• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کے اہم نکات سامنے آگئے


پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کے اہم نکات سامنے آگئے،  پالیسی میں معاشی تحفظ کے ذریعے روایتی اور انسانی سیکیورٹی کو جوڑا گیا ہے۔

اسلام آباد میں قومی سلامتی پالیسی کے اجرا کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان، وفاقی کابینہ کے ارکان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک ہوئے۔

پالیسی کے مطابق قومی ذرائع آمدن بڑھاکر روایتی، انسانی سیکیورٹی پر تقسیم کرنے کا نظریہ اپنایا گیا ہے، ہر قیمت پر مادر وطن کا دفاع ناگزیر اولین فریضہ قرار دیا گیا ہے۔

 قومی سلامتی پالیسی کے مطابق ہمسائے میں جارحانہ، خطرناک نظریے کا پرچار پرتشدد تنازعہ کا باعث ہوسکتا ہے، دشمن کی کسی بھی وقت بطور پالیسی آپشن طاقت کے استعمال کے ممکنات موجود ہیں، جنگ مسلط کی گئی تو دفاع کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کے ساتھ بھرپور جواب دیا جائے گا۔

 نئی پالیسی کے مطابق پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا ہر قیمت اور ہر صورت میں تحفظ کیا جائے گا، کم لاگت، خود انحصاری پر مبنی جدید دفاعی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز ہوگی، مسلح افواج کو مضبوط بنانے کے لیے روایتی استعداد کار کو تقویت دی جائے گی، دفاعی پیداوار، جنگی میدان کی آگاہی، الیکٹرانک وارفیئر صلاحیت کو تقویت دیں گے۔

پالیسی کے مطابق ملکی دفاع کے لیے کم سےکم جوہری صلاحیت کو حد درجہ برقرار رکھا جائےگا، پاکستان کی جوہری صلاحیت علاقائی امن کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے، نیم فوجی دستوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت پر توجہ مرکوز ہوگی، فضا، بحری، ساحلی سلامتی یقینی بنانے کے لیے ایوی ایشن سیکیورٹی پروٹوکول بہتر کیا جائے گا، مضبوط فضائی نگرانی، مواصلاتی نظام، کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کو وسعت دی جائےگی۔

قومی سلامتی  پالیسی کے مطابق تصفیہ طلب مسائل، سرحدی مسائل بالخصوص ایل او سی پر توجہ مرکوز کی جائے گی، دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب پر توجہ مرکوز ہوگی۔

نئی پالیسی کے مطابق  خلائی سائنس و ٹیکنالوجی میں وسعت اور اسے مستحکم کیا جائے گا، جعلی اطلاعات اور اثر انداز ہونے کے لیے بیرونی آپریشنز کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا، اطلاعات، سائبر و ڈیٹا سیکیورٹی ترجیح ہو گی، نگرانی کی استعداد بڑھائی جائے گی، سیکیورٹی کو وسعت، سرکاری امور کی راز داری یقینی بنائی جائے گی، اقتصادی سلامتی خطرات کے خلاف مستند اور قابل اعتماد دفاعی صلاحیت کی ضمانت ہو گی۔

قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی، کشمیر بدستور پاکستان کا اہم قومی سلامتی کا مفاد رہے گا۔

نئی پالیسی کے مطابق بھارت کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں، مسئلہ کشمیر کا حل تعلقات کا مرکزی نکتہ رہے گا، بھارت کے اندر ہندتوا سیاست گہری تشویشناک اور پاکستان کی سیکیورٹی پر اثر انداز ہے، ایران کے ساتھ انٹیلی جنس تبادلے، سرحدی علاقوں کی پٹرولنگ سے باہمی تعلقات میں بہتری آئے گی۔

پالیسی کے مطابق امریکا کے ساتھ پاکستان سرمایہ کاری، انرجی، انسداد دہشت گردی میں تعاون کا خواہاں ہے، پاکستان امریکا کے ساتھ سیکیورٹی و انٹیلی جنس کے شعبوں میں تعاون کا خواہاں رہے گا، افغانستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی رابطے کا دروازہ ہے۔

قومی سلامتی پالیسی کے مطابق پاکستان افغانستان میں امن کا حامی ہے، مذہب و لسانیت کی بنیاد پر انتہاپسندی معاشرے کو درپیش بڑا چیلنج ہے۔

قومی سلامتی پالیسی میں دہشت گردی کو قومی سلامتی اور ہم آہنگی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 27 دسمبر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا، جس میں پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی منظور کرلی گئی تھی۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی 26-2022 کی منظوری دی گئی تھی، جس کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا تھا۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کا تحفظ شہریوں کے تحفظ سے منسلک ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کسی بھی داخلی و خارجی خطرات سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی تیاری اور منظوری تاریخی اقدام ہے۔

وزیراعظم نے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی کو پالیسی پر عمل درآمد کیلئے ماہانہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔

قومی خبریں سے مزید