• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں گزشتہ تقریباً پونے دو سالوں میں جو رپورٹس پیش کی گئی ہیں ، ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کا مسئلہ ہماری سوچوں سے بھی زیادہ گمبھیر ہے ۔ ان رپورٹس میں تازہ ترین رپورٹ وہ ہے ، جو وفاقی وزارت داخلہ نے پیش کی ہے۔ اگر ان ساری رپورٹس کو جمع کرکے ان کا تجزیہ کیا جائے تو وہ بات سامنے آتی ہے جو رپورٹس مرتب کرنے والی بیورو کریسی نے اب تک نہیں کی ہے ۔ رپورٹس میں بیوروکریسی کے اپنے تبصرے بہت عامیانہ ہیں لیکن رپورٹس کے حقائق انتہائی خطرناک اور سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ مذکورہ رپورٹس میں درج حقائق سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ کراچی میں بدامنی کے ڈانڈے بہت دور تک جاکر ملتے ہیں۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کا نیٹ ورک کہیں نہ کہیں ایک ہوجاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست اور ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اگلے روز کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران اسلحہ سے بھرے 19ہزار کنٹینرز غائب ہونے کی رپورٹس کا سخت نوٹس لیا اور برہمی سے کہا کہ بڑی مقدار میں اسلحہ اور بارود بندرگاہوں سے کراچی اسمگل ہورہا ہے اور یہاں سے بلوچستان سمیت پورے ملک کو فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ حکام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ جناب چیف جسٹس نے جن رپورٹس کا ذکر کیا ہے ، ان کے بارے میں اگر سوچا جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اسلحہ سے بھرے ہزاروں کنٹینرز کو غائب کرنے میں کسی کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے کیا کر رہے تھے ۔ اگر ان معاملات کی مزید گہرائی میں کوئی جائے تو اور زیادہ بھیانک حقائق سامنے آئیں گے ۔ صرف اس بات کا ہی عمیق تجزیہ کیا جائے کہ گزشتہ 30 سال سے دہشت گرد پاکستان میں آزاد کیوں گھوم رہے ہیں تو بہت ساری باتیں سمجھ آنے لگیں گی ، جو نہ تو بیورو کریسی اپنی رپورٹس میں بیان کرسکتی ہے اور نہ ہی ان کالموں میں ان کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔
اب تک سپریم کورٹ میں جو رپورٹس پیش کی گئی ہیں ، ان میں سیکورٹی اداروں کے تھنک ٹینکس نے کراچی کی خراب صورتحال کے حوالے سے بعض مشترکہ باتیں کی ہیں ۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ آبادی کا بڑھتا ہوا دباوٴ کراچی میں امن وامان کو خراب کرنے کا ایک بنیادی سبب ہے لیکن بیورو کریٹس کے پاس اس امر کو جھٹلانے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں بھی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور وہاں دہشت گردی نہیں ہوتی۔ ایک اور سبب یہ بتایا گیا ہے کہ زمینوں پر قبضے کرنے والے اور منشیات فروش گروہوں کے مابین لڑائی کی وجہ سے کراچی میں خونریزی ہورہی ہے لیکن رپورٹس میں اس طرح کی رائے قائم کرنے والی بیورو کریسی اس حقیقت کو مجرمانہ طریقے سے چھپا دیتی ہے کہ کراچی میں مارے جانے والے اکثر بے گناہ لوگوں کا زمینوں کے جھگڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ کچرا چننے والا غریب اور ٹھیلا لگانے والا محنت کش اگر مارا جاتا ہے تو اس کا زمینوں پر قبضے اور منشیات کی اسمگلنگ سے کیا تعلق ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض سیاسی ، لسانی اور مذہبی گروہ کراچی شہر پر اپنا تسلط قائم یا برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ کراچی میں عوام کی سطح پر کوئی لسانی، سیاسی یا فرقہ وارانہ تصادم ہورہا ہے اور عام لوگ اس تصادم کا حصہ ہیں ۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ گروہ کیا اس قدر طاقتور ہے کہ ریاستی ادارے گزشتہ 30 سال سے ان پر قابو نہیں پا سکے ہیں۔ مختلف گروہوں کی طرف سے شہر پر قبضہ کرنے کی کوششیں لوگوں کو واضح طور پر نظر آرہی ہیں لیکن کوئی یہ بات نہیں سمجھ رہا کہ آپس کی لڑائی کے باوجود سارے گروہ ایک ہی مقصد کے لئے کام کررہے ہیں اور جو قوتیں کراچی میں دہشت گردی کو جاری رکھنا چاہتی ہیں ان کے لئے کراچی کے گروہوں کے درمیان تصادم کی کیفیت زیادہ موزوں ہے ۔ اس طرح ریاستی ادارے شعوری یا لاشعوری طور پر الجھ جاتے ہیں اور اصل محرکات تک نہیں پہنچ پاتے ۔ بیورو کریسی کی رپورٹس میں اس بات کا بھی تجزیہ نہیں کیا جاتا ہے کہ کراچی میں گروہی تصادم کا باہر سے آنے والے اسلحہ سے بھرے کنٹینرز سے کیا تعلق ہے اور کراچی سے پورے ملک کو اسلحہ فراہم کرنے کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں ۔ رپورٹس میں دیگر عوامل کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا ہے مثلاً قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کراچی میں قیام امن کے لئے اقدامات سے کون روکتا ہے ۔ صورتحال کا غلط تجزیہ کیوں پیش کیا جاتا ہے۔ جب بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے تو اس کا رخ کیوں موڑ دیا جاتا ہے ، جس سے یہ آپریشن مصنوعی اور بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹس میں بیورو کریسی کے تجزیئے اور آراء اپنی جگہ لیکن حقائق ایسے سوالات کو جنم دے رہے ہیں ، جو ریاستی اداروں کی رہی سہی ساکھ کو بھی ختم کردیں گے۔
اب وقت آگیا ہے کہ حقائق کو اس طرح سمجھا جائے، جس طرح وہ ہیں ۔ کراچی سمیت پورے پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو کسی قسم کی عوامی حمایت حاصل نہیں ہے اور دنیا کے کسی بھی ریاست میں اس طرح نہیں ہوتا ہے کہ دہشت گرد بلا روک ٹوک اپنی کارروائیاں کرتے رہیں اور ریاستی ادارے طویل عرصے تک اس بات پر اتفاق نہ کر سکیں کہ دہشت گرد کون ہے اور ان کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہئے ۔ یہ بھی بات افسوسناک ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ابھی تک قومی سلامتی کی کسی پالیسی پر متفق نہیں ہو سکی ہیں۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے صرف پولیس اور دیگر سویلین فورسز ناکام نہیں ہوئی ہیں بلکہ پاکستانی افواج کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف آزادانہ کارروائیاں کررہی ہیں بلکہ پاکستان کی سیاست میں بھی ان کا کردار تشویشناک حد تک نمایاں ہوگیا ہے ۔ اگر ان حالات کی ذمہ داری کا تعین کیا جائے تو پھر آنے والی کئی نسلوں کا ریاستی اداروں پر اعتماد بحال نہیں ہو سکے گا۔ ایک مخصوص مفاد دہشت گردی کو پروان چڑھا رہا ہے اور اس مخصوص مفاد کا تحفظ ایسی قوتیں کررہی ہیں ، جن کا کوئی نام بھی نہیں لے سکتا ۔ سفارتی سرگرمیوں اور فلاحی کاموں کی آڑ میں کس طرح پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے اور بہت بڑے ادارے اس مداخلت کے لئے کس طرح پلیٹ فارم مہیا کررہے ہیں ؟ اس بارے میں پاکستان کے سیکورٹی ادارے بے خبر نہیں ہوں گے تاہم عام لوگوں کو بہت کچھ غیر معمولی نظر آرہا ہے اور لوگوں کے خدشات بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔ کراچی سمیت پورے پاکستان میں ہونے والی خونریزی میں نہ صرف لوگوں کو بڑے بڑے المیوں سے دو چار کیا ہے بلکہ مستقبل کے بارے میں انہیں مایوس بھی کردیا ہے۔ اب معاملات کو الجھانے کا وقت نہیں رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہونے والی دہشت گردی نے پاکستانی سماج کے تانے بانے بکھیر دیئے ہیں اور اس ریاست کی بنیادیں ہلا دی ہیں ، جو لوگوں کو جان و مال ، عزت وآبرو اور عقائد کے تحفظ کے لئے قائم ہوئی تھی۔ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان کے طاقتور حلقوں نے اپروچ نہ بدلی تو پھر سب کے لئے پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہے گا۔
تازہ ترین