• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد احمد غزالی

خواجہ عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ بخارا ( ازبکستان) کے نواحی علاقے، غجدوان میں خواجہ عبدالجمیل کے ہاں پیدا ہوئے۔ کئی مؤرخین نے آپؒ کا نام عبدالجلیل بھی تحریرکیا ہے۔آپؒ حضرت امام مالکؒ کی اولاد میں سے تھے اور اناطولیہ(تُرکی) سے نقلِ مکانی کرکے غجدوان منتقل ہوئے تھے۔دینی علوم کے عالم اور انتہائی متقی و پرہیزگار شخص تھے۔مشہور ہے کہ آپؒ کو حضرت خضر علیہ السّلام کی صحبت حاصل تھی اور اُنھوں آپؒ کو نے نہ صرف بیٹے کی ولادت کی خوش خبری دی تھی، بلکہ اُس کا نام بھی تجویز کیا تھا۔ والدہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سلطانِ روم کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔

ابتدائی تعلیم وتربیت

ابھی آپؒ رحمِ مادر ہی میں تھے کہ والد انتقال کرگئے، یوں آپ ؒ کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا فریضہ والدہ ہی نے سرانجام دیا۔ جب کچھ بڑے ہوئے، تو قرآن پاک پڑھنے کے لیے اُس زمانے کے ایک بڑے عالمِ دین، مولانا صدر الدّین کے مدرسے میں داخل کروادیا گیا۔ بعدازاں، مختلف اساتذہ سے تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔

راہِ طریقت کا سفر

آپؒ ایک روز اپنے باغ میں موجود تھے۔ دیکھا کہ سامنے سے ایک نورانی چہرہ بزرگ تشریف لا رہے ہیں۔ فوراً اُن کی تعظیم کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت عزّت و احترام سے اُنھیں بٹھایا۔ بزرگ نے پوچھا،’’ برخوردار! تم بہت سعادت مند نظر آتے ہو، کیا کسی سے بیعت ہو؟‘‘ آپؒ نے عاجزی سے جواب دیا،’’ بہت عرصے سے کسی کی تلاش میں ہوں، مگر ابھی تک کوئی ایسا نہیں ملا، جسے اپنا رہنما بنا سکوں۔‘‘ اس پر بزرگ نے کہا،’’ ٹھیک ہے، مَیں تمھیں اپنی شاگردی میں لے لیتا ہوں۔‘‘ 

اِس کے بعد بزرگ نے اُنھیں کلمۂ طیبہ اور دیگر وظائف کی تلقین کی۔ جب آپؒ نے اُن کی رہنمائی میں یہ وظائف پڑھنا شروع کیے ،تو روحانی دنیا کے اسرار کُھلنے لگے۔یہ بزرگ، حضرت خضر علیہ السّلام تھے۔ البتہ، اِس بارے میں متضاد باتیں ملتی ہیں کہ آپؒ کو اُن کی حقیقت کا علم کب ہوا؟ بعض کا کہنا ہے کہ شروع ہی میں حضرت خواجہ خضرؑ کو پہچان لیا تھا، جب کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ آپؒ کو اُن کے بارے میں کافی بعد میں علم ہوا۔ 

بہرکیف،کچھ عرصہ بعد ایک بڑے نقشبندی بزرگ، خواجہ یوسف ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ بخارا تشریف لائے، تو آپؒ اُن کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے۔اس وقت آپؒ 20 برس کے تھے۔ واضح رہے، تصّوف کے اِس سلسلے کو اُن دنوں حضرت بایزید طیفور بن عیسیٰ بسطامیؒ کی نسبت سے’’ طیفوریہ‘‘ کہا جاتا تھا۔حضرت یوسف ہمدانیؒ وہی بزرگ ہیں، جن کی خدمت میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی استفادے کے لیے حاضر ہوئے تھے۔خواجہ عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ نے بہت قلیل عرصے میں سلوک کی منازل طے کرلیں، جس پر خواجہ یوسف ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ نے اُنھیں خرقۂ خلافت سے نوازا۔

شخصی اوصاف

حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے دو پہلو بہت نمایاں ہیں۔ ایک شریعت کی پابندی اور دوسرا عاجزی و انکساری۔پوری زندگی قرآن و سُنت کے مطابق گزاری اورا پنے متعلقین کو بھی ایسا ہی کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ مریدین پر زور دیتے کہ وہ پہلے دینی علوم حاصل کریں، پھر راہِ سلوک کی طرف قدم بڑھائیں۔ لوگوں کو جاہل صوفیاء سے دور رہنے کی ہدایت کرتے اور ایسے لوگوں کو اپنی مجلس میں بھی نہ آنے دیتے۔ایک دفعہ ایک درویش نُما شخص آپؒ کی مجلس میں آیا اور اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کردیں۔

اُس نے دورانِ گفتگو کہا کہ’’ اگر اللہ مجھے جنّت اور دوزخ میں سے کسی ایک کو پسند کرنے کا اختیار دے، تو مَیں دوزخ کا انتخاب کروں گا، اِس لیے کہ میرا دل جنّت میں جانے پر زور دے گا اور مَیں کبھی اپنی خواہش کی پیروی نہیں کرتا۔‘‘لوگوں کو یہ بڑی بات معلوم ہوئی، اِس لیے اُس شخص کی خُوب تعریف کی، مگر آپؒ یہ بات سُن کر جلال میں آگئے۔ فرمایا،’’ اللہ تجھے معاف کرے، اپنے منہ سے کیا گم راہی بَک رہے ہو۔ تیری حیثیت ہی کیا ہے؟ تجھ میں اِتنی قدرت اور اختیار کہاں سے آگیا کہ اپنی مرضی سے جنّت یا دوزخ کا انتخاب کرتا پِھرے۔‘‘

آپ ؒپر خشیتِ الہٰی کا غلبہ رہتا اور ہمہ وقت گریہ و زاری میں مصروف رہتے۔ بلند علمی و روحانی مقام اور عوامی شہرت کے باوجود ایسے بیٹھتے، جیسے کسی کو قتل کے لیے بٹھایا گیا ہو۔ایک روز کسی نے پوچھا،’’اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو علم و عمل کی نعمت سے نوازا ہے، پھر یوں ڈرے سہمے کیوں رہتے ہیں؟فرمایا،’’جب اللہ تعالیٰ کی بے نیازی پر غور کرتا ہوں، تو خوف کے مارے جسم سے جان نکلنے لگتی ہے۔‘‘

آپؒ زیادہ تر خاموش رہتے، لیکن آپؒ کے وجود سے منعکس ہونے والے انوار اور برکات کے سبب اہلِ مجلس پر وجد کی سی کیفیت طاری رہتی۔کسی نے پوچھا، ’’ فراغت کیا ہے؟‘‘ فرمایا،’’دل کی فراغت یہ ہے کہ اُس میں دنیا کی محبّت راہ نہ پائے، نہ یہ کہ دنیا کی مشغولی سے آزاد رہے۔‘‘فرمایا، ’’ جب کوئی عالمِ دین آخرت بُھلا کر دنیا میں مشغول ہوجائے، تو اُس کے دل سے عبادت کی حلاوت اُٹھا لی جاتی ہے۔‘‘

ایک مجتہد صوفی

خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپؒ نے سلسلہ نقشبندیہ کو ایک نئی اور منظّم شکل دی۔ آپؒ کے مرشد، حضرت یوسف ہمدانیؒ، اللہ تعالیٰ کا ذکر بلند آواز سے کیا کرتے تھے اور باقی مشائخ کا بھی یہی معمول تھا، مگر آپؒ نے اِس روایت کے برعکس، ذکرِ خفی یا قلبی ذکر کا طریقہ متعارف کروایا، جو بعدازاں اِس سلسلے کی شناخت بنا اور آج تک اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ آپ ؒ کو ذکرِ الہٰی کا یہ طریقہ حضرت خضر علیہ السّلام نے سِکھایا تھا۔پھر یہ کہ آپؒ نے پہلی مرتبہ سلسلۂ نقشبندیہ کے لیے8 اصول وضع فرمائے، جنھیں اِس سلسلے کے سالکین کے لیے بنیاد کا درجہ حاصل ہے۔

وہ یہ ہیں، (1) ہوش در دَم، ہر ہر سانس کا خیال رہے کہ اللہ کی یاد کے بغیر نہ گزرے۔ (2) نظر بَر قدم، نظروں کو بہکنے نہ دے۔ (3) سفر دَر وطن، سالک نفسانی امراض سے نجات پاکر اخلاقِ حسنہ کی طرف سفر کرے۔ (4) خلوت در انجمن، دنیا کے کسی بھی کام میں مشغولیت ہو، مگر دھیان اپنے ربّ اور اس کے احکامات کی طرف رہے۔ (5) یاد کرد، اللہ تعالیٰ کے ذکر کی پابندی کی جائے۔ (6) باز گشت، اپنے دل کو بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی یاد دِلائی جاتی رہے۔ (7) نگاہ داشت، نفسانی خیالات اور وسوسوں سے اپنے دل کی حفاظت کی جائے۔ (8) یاد داشت، توجّہ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رہے۔ بعد میں حضرت بہاء الدّین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں تین مزید اصطلاحات، (1) وقوفِ زمانی،ہر وقت اپنے حال پر نظر رہے۔ (2) وقوفِ عددی،نفی اثبات کا ذکر( ذکر کا ایک مخصوص طریقہ) کرتے ہوئے طاق عدد کا خیال رکھا جائے۔ اور (3) وقوفِ قلبی، دل میں اللہ کے علاوہ کسی کا گزر نہ ہو، کا اضافہ کیا۔

وصیّت نامہ

حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روز اپنے خلیفہ، حضرت اولیا کبیر کو کچھ وصیّتیں کیں، جو سالکین کے لیے دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ وصیّت نامہ تصوّف کے حلقوں میں بہت مقبول ہے اور بہت سے لوگوں نے اس کی شرح بھی لکھی ہے۔یہ وصیّت نامہ خاصا طویل ہے، جس میں سے کچھ وصیتیں یہ ہیں،’’ اے فرزند! تقویٰ کو اپنی خصلت بناؤ، وظائف اور عبادات پر مضبوطی سے جمے رہو، اپنے حالات کا محاسبہ کرو، اللہ، اُس کے رسولﷺ اور والدین کے حقوق ادا کرو، نماز باجماعت ادا کرنا، حدیث و تفسیر اور فقہ کی تعلیم ضرور حاصل کرنا، علم کی طلب سے ذرا بھی دور مت رہنا، جاہل صوفیوں سے پرہیز کرنا، حق تعالیٰ کے احکام نگاہ میں رکھو کہ وہ تمھارا محافظ ہے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو، خواہ دیکھ کر یا زبانی، اُن چیزوں کی طلب سے بچو، جن کے بغیر کام چل سکتا ہو، ضرورت سے زیادہ باتیں مت کرو، کسی کی مذمّت سے غم گین اور تعریف سے مغرور مت ہو۔ مخلوق پر رحم کھاؤ اور اُن سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ، حلال روزی کھاؤ کہ یہ خیر و بہتری کی کنجی ہے، حرام سے بچو، یہ اللہ سے دور کر دے گا، ضمانتوں میں اپنا نام مت لکھواؤ، عدالتوں اور کچہریوں میں مت پھرو، اپنے احوال ہمیشہ دوسروں سے چُھپائے رکھنا، طالبِ ریاست نہ بننا، جو شخص ریاست کا طالب ہوا، اُسے طریقت کا سالک نہیں کہا جاسکتا۔ 

بادشاہوں سے میل جول نہ رکھنا۔ اپنے آپ کو شیخ نہ کہلوانا۔ روزے رکھنا کہ یہ نفس کو توڑ دیتا ہے، فقر میں پاکیزہ اور پرہیزگار رہنا۔ راہِ خدا میں تقویٰ، حلم اور فقر سے ثابت قدم رہنا، جان مال اور تن سے فقراء کی خدمت کرنا اور ان کا دل راضی رکھنا، اُن کی پیروی کرنا اور ان کا راستہ یاد رکھنا اور اُن میں سے کسی کا انکار مت کرنا، سِوائے اُن چیزوں کے جو مخالفِ شرع ہوں۔اللہ پر توکّل رکھنا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے، اسے خلقِ خدا پر خرچ کرنا۔ 

مجالس سماع میں زیادہ مت بیٹھنا، کیوں کہ سماع کی زیادتی نفاق پیدا کرتی ہے، سماع کی کثرت دل کو مارتی ہے، مگر سماع کا انکار بھی نہ کرنا،(یعنی ایسا سماع جس میں خلافِ شریعت بات نہ ہو، جیسے قرآن پاک کی تلاوت، آلاتِ موسیقی کے بغیر کوئی دوسرا کلام) کیوں کہ بہت سے بزرگوں نے اس کو سُنا ہے۔تمہارا عمل خالص، تمہاری دعا میں مجاہدہ ہو، مسجد تمہارا گھر اور کتابیں تمہارا مال ہوں۔ درویش تمہارے رفیق اور زہد و تقویٰ تمہاری آرائش ہو اور تمہارا مونس اللہ تعالیٰ ہو۔ جس شخص میں یہ باتیں ہوں اُسی کے ساتھ دوستی رکھنا۔(1)جو فقر کو تونگری یا امیری پر ترجیح دے۔(2) دین کو ہمیشہ دنیا پر ترجیح دے۔(3)علومِ ظاہر و باطن کا عالم ہو۔(4)جو موت کے لیے ہر وقت تیار ہو۔

وفات و تدفین

آپؒ نے غجدوان میں وفات پائی اور وہیں مزار مبارک ہے۔ البتہ، آپؒ کی ولادت کی تاریخ کی طرح وفات کے سن میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔بیش تر کتب اور وکی پیڈیا کے مقالہ نگار نے 435 ہجری، 1044ء کو ولادت اور12 ربیع الاوّل 575 ہجری ، 1179ء کو تاریخِ وفات کے طور پر درج کیا ہے، جس کے مطابق آپؒ نے 135 سے 140 برس تک عُمر پائی۔ کئی کتب میں 616 اور 675 ہجری میں وفات کا ذکر ہے۔البتہ، مختلف روایات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپؒ نے 70، 75 برس عُمر پائی۔ واللہ اعلم۔ 

انتقال سے متعلق یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ آپؒ ایک مجلس میں زندگی کی بے ثباتی اور موت کے حوالے سے وعظ فرما رہے تھے، کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئے، تو لوگوں نے ہاتفِ غیبی سے یہ آواز سُنی، ترجمہ، ”اے اطمینان والی روح!اپنے ربّ کی طرف لَوٹ چل، تُو اُس سے راضی، وہ تجھ سے راضی‘‘(سورۃ الفجر)۔لوگوں نے آپؒ کی طرف دیکھا، تو روح پرواز کر چُکی تھی۔