• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان کی عبوری حکومت کو پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ان کی آمد سے افغانستان میں عمومی طور پر امن قائم ہوا جو انتہائی خوش آئند امر ہے۔ اگرچہ طالبان کا موجودہ نظام طاقت کی من مانی پر قائم ہے مگر بیس سال کے بعد عام افغانوں کونیٹو افواج کی بےپناہ بمباری، چادر اور چار دیواری کی آئے روز پامالی، قتل و غارتگری اور امریکی حمایت یافتہ وار لارڈز کی دہشت گردی سے نجات مل گئی۔ 20 سال تک طاقت کے اندھا دھند استعمال کے باوجود بالآخر امریکہ نے طالبان کے دارالحکومت کابل پر قبضے میں نہ صرف انکی معاونت کی بلکہ طالبان نے بھی کابل ایئرپورٹ پر امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے انخلا میں مدد کی۔ فریقین کے ایک دوسرے سے اس طرح کے حقیقت پسندانہ تعاون سے انخلاکے وقت قتل و غارتگری کے ممکنہ امکانات کافی حد تک کم ہوگئے۔ اس سے یہ امید بندھ گئی تھی کہ شاید مستقبل میں فریقین کے مابین تعلقات میں بہت حد تک بہتری آئے گی جس سے افغانستان کے حالات اور وہاں کے عوام پر کافی مثبت اثر پڑے گا۔

کابل سے آخری امریکی فوجی کے انخلا کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ وہ ’’افغان عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے‘‘ مگر یہ دعوی جلد ہی ہوا میں تحلیل ہوگیا کیونکہ فوجی انخلا کے صرف دو دن بعدانکی انتظامیہ نے امریکی بینکوں میں جمع افغانستان کے 9 بلین ڈالر منجمد کردیے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کے زیر اثر چلنے والے عالمی ادارے آئی ایم ایف نے بھی نہ صرف لاکھوں ڈالرکے ایمرجنسی ریزرو فنڈز بلاک کردیئے بلکہ ورلڈ بینک نے بھی ادائیگیاں معطل کردیں۔ اگرچہ ان اقدامات کا مقصد بظاہر طالبان کو کسی بھی ممکنہ رقم کے حصول سے روکنا دکھائی دیتا ہے تاکہ ان پر دباؤ برقرار رکھا جاسکے مگر فی الحقیقت اس سے عام لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے اور کروڑوں افغان بھوک اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے منجمد فنڈز میں ہزاروں افغانوں کی جمع شدہ پونجی بھی شامل ہے جو انہوں نے ملک کے مختلف بینکوں میں جمع کر رکھی تھی۔ سخت ترین معاشی حالات میں وہ اس رقم سے فی الحال محروم کردیے گئے ہیں جس سے ان کے مصائب میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ شاید افغانیوں کی ان رقوم پر مستقبل قریب میں ہاتھ صاف کردیا جائے گا کیونکہ اب امریکہ میں نائن الیون کے حملوں میں ہلاک شدگان کے لواحقین ان منجمد رقوم پر دعویٰ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امریکی عدالتوں نے دہشت گردی کی اس واردات میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو لگ بھگ سات بلین ڈالر کے ہرجانے دینے کے فیصلے دیئے ہیں مگر ابھی تک اس قسم کے فیصلوں کو صرف علامتی فیصلے سمجھا جاتا تھا۔ اب افغانستان پر طالبان کی عبوری حکومت کے بعد بعید نہیں کہ امریکی عدالتیں سزا کے طور پر افغانستان کی رقوم کو ضبط کرکے اسے مرنے والوںکے لواحقین میں بانٹ دیں۔ اگرچہ ایسا کرنا حق و انصاف کے ضابطوں کے منافی ہوگا مگر جرم ضعیفی کے ذیل میں تقدیر کے قاضی کا یہی فتویٰ ازل سے ایک دستور کی صورت میں چلا آرہا ہے جس پر عموماً امریکہ کے قائم ہونے کے بعد آنے والی ہر انتظامیہ عمل پیرا رہی ہے۔

نائن الیون کے بعد امریکی جنگی جنون، انتقام کی آگ اور طالبان کی ضد نے افغانستان کو دو دہائیوں تک ایک خطرناک میدان جنگ بنادیا جہاں غیر ملکی حملہ آوروں نے لاکھوں انسانوں کو بیدردی سے قتل اور ہزاروں بستیوں کو تباہ و برباد کردیا۔ تاہم اس کے باوجود لگتا ہے کہ فریقین نے کچھ نہیں سیکھا۔ امریکی حکومت نے اتنے طویل عرصے تک افغان کش جنگ کے باوجود اب انخلا کے بعد افغانستان کا معاشی بائیکاٹ اور پابندیاں لگاکے افغانوں کے خلاف ایک نئی جنگ چھیڑ دی ہے جس میں مزید لاکھوں افغانوں کے لقمہ اجل بننے کا اندیشہ ہے، جسے ایک نئی قسم کی نسل کشی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک کے ایک حالیہ سروے کے مطابق اٹھانوے فیصد افغانوں کے پاس خوراک نہیں اور دس میں سے سات افراد کھانا کھانے کیلئے قرضہ لے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں طالبان کا رول بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نظر نہیں آرہا۔ اپنی پہلی حکومت کے ناکام تجربے اور پھر 20 سال تک حکومت سے باہر صحرا نوردی کے باوجود وہ اپنے اسی سابقہ سخت گیر مؤقف پر قائم نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے افغان عوام کو 20 سال کی طویل مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ طالبان اپنے ماضی اور زمینی حقائق سے سبق حاصل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جس سے حال اور مستقبل میں افغان عوام کی تکالیف اور مصائب میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔

تازہ ترین