• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دو دن پہلے اسلام آباد میں ایک پولیس اہلکار کی شہادت اور اس کے بدلے دودہشت گردوں کےمارے جانے کے بعد لاہور کے انارکلی بازار میں موٹر سائیکل میں نصب شدہ بم دھماکے میں ایک بچے سمیت تین افراد جاں بحق اور 29شدید زخمی ہو گئے جن میں سے 6 کی حالت تشویشناک ہے۔ آٹھ موٹر سائیکلیں جل گئیں متعدد عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور جائے وقوعہ پر گڑھا پڑ گیا۔ فرانزک ذرائع کے مطابق دھماکہ ٹائم ڈیوائس سے کیا گیا جس میں ڈیڑھ کلو بارودی مواد استعمال ہوا۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور بعض مشکوک افراد کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔ سی ٹی ڈی بم ڈسپوزل سکواڈ اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کے اہل کاروں نے موقع سے بعض شواہد اکٹھے کئے ہیں ایک فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص موٹر سائیکل کے نیچے دھماکہ خیز مواد رکھ رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ طلب کر لی ہے جس کی ذمہ داری کالعدم جماعت بلوچ نیشنلسٹ آرمی نے قبول کی ہے اس حوالے سے لوگوں میں مختلف خدشات پائے جاتے ہیں تاہم حکومت تمام پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیقات کر رہی ہے کہ اس کے پیچھے کونسے عناصر ہیں۔اپوزیشن رہنمائوں نے بھی واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کی مناسب دیکھ بھال پر زور دیا ہے۔ دوسری طرف ملک میں گزشتہ تین روز کے دوران جو سات حملے ہوئے اوران کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان قبول کر چکی ہے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے مطابق پولیس اور دوسرے ادارے اسلام آباد واقعہ کے ملزمان تک پہنچ گئے ہیں، ان کے دونوں دہشت گرد مارے گئے ہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی نے اسے تسلیم کیا ہے جسے یہ غلط فہمی ہے کہ افغان طالبان ان کی پشت پر ہیںتاہم وہ اپنے ملک اور خطے میں امن پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی بہت اچھی کوشش ہے کہ ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان معاملات طے پا جائیں۔ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ مزید برآں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ حکومت کا جنگ بندی کا ایک ماہ کی مدت کی بنیاد پر معاہدہ ہوا تھا اسے طالبان نے خود ہی توڑا اور ملک گیر سطح پر پھر سے دہشت گردی شروع کر دی اس ضمن میں حکومت نے پانچ بڑے شہروں میں ریڈ الرٹ جاری کیاہے جو صورتحال کا ناگزیرتقاضا ہے۔ حالیہ لہر جس نے پورے ملک کے عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے 2021میں2020سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہوئےجبکہ 2022کی شروعات ہی گزشتہ برس کے انہی دنوں کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ ہوئی ہے جس طرح لاہور انار کلی بازار میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری ایک نئی منظر عام پر آنے والی تنظیم نے قبول کی ہے بلوچستان میں بھارتی خفیہ اداروں کے اشاروں پر پہلے ہی بعض تنظیمیں سرگرم ہیں اس سارے تناظر میں تمام دہشت گرد تنظیموں کا آپس میں مربوط ہونا کسی طرح بھی خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم قومی عسکری ادارے ساری صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں اور حکومتی رٹ قائم رکھنے کےلئےآپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی کامیابی کے بعدتیسرااور فیصلہ کن آپریشن بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں متعلقہ سول اداروں کو اپنی مکمل تکنیکی مہارت کے ساتھ ہمہ وقت چوکس رہنا ہو گا۔اس ضمن میں عوامی مقامات، خصوصاً ٹرانسپورٹ اڈوں، تعلیمی اداروں، کورٹ کچہریوں، اسپتالوں وغیرہ میںسکیورٹی انتظامات پر نظر ثانی کرنا بھی ضروری ہوگا۔

تازہ ترین