھیں یقیناً آپ کے خط پڑھ کے بہت لُطف آتا ہوگا کہ وہ کیا ہے ناں ’’دانا و بینا افراد کی کنڈیں (کمریں) ملتی ہیں‘‘ اور ایک سیانے کی باتیں، دُوسرا سیانا ہی سمجھ سکتا ہے، یہ بھلا ہم جیسوں کے بس کی بات کہاں۔

پُل کا کردار

’’میں، جنگ اور جیو کی عُمر میں چھوٹی، لیکن ویسے بہت بڑی پرستار ہوں۔ میرے گائوں میں سڑک ہے، نہ اسکول، گیس نہ بجلی، لیکن میں جنگ اخبار اور سنڈے میگزین بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ اگر میرا خط ردّی کی ٹوکری میں نہ گیا، تو میرے اور آپ کے بیچ ایک پُل کا کردار ادا کرے گا۔ (شازیہ شبیر ڈاہر، بستی انور خان، تحصیل صادق آباد، رحیم یار خان)

ج:چلیں جی، بجلی، گیس، پانی اور سڑک کے بغیر ہی ہم نے تو پُل کھڑا کردیا ہے۔ اب آپ کتنی بار اس پُل سے آتی جاتی ہیں، یہ دیکھنا ہے۔ ہم تو ہمیشہ سےکہتے آئے ہیں کہ ہمارا اصل اثاثہ آپ جیسے قارئین ہی ہیں۔

                               فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

کوئی تعلق جوڑنے کے لیے باقاعدہ ملاقات ضروری نہیں۔ کبھی کبھی کسی کو سُن کر اور پڑھ کر بھی ایک تعلق قائم ہوجاتا ہے اور یہ رشتہ، دل کا رشتہ ہوتا ہے کہ آنکھ کان تو صرف وسیلہ بنتے ہیں۔ سنڈے میگزین کے توسّط سے بھی گھر بیٹھے مختلف لکھاریوں کی تحریریں پڑھ کر جہاں معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، وہیں لوگوں کی سوچ کے مختلف انداز اور زاویوں سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے۔ منور مرزا نے اس بار امریکا اور چین کے درمیان پگھلتی برف میں چُھپی مفادات کے حصول کی گرمی کو اُجاگر کیا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل کی تحریر جہاں مختلف تہذیبوں، ثقافتوں کی آئینہ دار ہے، وہیں ہمارے شوقِ سفر کو بڑھاوا بھی دے رہی ہے۔ گلبدین حکمت یار سے خصوصی گفتگو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ افغانستان کے مسائل گمبھیر ہیں، لیکن معاملہ کوئی بھی ہو، یہ امریکا بہادر کا ہاتھ پاکستان کی گردن پر کیوں آجاتا ہے۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ بڑا مزے دار سلسلہ ہے۔ اس مرتبہ نسرین جلیل کو موجود پاکر ’’زور کا جھٹکا، ہائے زوروں سے لگا‘‘ والا معاملہ ہوا۔ خیر، بات چیت عمدہ تھی۔ سنڈے اسپیشل میں ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ پڑھ کر ٹھنڈے پسینے چُھوٹ گئے۔ بھیا رائو صاحب! سب ٹوٹکے کیے جاسکتے ہیں، مگر یہ ’’گیلی جرابیں‘‘ نہ بھائی، یہ نہ ہوسکے گا۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات سے پوچھا گیا؎ ’’ناز و انداز انہیں کون سکھا دیتا ہے؟‘‘ ہمیں کیا معلوم، ماڈل حیام سے پوچھیں۔ ویسے تو؎ ’’خدا جب حُسن دیتا ہے، نزاکت آ ہی جاتی ہے۔‘‘ معذوروں کے عالمی دن سے متعلق ڈاکٹر عذرا جمال کی تحریر چشم کُشا تھی۔ اسّی فی صد معذورین کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے، پڑھ کردل دُکھا۔ نئی کتابیں میں ’’ہنری پیری روشے‘‘ کی کتاب ’’محبت کی عجب کہانی‘‘ نے توجّہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ اصل سبب اختر سعیدی کی ماہرانہ رائے بنی۔ رئوف ظفر نے ’’پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن‘‘ کے حوالے سے قلم اٹھایا۔ زبردست بھئی، بہت اچھی بات ہے کہ اس قدر منظّم اور احسن طریقے سے حق داروں کو اُن کا حق اور سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر افتخار کی تحریر پڑھی، انہوں نے بہت مثبت انداز میں ایڈز جیسی بیماری کے علاج، احتیاطی تدابیر اور مریض سے برتے جانے والے رویّوں پر بات کی۔ ’’دُھندلے عکس‘‘ کی ابھی دو ہی اقساط پڑھی ہیں، کیوں کہ اب ہی ہماری نجی مصروفیات میں کچھ اعتدال آیا ہے۔ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ کے عنوان کے تحت لکھی جانے والی تحریروں میں جہاں تنوّع پایا جاتا ہے، وہیں رشتوں کی اہمیت بھی اُجاگر ہوتی ہے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی رونقیں تو جوبن پر ہیں۔ پرانے لکھاریوں کے ساتھ نئے لوگوں کی آمد اس بات کی غمّازی کرتی ہے کہ میگزین مسلسل پڑھا اور پسند کیا جا رہا ہے۔ (عفّت زرّیں، ملیر، کراچی)

ج: جی بالکل ایسا ہی ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں جامعہ کراچی کے شعبہ ’’نباتیات‘‘ سے وابستہ ہوں اور آپ کے جریدے کے لیے کچھ ایسے پودوں پر آرٹیکلز لکھنا چاہتی ہوں، جن کو گھرمیں رکھنے سے ماحول کی خوش گواریت بڑھتی ہےاور منفی اثرات زائل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ آپ اگر مجھے تحریر بھیجنے کا درست طریقہ کار بتادیں تو مَیں جلدازجلداس موضوع پرکام کرناچاہوں گی۔ (سیّدہ عروج)

ج:آپ اپنی تحریر ہاتھ سے لکھ کر پوسٹ کرسکتی ہیں۔ اردو میں کمپوز کرنا جانتی ہیں، تو کمپوزڈ فائل ای میل کے ساتھ اٹیچ کرکے بھیج سکتی ہیں یا صاف ستھری لکھی ہوئی تحریر کو اسکین کرکے بھی ای میل کے ساتھ منسلک کرسکتی ہیں۔ آپ نے جس موضوع کا تذکرہ کیا ہے، خاصا منفرد موضوع ہے۔ سو، ہم بھی آپ کی تحریر کے منتظر ہیں۔

* اپنی پہلی ای میل کو آپ کے جریدے کا حصّہ بنا دیکھا، تو بےحدخوشی و مسّرت ہوئی۔ مَیں میگزین بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔ (محمّد حسین حریفال، ژوب، بلوچستان)

(قرأت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)

ج:کوئی جواب طلب بات ہی نہ ہو، تو کیا جواب دیں۔ آپ کوئی سوال کرلیا کریں، ہم جواب دے دیا کریں گے۔

* اخبارمنہگا ہوا توخریدنا چھوڑ دیا۔ اب نیٹ ایڈیشن پڑھتی ہوں۔ اُتنا مزہ تو نہیں آتا، لیکن گزارہ ہوجاتا ہے۔ ایک گزارش ہے، میرج بیورو چلانے والوں اور میچ میکرز کے بھی انٹرویوز کروائیں، تاکہ اندازہ ہو کہ کون جینوئن ہے اور کون فراڈ۔ (آمنہ جبیں)

ج:کافی مشکل ٹاسک دے رہی ہیں آپ۔ دورِ حاضر میں غالباً سب سے مشکل کام ہی کسی کی اصلیت جانچنا ہے۔

* کیا مَیں سنڈے میگزین میں مستقلاً کالم نگاری کرسکتا ہوں۔ (ناصر انصاری، سرگودھا)

ج: مضمون نگاری کرسکتے ہیں، مگر اُس کے لیے بھی آپ کو بطور نمونہ پہلے اپنی ایک تحریر بھیجنی ہوگی۔ اگر وہ قابلِ اشاعت ہوئی، تو پھر آپ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھیے گا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk