• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

لڑکیاں، زیادہ اچھی لکھاری

بعد اَز آداب، سلام و دُعا، اُمیدِ واثق ہے کہ سنڈے میگزین کی پوری ٹیم مع رائٹرز، قارئین بخیر و عافیت ہوگی۔ سب سے پہلے تو آپ کے مُنہ میں رَس گھول دینے والے سوال کا جواب دوں کہ راجہ افنان احمد اور اُمّ حبیبہ نور ایک ہی شخصیت کے دو نام بالکل بھی نہیں، بلکہ اُمّ حبیبہ نور میری ہم شیرہ ہیں۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے، ’’لڑکیاں زیادہ اچھی لکھاری ہوتی ہیں۔‘‘ شاداب رہے پیاری بہنا، جو ہر پُرمسّرت موقعے پر بندۂ ناچیز کو بھی یاد رکھتی ہے۔ اب آتا ہوں تازہ جریدے پر تبصرے کی جانب، ویسے اگر میں اعتراف کروں کہ بلاغت و فصاحت مَیں نے ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی سے سیکھی ہے، تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ خیر، منور مرزا اور منور راجپوت کی تحریروں کا عمیق نظری سے جائزہ لیا تو دل منور ہی ہوا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے ’’شامِ استنبول‘‘ کے عنوان سے کیا شاہ کار تحریر لکھی کہ ہم بھی خراماں خراماں ساتھ ہی ہولیے۔ کورونا کا تو اب پتا نہیں، مگر پورے مُلک میں ڈینگی نے آفت مچا رکھی ہے۔ اللہ سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔ کرن عباس کرن کا ناول کچھ کچھ سمجھ آ گیا ہے۔ شبینہ گل انصاری اور ظفر اقبال کے واقعات کا اختتام چونکا گیا۔ خطوط نگاروں کی بزم پورے جوبن پر دکھائی دی اور آج تو شاید آپ میرا خط پڑھ کر اَش اَش کر اُٹھیں اور کہیں ’’شاباش، ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ آپ کی ہوئی‘‘۔ (راجا افنان احمد، چکوال)

ج:جی نہیں، بالکل بھی نہیں۔ اس ہفتے کی چِٹھی کا ہنوز ایک معیار ہے۔ فی الحال تو ہمیں اُس مفکّر کی تلاش ہے، جس نے ارشاد فرمایا کہ ’’لڑکیاں زیادہ اچھی لکھاری ہوتی ہیں۔‘‘ یقیناً یہ بات انہوں نے آپ کے کان ہی میں آکر کہی ہوگی کہ ہم میں سے تو کسی نے ایسا کوئی قولِ زرّیں نہیں سُن رکھا۔

وطن کی مٹّی کا حق

’’ہم جو بھری بزم میں کچھ کہتے کہتے رہ گئے تھے‘‘ رہ نہ سکے، اور دوبارہ کچھ کہنے کے لیے شہر تک آپہنچے۔ سال 2021ء میں اپنے خطوط کے اعداد و شمار اور اُن کے لیے خُوب صُورت تشبیہات راجہ سلیم کے قلم سے، پرنس افضل کی قدردانی کی مہکتی خوشبو، اقصیٰ کی شُکرگزاری کے جذبات اور اپنے مضمون پر جاوید اقبال اور ڈاکٹر حمزہ کی خیال آرائی سے لے کر اُمّ حبیبہ کی اپنے خطوط پر ’’قلمی چھکّے‘‘ کی داد نے احساس دلایا کہ ہماری یہ محفل قدردان، حسّاس اور خالص اَدبی ذوق رکھنےوالوں کی دِلوں کی ترجمان ہے۔ تازہ شمارے میں جھانکا تو آپ کےتحریری حجاب نامے کا عکس ابھی تک چھایا ہوا تھا، بمشکل کونے کھدروں سے اندر دیکھا تو شفق رفیع قلمی جوہر سے وطنِ عزیز کو جوہری طاقت بنانے والے محسنِ پاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کررہی تھیں۔ ویل ڈَن شفق! آپ نے وطن کی مٹّی کا حق ادا کر دیا۔ منوّر مرزا کا قلم ’’حالات و واقعات‘‘ کو یوں اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ سارا عالمی اُفق نظروں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ ثروت جمال اصمعی کے قلم سے ’’بائبل میں حضورﷺ کی آمد کی واضح بشارتیں‘‘ نہایت توجّہ طلب تحریر تھی۔ یوں تو پاکستان کے سارے صوبے اپنی مہمان نوازی اور منفرد روایات میں یکتا ہیں، لیکن نورخان نے جس طرح بلوچستان کے روایتی کھانوں کی لذّت و غذائیت کا ذکر کیا، مُنہ میں پانی بھر آیا۔ رائو صاحب تو ہمیشہ ہی کچھ نیا لے کر آتے ہیں۔ ’’اسٹائل‘‘ میں لڑکیوں بالیوں کی تیاری دیکھ کر ہم بھی گنگنا اُٹھے ’’پُرکیف ہیں فضائیں، ہر شے دمک رہی ہے…‘‘ فاروق اقدس ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ کے ذریعے ایک اہم تعمیری دستاویز تیار کر رہے ہیں۔ دِلی دُعا ہے کہ 2022ء میں بھی یہ محفل یونہی رنگ و اُمنگ سے سجی رہے اور آپ مثلِ آفتاب و ماہتاب، ستاروں کی اس کہکشاں میں اپنی تحریروں سے رنگ اور جوابات کی دھنک کے ساتھ جگمگاتی رہیں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج:تعریف و توصیف، دُعائوں کا بے حد شُکریہ۔ بس، آپ سے ایک درخواست ہے کہ کوشش کرکے ذرا چھوٹے جملے میں مدّعا بیان کیا کریں۔ بعض اوقات آپ کا ایک جملہ اس قدر طویل ہو جاتا ہے کہ جملے کے ختم ہونے تک یاد ہی نہیں رہتا کہ بات شروع کہاں سے اور کس موضوع پر کی تھی۔

نہیں ہوتا، تو ہونا چاہیے…

ہم اپنے بھتیجے، بھتیجیوں، بزرگ واروں اور دوستوں کی دعائوں کے طفیل ماشاء اللہ حیات ہیں اور پوری طرح چاق چوبند بھی۔ گو کہ کافی عرصے سے رُوپوش یا گوشہ نشین تھے اور ابھی مزید بھی رہنے کا موڈ تھا، لیکن میگزین نے مجبور کردیا اور یاد رکھنے والے لکھاریوں کے سبب غیر حاضری ختم کردی۔ جریدہ مستقلاً زیرِ مطالعہ ہے، لیکن اس مرتبہ کچھ مفید اور مفت مشوروں کے ساتھ حاضرِ خدمت ہیں۔ سال 2021ء رخصت ہوا، کیا آپ کے یہاں بھی کچھ بڑے اداروں(مگر جنگ سے چھوٹے) کی طرح سالانہ ڈنر اور سال بھر کی خدمات کے اعتراف میں اسٹاف کو ترقی، اسناد اور بونس وغیرہ سے نوازا جاتا ہے۔ ہم جس ادارے میں ملازم تھے، وہاں تو یہی کچھ ہوتا تھا اور ہمارے یہاں اس سالانہ پروگرام کو ’’بڑا کھانا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ دراصل اس طرح اسٹاف میں مزید بہتر کارکردگی دکھانے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فضا پیدا ہوتی ہے، جس سے عمومی معیار میں بہتری آتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا، تو ہونا چاہیے۔ آپ اپنے اسٹاف سے جس طرح کام لیتی ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ آپ سب فیملی ممبرز کی طرح رہتے ہیں، نہ کہ کولیگز کی طرح، تو آپ کو بھی چاہیے کہ سال کے آخر میں، جس ٹیم ممبر کی کارکردگی سب سے بہتر ہو، اس کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کی کوئی صُورت نکالیں۔ (چاچا چھکن، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج: ہوتا تھا، اس ’’بڑے ادارے‘‘ میں بھی بہت کچھ ہوتا تھا، پھر بحران در بحران در بحران… اور اب تو عالم یہ ہے کہ تن خواہ مل جائے، غنیمت ہے، کُجا کہ ترقی، اسناد، بونس۔

درجن بھر، رنگا رنگ تحاریر

سال ٹی۔ ٹوئنٹی ون سارے عالَم سے ہوتا ہوا قارئینِ جنگ، سنڈے میگزین کی راہِ دل سے بھی گزر گیا ہے۔ اس عرصے میں ہمارے میگزین کی رُوح رواں (مدیرہ صاحبہ) نے اپنے جادوئی قلم سے کوئی درجن بھر رنگارنگ تحاریر نذرِ قارئین کیں۔ جن میں ایک قومی یوم، تین مذہبی تہواروں، تین خصوصی مواقع اور چار عدد تحریریں عالمی ایّام کےحوالے سے تھیں۔ ملکہ عالیہ اور اُن کے مصاحبین کی شبانہ روزمحنت سےقارئین کی دینی و روحانی اور ادبی و فکری تربیت کاسال پھر بھرپور ساماں ہوا۔ اس کا اعتراف ہم قارئین کی طرف سے نہ کیا جانا بُخل اور مترادفِ بے مروّتی ہوگا۔ آیئے، دیکھیں کہ سالِ نَو ایڈیشن سے تادمِ تحریر (14نومبر) 46 شماروں میں مدیرہ صاحبہ اخبار منزل کے جھروکوں میں کب اور کس انداز سے جلوہ گر ہوئیں۔ سالِ نَو کے موقعے پر سال نامے (3جنوری) میں ’’حرفِ آغاز‘‘ پہلی تحریر تھی، جس میں سالِ گزشتہ کے آثارِ حشر سے دگرگوں حالات کے بے باکانہ تجزیے کے ساتھ سالِ نَو کے لیے خوش گوار توقعات بھی وابستہ تھیں۔ سال نامہ پارٹ۔ٹو میں سُرمئی اور پیلے رنگوں کو ’’کلرز آف دی ایئر‘‘ قرار دیتےہوئےقارئین کورنگ محل کی خُوب سیر کروائی۔ زرق برق پیراہن میں پیکرِجمال دیکھ کر بے ساختہ کہنا پڑا ’’ایک آفتاب کا رنگ، ایک ماہتاب کا رنگ‘‘۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں دل کے ویرانے میں گویا چپکے سے بہار آگئی۔ ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کے حوالے سے لکھی گئی تحریر میں بناتِ حوّا کو شان دار خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ’’افسانۂ ہستی کا حسیں باب ہے عورت۔‘‘ 17ویں شمارے میں اخون زادی نے اپنے استادِ محترم، پروفیسر متین الرحمنٰ مرتضیٰ کی دل کش باتوں اور سنہری کاموں کو دل نشیں پیرائے میں قارئین سے شیئر کیا۔ بھئی عظمتِ معلّم تو ماورائے نوکِ قلم ہے کہ ’’آفتاب آمد، دلیل آمد‘‘۔ اگلے ہفتے ہمارے قلوب، جذبۂ ایمانی سے لب ریز اور فیوض رمضان سےمعمور ہوگئے۔ مدیرہ نے رمضانی تحریر میں بجا فرمایا کہ ’’ماہِ رمضان کا یہ سب فیضان ہے‘‘۔ اگلے ہفتے 9 مئی کو ’’مدرز ڈے اسپیشل‘‘ میں ہیٹ ٹرک ہوگئی، جب حنا پرویز بٹ اور اُن کے اکلوتے بیٹے، محمّد کی چاہتوں کی عکّاسی کرتا باتصویر ’’مامتا نامہ‘‘ مرکزی صفحات کی زینت بنا۔ اوہو! مرحبا، یہ تو ہیٹ ٹِرک پلس ہوگئی دوستو۔ عیدالفطر کے پُرمسّرت موقعے پر، پرستاروں کو سندیسۂ محبّت دیا گیا ؎ کسی کے لب پہ تبسّم سجا کے عید منائیں… وسطِ سال میں ’’عالمی یومِ والد‘‘ کے حوالے سےجان دار رائٹ اَپ لکھ کر بندگانِ خدا کے بھی دل جیت لیے۔ ’’عیدالاضحی ایڈیشن‘‘ میں فلسفۂ قربانی پر دلالت کرتی سلونی تحریر میں ایسی تاثیر تھی کہ ہم قارئین کی جانب سے انہیں نرگسی کوفتوں کی ٹریٹ دینے کا جی چاہا۔ یومِ آزادی ایڈیشن نارجسی رائٹ اپ سے مہکتا جب دستِ شیدا میں پہنچا تو ہر قاری کی طرح قلبِ سلیم بھی معترف ہوا کہ مدیرہ بھی بزم آرا ہیں۔ اور 35ویں شمارے میں ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ پر قلم باحجاب کا 11ویں بار دیدار ہوا ؎ چہرہ کہ جیسے ایک صحیفہ ہو نور کا… مگر اُس کے بعد ڈھائی ماہ میں 11شمارے، اختر شماری میں گزر گئے۔ مدیرہ صاحبہ اور اُن کی ٹیم، ورسٹائل میگزین کی باقاعدہ اشاعت پر قابلِ داد و تحسین ہیں۔ دُعا ہے کہ بزمِ احباب اور جانِ بزم کے بیچ یہ سہانا بندھن دائم و مدام رہے۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج:یااللہ! ایسی قدر دانی اتنی عزت افزائی… اتنا تو ہم نے خود بھی، کبھی اپنےآپ کو سیریس نہیں لیا۔

اچھے انداز میں تبصرے

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے افغانستان پر بہت ہی شان دار مضمون لکھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد احمد غزالی کی خُوب صُورت تحریر بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منصور اصغر راجا کا علّامہ اقبال پرمضمون قابلِ مطالعہ ٹھہرا، تو ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں وحید زہیر نے صوبہ بلوچستان کی کہانی بیان کی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں منور راجپوت نے اچھے انداز میں تبصرے کیے۔ خاص طور پر ’’ڈھاکا میں آئوں گا‘‘ پر تبصرہ تو بہت ہی عُمدہ تھا۔ ناول شان دار ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر بشیر کا انٹرویو بھی پسند آیا۔ پیارا گھر ہمیشہ کی طرح خُوب کہ ’’دستر خوان‘‘ بھی موجود تھا۔ اب تو ’’ڈائجسٹ‘‘ میں بھی بہت محنت نظر آتی ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

نگاہوں میں گھوم گیا

اس سےپہلے بھی ایک عدد خط ارسال کیا تھا، جس کا جواب آپ نے مختصر سا دیا۔ بہرحال، اس بار سنڈے میگزین میں منور مرزا کا مضمون ’’گرے لسٹ کا چکّر کیسے ختم ہوگا؟‘‘ بہت خُوب صُورت انداز میں تفصیلاً لکھا گیا اور وادیٔ کیلاش کی سیر بھی اس عُمدگی سے کروائی گئی کہ سارا علاقہ نگاہوں میں گھوم گیا۔ بقیہ صفحات بھی حسبِ معمول اچھے رہے۔ (ملک تھہیم)

ج: اب آپ کی ان دو باتوں کے جواب میں ہمیں کیا کہنا چاہیے؟

                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شورش زدہ شب و روز، ہنگام زدہ زندگی کی اَن تھک مسافت میں لامحدود راہوں پر آَن جان منزلوں کی جانب اندھا دُھند بھاگتے بھاگتے یک دم یونہی اِک جملہ نظر سےگزرا اور اُس نے قدم روکنے پر مجبور کردیا۔ ’’دفن آرزوئیں زندہ درگور ہو کر بھی دل کا مسکن رہتی ہیں‘‘ ٹھہرجانے کا وہ لمحہ یک دَم وارد ہونے والے آگہی کے عذابوں کا لمحہ تھا، جس نے مجھ سے میری ہی ذات کی موجودگی پر کئی سوال کر ڈالے۔ کون ہو، کہاں سے آئی ہو، کس اور بھاگتی چلی جا رہی ہو، تم کیا تھی اور کیا بن گئی ہو؟ اس بازگشتِ رواں سے پریشان ہو کر خود پر ذرا کی ذرا اِک نظرِ حیراں ڈالی، پھر نگاہ اُٹھائی تو سامنے ایک نوٹنکی جادوگرنی کا شفّاف میجک بال تھا، جس پر ’’ایبرا کا ڈیبرا‘‘ کا سحر پھونکا جا چُکا تھا۔ وہ مجھے میرے سفر پر تکان کی فلم دکھا رہا تھا۔ ابّو کے آنگن میں لگا جھولا جھولتی، بے رَیا، معصوم سی شائستہ اپنےخیالات وتصوّرات کےتانےبانےبُنتی، مغرب کے بعد چھت پر تاروں کی چھائوں میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر اپنےبچگانہ خیالات کو طرزِ گفتگو یا کہانی کے کرداروں میں ڈھالتی، پھر نوک پلک سنوار کر ابّو کو پوسٹ کے لیے دے دیتی۔ بےلاگ لپیٹ سب کہہ دینے کی آفر سےبھرپور فائدہ اٹھاتی اورحیران کُن طورپراس بچپنے کی پذیرائی، حوصلہ افزاجوابات کی صُورت ہوتی،کبھی بزم میں ہمیشہ آتےرہنے کی دعوت توکبھی کانچ جیسے نازک جذبات کو ٹھیس سے بچانے کی نصیحت۔ نرجس جی سے عجیب سا رشتہ قائم ہو گیا۔ تاریخی خطوط کے تراجم والےسلسلے کا اس ہائیڈ پارک میں ایک لوکل ورژن پیش کیا اور جواباً نرجس جی کے جان دار قہقہے… وہ میجک بال مزید دکھاتا رہا۔ پھر مائے دیس چُھوٹا، بابل کے انگنےکاجھولا اب خالی خولی ہلا کرتاہے۔ اورپھر یہیں سے،ہاں یہیں سےاندھا دُھند دوڑتی دنیا نے اپنے بےترتیب و بےاصول ہجوم میں شامل کرکے کسی کی شائستگی کو روندنا شروع کردیا۔ لانگ میراتھن کے بھی شاید کچھ ضوابط ہوا کرتے ہوں گے، مگر اس ’’بائولی بھیڑ‘‘ سی دنیا کی نہ تو سمت کا تعیّن ہے، نہ ہی کچھ قواعد مرتّب۔ سماجی رویّے، جسمانی اذیّتیں، روحانی وار اورذہنی کچوکے…سب کی گٹھری کمرپر لادے بس دوڑتےچلےجاناہے۔ اللہ نے رحمت نازل فرمائی، اُس کو بانہوں میں سمیٹے حصولِ معاش کی تھکن زدہ ریس میں گھڑی کی ٹک ٹک کےساتھ ہم قدم رہی۔ پروفیشنل ذمّےداریوں سےنبردآزما ہونے کے بعد گڑیا کو کندھے سے لگائے ہانڈی میں نمک، مرچ کا تناسب قائم رکھنےکی فکرمیں ہلکان، شل بازوئوں سے رات گئےتک چیدہ چیدہ کام نمٹاتی، اب مَیں اکثر عورتوں کی طرح نظم ’’ورکنگ لیڈی‘‘ کی عملی تصویر ہوں۔ بات شروع ہوئی تھی ٹھٹھک کرٹھہرنے سے۔ شفّاف میجک بال میں وہ جملہ چمکا اور فلیش دکھا کر سب ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ ’’تتلیوں پھولوں کی دیوانی، خواب نگر کی وہ لڑکی اپنی ہی دنیا کی شہزادی تھی۔‘‘ یہ کہانی شاید بہت عام سے انداز میں آگے بڑھے، غالباً یہ اس دنیا کی کہانی ہی نہ ہو۔ شاید پریکٹیکل زندگی سے میلوں دُوربسائے گئے جذبات و احساسات کے کسی گائوں کی کہانی ہو، جہاں کی صبحیں روشن اور شامیں نارنجی ہوتی ہیں،مگرکہانیوں میں ٹریجڈی بھی تو ہوتی ہے، پر سمجھے کون کہ دل کا اُجڑنا تو کوئی حادثہ نہیں ہوتا ناں۔ ہے ناں، یہ کہانی تو ایک لڑکی نے لکھی ہے اور لڑکیاں خواہ کتنی ہی پریکٹیکل ہوجائیں، جذبات کے اجزائے ترکیبی میں قریب قریب ایک جیسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ زمانے کاچلن، اوریہ بھاگ دوڑ تومقدر ٹھہری، مگرکیوں نہ چند ساعتیں خود کے نام کرکےمَن کی بستی آباد کی جائے۔ہم اپنی دنیا کی خود شہزادیاں بنیں اورخودکو ہی شاباشی دے ڈالیں۔ مَیں نے ٹھہر کر صفحہ صفحہ پلٹا ہے نرجس آپی۔ سب وہی ہے اور سب وہیں ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ فیض عام جاری کیے ہوئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ وہی بے کل و بے چین دنیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے رائٹ اَپ جیسے بدلتی رُت۔ ’’متفرق‘‘ بہت منفرد ہوا کرتا ہے ہمیشہ اور اس صفحے کے شہسواروں کے سامنے آپ تنہا ڈھال و تلوار تھامے کھڑی۔ کسی کی گُڈ گیم پر داد، تو کسی کے وار کے جواب میں نوک قلم کا تیکھا انداز۔ سب سلسلے ہی بےمثل۔تو اب سورج کوچراغ دکھانے کی حماقت نہ کروں گی۔ سب ویسا ہی ہے، تو کیا مَیں ہی ہجومِ دوراں و ہنگامِ معاش میں بے طرح پھنس کرپیچھےرہ گئی تھی۔ ویسے اب بھی ساتھ چلنا ممکن ہوسکےگا؟ کیا یہ نام آپ کو کچھ کچھ شناسا معلوم ہوا یا گزرے ماہ و سال نے گرد میں لپیٹ کر دُھندلا سا دیا ہے؟ (شائستہ اظہر صدیقی، سیال کوٹ)

ج: صرف نام جانا پہچانا معلوم نہیں ہوا، تحریر پڑھتے بار بار آنکھیں بھی بھر آتی رہیں۔ ناقدر شناسی اس معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔ نہ جانے کتنے گوہرِنایاب رُلتے پھرتے ہیں۔ تمہارے لیے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر تم جیسی لائق فائق مگر بہت حسّاس طبع، زود رنج بچّی کی قدر نہیں کی گئی، تو یہ تمہارا نہیں، اس معاشرے کا نقصان ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* میگزین میں جن کتب پر تبصرہ کیا جاتا ہے، وہ مارکیٹ میں با آسانی دست یاب نہیں ہوتیں۔ اُن کے حصول کے کسی آسان طریقہ کار سے آگاہ کریں۔ (عباس علی عباس قریشی، حیدر آباد)

ج:ویسے آپ نے کتنی کتابیں ڈھونڈنے کی کوشش فرمائی.....؟  ہمیں تبصرےکے لیےجو کتب موصول ہوتی ہیں، ہم اُن پر درج نام و پتا بعینہ شایع کردیتے ہیں، تو اس سے آسان طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے۔ اب ہم کتب خرید کے آپ کے گھر تک تو پہنچانے سے رہے۔

* مَیں اپنا آرٹیکل ’’ماحولیات اور اسلام‘‘ صرف سنڈےمیگزین ہی کے لیے بھیج رہی ہوں، ناقابلِ اشآعت ہو تو مطلع کردیں۔ (صبور فاطمہ)

ج:کسی بھی تحریر کی اشاعت، عدم اشاعت کا فیصلہ صفحہ انچارج کرتا ہے اور پھرتمام تر ناقابلِ اشاعت تحریروں کی باقاعدہ ایک فہرست مرتب ہوتی ہے، جو وقتاً فوقتاً جریدے کا حصّہ بنتی رہتی ہیں۔ تو آپ کو بھی اُسی فہرست کا مطالعہ کرنا ہوگا، کیوں کہ اس طرح کسی بھی تحریر سے متعلق انفرادی طور پر بتانا ہمارے لیے ممکن نہیں۔

* مَیں پچھلے کئی ماہ سے مستقلاً لکھ رہا ہوں، لیکن تاحال میری ایک بھی تحریر اشاعت کی منزل نہیں پاسکی، لیکن بخدا مَیں پھر بھی مایوس نہیں ہوں۔ (صابر علی، ٹنڈو جان محمّد، میرپور خاص)

ج:اگر ہمارے پاس آپ کی تحریریں محفوظ ہیں، مطلب ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں آپ کا نام شایع نہیں ہوا، تو پھر اُمید رکھیں کہ جلد یا بدیر تحریر شایع ہوجائے گی۔

* معاشرے سے جذبۂ ہم دردی و غم خواری ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس موضوع پر بھی کام ہونا چاہیے۔ اور سنڈے میگزین کو تھوڑا سا سائنٹیفک بھی ہونا چاہیے، باقی سب ٹھیک ہے۔آپ اور آپ کی ٹیم کے لیے میری طرف سے شاباش۔ (ظفر یوسف)

ج: شاباش!!.....اپنی پانچویں کلاس کی اسلامیات کی مِس یاد آگئیں۔ وہ خوش خطی پر ’’شاباش‘‘ دیا کرتی تھیں۔

* بلاشبہ، جنگ ’’سنڈے میگزین‘‘ ایک قابلِ قدر جریدہ ہے۔ ممکن ہو تو مولانا اللہ وسایا (شاہینِ ختمِ نبوت) کا بھی انٹرویو کروائیے۔ یا پھر عالمی مجلسِ تحفّظِ ختم ِنبوت تنظیم سے متعلق اُن کی خدمات پر کوئی رپورٹ مرتّب کروائیں۔ (وقاص علی قریشی، حیدر آباد)

ج:جی، کوشش کرتے ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk