دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ شدید ترین لوڈشیڈنگ سے دوچار رہنے کے بعد سات آٹھ برس سے ارزاں ہائیڈل پاور کے بجائے بجلی کی پیداوار کا بیشتر انحصار مہنگے ذرائع پر ہے۔ اس طرح پاکستان بجلی کی طلب و رسد میں توازن لانے میں تو کامیاب ہوا ہے لیکن ڈالر کی قیمت بلند ترین سطح پر جانے سے پیداواری لاگت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تنخواہ دار و غریب طبقے اور ملک کی صنعتیں اس کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ بلوچستان کے بعض اضلاع خصوصاً مستقبل کا معاشی حب گوادر ابھی تک نیشنل گرڈ سے مطلوبہ مقدار میں بجلی حاصل کرنے سے محروم ہے اور ایران سے سو میگاواٹ بجلی حاصل کر کے گوادر، پنجگور اورتربت کے اضلاع کو فراہم کی جا رہی ہے۔ ایران اپنے تیل و گیس کے وسیع تر ذخائر کی بدولت بجلی پیدا کرنے کی وسیع صلاحیت رکھتا ہے اور پاکستان کو بارہا اس کی ضرورت پوری کرنے میں تعاون کی پیشکش کر بھی چکا ہے‘ تاہم چند روز سے پاکستان کو 100میں سے محض 20میگا واٹ بجلی فراہم ہو پا رہی ہے جس کا سبب ٹرانسمیشن لائنوں کی مرمت کا کام بتایا جاتا ہے۔ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کے مطابق 80میگا واٹ کی برقی قلت کو پورا کرنے کیلئے تربت، گوادر اور پنجگور میں اضافی لوڈشیڈنگ کرنی پڑ رہی ہے لیکن توقع ہے کہ ایران کی جانب سے سپلائی جلد معمول پر آ جائے گی۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں مقامی سطح پر سستے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں ۔ تیل و گیس ہو یا بجلی، وطن عزیز میں ان سب کی پیداواری صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ ضروری ہے کہ عارضی انتظامات کے بجائے تمام وسائل بروئے کار لاکر توانائی کے مسائل مستقل طور پر حل کئے جائیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998