• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

اپریل 1986ء میں بے نظیر بھٹو لاہور ایئر پورٹ اتریں تو لاہور لوگوں سے بھر چکا تھا۔ یہ ایک تاریخی استقبال تھا، پاکستان کی تاریخ میں اتنا بڑا استقبال کسی کا نہیں ہوا۔ بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے آنے والوں کو روکنے کے لیے بھی مختلف حربے استعمال کیے گئے کیونکہ ضیاء الحق صدر تھا اور اس کا سیاسی وارث یعنی نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ بھٹو کی بیٹی کے استقبال کی تیاریاں دیکھ کر یہ سیاسی وارث اتنے پریشان تھے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کےبھائی شہبازشریف نے پیپلزپارٹی کے اہم رہنما جہانگیر بدر سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ ...’’ہمارے لیے جگہ رکھنا، ہم مجبوراً ضیاء الحق کے ساتھ ہیں...‘‘کہا جاتا ہے کہ استقبال کے لیے بھی شہباز شریف نے حصہ ڈالا تھا تاکہ بات پکی رہے اور ان کی جگہ بن جائے۔ بے نظیر بھٹو کے تاریخی استقبال نے آمرانہ طاقتوں کو مزید پریشان کردیا تو انہوں نے کبھی گرفتاریاں تو کبھی نظربندیاں شروع کردیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو جیلوں میں رکھاگیا، تمام ترسختیاں کی گئیں مگر آمرانہ طاقتیں بھٹو کی بیٹی کا حوصلہ پست کرنے میں ناکام رہیں۔ 1987ء میں بے نظیربھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی ہوئی۔ شادی کی یہ تقریب لیاری کے ایک گرائونڈ میں ہوئی۔ جہاں جلسے جیسا میلے کا سماں تھا، بے نظیر بھٹو نے یہاں دلہن کے روپ میں بھی لوگوں سے خطاب کیا۔ پاکستان میں کئی لوگوں کی خواہش تھی کہ ان کی شادی بے نظیربھٹو سے ہو، سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک بیوروکریٹ سے خاندانی تعلقات کی بنیاد پر رشتے کی بات چلی تو وہ بیوروکریٹ اتنا خوش تھا کہ اس نے چھٹی کی درخواست میں رشتے کا تذکرہ کردیا۔ چھٹی کی یہ درخواست چیئرمین ایف بی آر لے کر ضیاء الحق کے پاس پہنچ گیا۔ پھر چھٹی کیا ملنا تھی، الٹا بیورو کریٹ زیر عتاب آگیا۔ آصف علی زرداری کا بے نظیر بھٹو سے رشتہ اس طرح ہوا کہ نصرت بھٹو کی جن چار خواتین سے دوستی تھی، آصف علی زردار ی انہیں جانتے تھے، ان میں سیدہ عابدہ حسین اور آصف علی زرداری کی سوتیلی والدہ ٹیمی زرداری بھی شامل تھیں، ان خواتین نے اس رشتے میں اہم کردار ادا کیا۔ آصف علی زرداری جب منگنی کےلیے لند ن گئے تو انہیں کراچی ایئرپورٹ پر ان کے قریبی دوست سید انجم شاہ نے رخصت کیا۔ خیر لیاری کے گرائونڈ میں شادی ہوگئی اور شادی کے بعد بھی بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

1988ء میں ضیاء الحق نے اپنی قائم کردہ حکومتوں کو رخصت کیا، جونیجو کی بعض عادات ضیاءالحق کوپسند نہ آئیں۔ نئے آئین کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ جو لوگ آج شفاف الیکشن کی باتیں کرتے ہیں ان کی معلومات کےلیے لکھ رہا ہوں کہ جب 1988ء کے الیکشن ہو رہے تھے تو نواز شریف پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ تھے اور یہ نگران وزیر اعلیٰ الیکشن میں حصہ بھی لے رہے تھے، اس وقت الیکشن میں یہ شفافیت تھی۔ بے نظیر بھٹو کے سامنے ایک ایسا الیکشن تھا جس میں ان کے مخالفین نگران حکومتوں میں تھے اور وہ الیکشن بھی لڑ رہے تھے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا اہتمام تھا۔ ایک اور اہتمام یہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی سے اس کا نشان تلوار چھین لیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کو مجبور کیا گیا کہ وہ تلوار کی بجائے تیر کے نشان پر الیکشن لڑیں، مخالفین کا نشان سائیکل تھا۔

سترہ اگست 1988ء کو بہاولپور کے نزدیک طیارے کے حادثے میں ضیاء الحق کی موت واقع ہوگئی۔ سرکاری میڈیا تو ظاہر ہے سوگوار فضا کی خبریں چلاتا رہا مگر سندھ میں صورتحال بالکل مختلف تھی، سندھ میں ایسے لگ رہا تھا جیسے نجات مل گئی ہو۔ مبینہ طورپر یہ نفرت کا اظہار تھا کیونکہ ضیاء الحق کے دور میں سندھیوں کا قتل عام ہوا تھا اور ماضی کی طرح ان پر نوکریوں کے دروازے بھی بند رکھے گئے تھے اور پھر بے نظیربھٹو کی قید وبند کی صعوبتوں کے سبب سندھ کے عوام ضیاء الحق کو ناپسند کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس دن یہ سمجھ رہے تھے کہ آج سُکھ کا سانس لینے کا دن ہے۔

16نومبر 1988ء کو قومی اسمبلی کے الیکشن تھے۔ مخالفین نے محترمہ کی مقبولیت سے خوف زدہ ہو کر اسلامی جمہوری اتحاد بنایا۔ یہ اتحاد ضیاء الحق کے حامیوں کا مجموعہ تھا مگر تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی جمہوری اتحاد قومی اسمبلی میں صرف 56 نشستیں حاصل کرسکا جبکہ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 207 میں سے 94 سیٹیں حاصل کیں۔ جب پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نواز شریف نے یہ صورتحال دیکھی تو صوبائی اسمبلی کے الیکشن سے پہلے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار دیئے گئے اور ایک نعرہ بلند کیا گیا .... ’’جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داگ...‘‘اس زمانے میں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن قومی اسمبلی کے الیکشن کے تین دن بعد ہوتے تھے۔ تعصب کے نعرے کے ساتھ کچھ اور انتظامات بھی کیےگئے جس کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد پنجاب میں جیت گیا۔ بے نظیر بھٹو ایم کیو ایم اور بائیں بازو کی جماعتوں کی مدد سے چار دسمبر 1988ء کو مسلمان دنیا کی پہلی وزیر اعظم بن گئیں۔ بے نظیر بھٹو نے اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔ تمام اہم وزارتیں ضیاء الحق کے لوگوں کوملیں۔ ان میں وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، سیکرٹری خزانہ کے علاوہ غلام اسحٰق خان بطور صدر بھی شامل تھے۔ بے نظیر بھٹو کو یہ اقتدار نہیں لینا چاہیے تھا کیونکہ اس میں ساری حکومت ہی یرغمال بن گئی تھی پھراس حکومت کو اٹھارہ بیس مہینے سے زیاد ہ چلنے ہی نہ دیا گیا۔ چند مہینوں کے اس اقتدار میں بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف ملک کی وزیر اعظم کا احترام نہیں کرتے تھے بلکہ بے نظیر بھٹو کی حکومت فیض آباد پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ سازشوں کے اس عہد میں ایک سال بعد ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر اسلامی جمہوری اتحاد کی حامی بن گئی۔

آج ایم کیو ایم کے لوگ علیحدہ صوبے کی باتیں کرتے ہیں تو یہ کیوں بھو ل جاتے ہیں کہ جب ون یونٹ ختم ہوا تھا تو کراچی کے شہریوں کو یہ پیش کش کی گئی تھی کہ کراچی کو وفاق کا حصہ بنا دیتے ہیں مگر اس وقت کراچی کے لوگوں نے کہا کہ ہمارے جو رشتہ دار حیدر آباد، سکھر اور میر پور خاص میں ہیں ان کاکیا بنے گا لہٰذا کراچی کو سندھ کا حصہ بنا دیا جائے۔ آج کوٹہ سسٹم پر بھی باتیں ہوتی ہیں، بھٹو نے یہ کوٹہ صرف دس سال کےلیے قائم کیا تھا مگر وہ آج تک ہے، اس دوران ایم کیو ایم متعدد مرتبہ اقتدار میں شریک رہی، اس نے کوٹہ ختم کیوں نہ کروایا۔(جاری ہے)

تازہ ترین