• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کا برفانی موسم اپنے رومانوی انداز میں جوڑوں میں بیٹھتا جارہا ہے۔ تکلیف تو بہت ہے کہ ٹھنڈ بڑھتی جارہی ہے مگر دکھ بھی بہت ہے کہ بس سردی جارہی ہے۔ یہ چند دن اور اس کے بعد موسم اپنا رویہ بدل لے گا۔ بہار آئے گی اور پھر بہار جائے گی، خیر یہ موسم کا تغیر و تبدل تو چلتا رہے گا۔ ہم بات کر رہے تھے فی الحال سردی کی اور سردی کی ان شاموں میں دو ہی کام ہیں کرنے والے، ایک شادیاں اٹینڈ کرنا اور دوسرا چائے کے ڈھابے پر بیٹھ کر گرم چائے کی پیالی سے چسکیاں لینا۔ مجھے چونکہ شادیوں میں جانے کا اتنا شوق نہیں، بہرحال چائے چھوڑنے کی گستاخی اور وہ بھی ایسے موسم میں آخر کون کرے گا۔ ہاں البتہ چائے پینے کیلئے کمپنی کی ضرورت، بلکہ اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے کل اپنے چار قریبی دوستوں سے رابطہ کیا۔ پہلے تین تو یوں سمجھیں کہ تیار ہی بیٹھے تھے کہ ان کو میری کال جائے اور انکو اپنی ہوم منسٹرز سے جان چھڑانے کا موقع ملے۔ لیکن ایک صاحب جو میرے بہت پرانے ساتھی ہیں آج کل سی ایم آفس میں ہوتے ہیں، جب ان کو فون کیا تو وہ رات کے 8 بجے بھی دفتر میں موجود تھے۔ میں نے لیٹ سٹنگ کی وجہ پوچھی تو موصوف بولے کہ جب صاحب ہی دفترمیں بیٹھ کر روز لیٹ نائٹ تک کام کر رہا ہو تو اسٹاف کس منہ سے چھٹی کر کے جا سکتا ہے۔

میں ہمیشہ یہ کہتاآ رہا ہوں کہ عثمان بزدارخود بھی محنت کر رہے ہیں اور اپنی ٹیم کیلئے رول ماڈل بھی بن رہے ہیں کیونکہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے حکومتوں کو حکمت سے اور عوامی نمائندوں کو اپنے خون پسینے سے ریفارمز کو حقیقت بنانا پڑتا ہے۔ اور ٹیم تب ہی آپ کے ساتھ راتوں کو جاگ کر کام کرنے کو تیار ہوتی ہے جب وہ دیکھتی ہے کہ ٹیم لیڈر بھی جان مار رہا ہے۔ خیر ان صاحب کو تو ہم نے مزید نہیں چھیڑا اور ہم چار چائے کے متلاشی نکل پڑے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کی محنت کا پھل جہاں نظر آنے لگا ہے وہاں Acknowledgement بھی ہورہی ہے۔ اور یہ اعتراف اب ناقدین کی جانب سے بھی ہورہا ہے اور عوام کی جانب سے بھی مثبت رائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ یہ اظہار خیال میڈیا یا اپوزیشن کی رائے سے بڑا مختلف ہے اور با معنی ہے، کیونکہ عوام کی فلاح کی باتیں عوام سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ عوام کو انصاف دلانے کے دعوے کرنے والے تو آپ کو بہت مل جائیں گے لیکن عوام کا درد سمجھنے اور بانٹنے والے لیڈر روز روز نہیں ملتے۔ اور یہ روش بڑی ہی پرانی ہے کہ عوام کے نام پر اپنے مفادات کو یقینی بنانے کیلئے کام کیا جائے، افسوس یہ کہ اپوزیشن کا نیریٹیو اسی سوچ پر مبنی ہے۔

بہرحال انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپی نین ریسرچ کے تازہ ترین سروے کے مطابق تو عثمان بزدارکی اس صوبے میں لگائی ایک ایک اینٹ کا چرچہ سنائی دے رہا ہے، تعلیم کے شعبہ میں چراغ علم کی روشنی دیتے ثابت ہوئے ہیں اور صحت کے شعبے میں بھی بہتری کا گراف اوپر کی جانب جا رہا ہے۔ آئی پور کے سروے کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی گزشتہ تین سالہ کارکردگی کو جب دیگر وزرائے اعلیٰ کی پرفارمنس سے کمپیئر کیا گیا تو عوام کی جانب سے سب سے زیادہ ووٹ سردار عثمان بزدار کو ملے۔ 45 فیصد لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ میں عثمان بزدار پہلے نمبر پر، محمود خان دوسرے اور وزیر اعلیٰ سندھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ اسی طرح جب ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو 51 فیصد لوگوں نے عثمان بزدار کے کاموں کو سراہتےہوئے اطمینان کا اظہار کیا۔ اگر اس سروے کا باقاعدہ جائزہ لیا جائے تو سمجھنے کی بات ہے کہ سندھ میں پی پی پی کی یہ پہلی حکومت نہیں، اور نہ ہی کے پی میں تحریک انصاف کی پہلی حکومت ہے۔ ہاں البتہ پنجاب میں تحریک انصاف کی یہ پہلی حکومت ہے اور پہلی حکومت ہی چھا گئی ہے۔ یہ کپتان کی بھی جیت ہے، تحریک انصاف کی بھی جیت ہے اور عثمان بزدارکی جیت تو ہے ہی۔

اسی طرح تعلیم کے میدان میں 86 فیصد لوگوں نے بزدار حکومت کی جانب سے دی گئی سہولیات کو تسلی بخش قرار دیا۔ جبکہ کے پی کو 80 فیصد ووٹ ملے، بلوچستان کو 62 اور سندھ کو 58 فیصد ووٹ ملے۔ صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے 72 فیصد لوگوں نے اطمینان کا اظہار کیا، 67 فیصد کے پی، 56 فیصد بلوچستان اور 53 فیصد لوگوں نے سندھ کیلئے مثبت رائے کا اظہار کیا۔ 3 سالہ کارکردگی کے حوالے سے جاری ہونے والے اس سروے نے تحریک انصاف کی پنجاب میں اسٹرینتھ کا ثبوت دیا ہے۔ آگے آنے والا سال چونکہ فیصلہ کن ہے، اور فیصلہ کن سال کا آغاز ایک فیصلہ کن نتیجے سے ہوا ہے۔

آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ حکومت پنجاب نے مری سانحے کی رپورٹ بارے پبلک کو آگاہ کرنے اور اس رپورٹ کی روشنی میں ذمہ دار افراد کی نشاندہی کا عمل مکمل کرلیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر قائم کی گئی ہائی لیول کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کی، جس کی گزارشات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ 15 افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ پولیس، انتظامی عملے سے لیکر پی ڈی ایم اے، ریسکیو سروسز اور جو متعلقہ افراد تھے، سب کے حوالے سے کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ اسی طرح شفاف نظام کی مدد سے غفلت برتنے والے افسران کیفر کردار تک پہنچ سکیں گے اور اس کارروائی کے آغاز سے یہ امید بھی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ کوئی افسر اپنے کام اور ذمہ داری میں کوتاہی نہیں کرے گا۔بہر حال لاہور میں برفانی ہوائیں ابھی تک چل رہی ہیں۔موسم بہت سرد ہے۔لوگ گھروں میں آتش دانوں پر بیٹھے ہاتھ تاپ رہے ہیں صرف گرما گرمی اور گہماگہمی وزیر اعلیٰ کے سیکرٹریٹ میں ہے۔

تازہ ترین