• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوچۂ اقتدار کی راہداریوں میں موت کا سا سناٹا چھا چکا ہے، الوداعی گھڑی کی سیکنڈ کی سوئی کی ٹک ٹک بھی واضح طور پر گونجنا شروع ہو گئی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ عوامی تکلیفوں اور پریشانیوں کے ساتھ ساتھ مسلط زادوں کے بھی دن گنے جا چکے ہیں، فریقین اپنی اپنی صفیں ترتیب دے کر طے کررہے ہیں کہ کس طرح پیش قدمی کرنی ہے۔ اقتداری موم بتی بجھنے سے پہلے تیزی سے پھڑ پھڑا رہی ہے، سب کے چہروں پر سوگ نمایاں ہو چکا ہے، کچھ موسمی بٹیرے ڈوبتی نیا سے چھلانگ لگانے کی تیاری میں ہیں، بہت سوں کو متبادل کشتی والے لفٹ کروانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ سونامی سے مخالفین کو دھمکانے والوں کے گلے میں جب خود کی کمائی خالص بدنامی اور نااہلی کا بھاری بھرکم طوق پڑا تو ان کے سارے ہی طوطے اڑ گئے ہیں، ویسے کتنا اذیت ناک ہوتا ہے کہ مشکل وقت میں نہ کوئی بھائی ساتھ ہو اور نہ ہی کوئی آپ کا نام لیوا ہو، یہاں تو ہر کوئی اس کی لنکا ڈھانے کیلئے ثبوتوں سمیت تیار کھڑا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شدید تنقید کے ڈر سے قومی اسمبلی میں بولنے کی جرأت کرنے کی بجائے خالہ جی کے گھر سے آخری بار دھما چوکڑی کر ڈالی، لفظوں کو بےآبرو کرکے اپنا ہی سافٹ ویئر اس قدر وائرس زدہ کر چکا ہے کہ دورانِ خطاب نہ زبان ساتھ دے رہی تھی نہ بیان اور نہ ہی چہرے کے جذبات، یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ نفرت کا بیج بونے اور منافقت کی راہ اپنائے جانے کا انجام بخیر ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ روزِ اول سے ہر تقریر کا موضوع نواز شریف پر حملے سے شروع ہوکر نوازشریف کی سیاست کے اختتام پر ہی ختم کیا جانا طے ہوا تھا، سوچا تھا کہ مقامی سے لے کر بین الاقوامی میڈیا تک نواز شریف کے تعلقات کو سرے سے ختم کیا جائے گا، اخلاقیات کی ریڈ لائین پار کرکے لاہور تا لندن شریف خاندان کو زچ کیا گیا، کلثوم نواز کی موت کو جس طرح سے متنازعہ بنانے کی بھیانک کوشش کی گئی وہ سب کو یاد ہے۔ توقع باندھی گئی تھی کہ سختیاں اور عدالتی کارروائیوں سے گھبرا کر میاں نواز شریف اپنے اہلِ خانہ سمیت سیاست کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دیں گے اور ان کی پارٹی کی نئی پیکنگ کردی جائے گی لیکن مسلط زدہ سیٹ اپ جوں جوں عوام کیلئے کڑوی دوا بنتا گیا توں توں میاں نواز شریف کی مقبولیت واپس آتی گئی۔ سونے پر سہاگہ تب ہوا جب غیرمتوقع طور پر میاں نواز شریف نثاری انتظام کے تحت جھوٹی سزا بھگتنے کیلئے بیٹی کے ہمراہ لندن سے پاکستان واپس آگئے، یہ عمل ان کیلئے ترپ کا پتہ ثابت ہوا، دنیا بھر میں میاں نواز شریف اور مریم نواز کے اس عمل کو بہادرانہ فعل قرار دیا گیا، مریم نواز نے جس طرح مردانہ وار ان کا مقابلہ کیا ہے وہ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

خلافِ توقع نہ ن لیگ ٹوٹ سکی اور نہ نئی پیکنگ ہو سکی، اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف جواری گروہ اپنی مصدقہ کرپشن کی دلدل سے بچنے کیلئے ہاتھ پیر مار رہا ہے تو دوسری جانب ن لیگی لشکر جعلسازوں کو تنکوں کی طرح بہانے کو بےتاب کھڑا ہے۔ مہنگائی سے بیزار عوام جھوٹے بھاشنوں پر یقین کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں، نفرت کی سیاست اپنے منطقی انجام کی جانب رواں دواں ہے۔ مورخ لکھے گا کہ پہلے جب نواز شریف کو اقتدار سے بےدخل کیا گیا تو وہ بزنس مین سے سیاستدان بنے، دوسری بار وہ رہنما کے روپ میں ڈھل گئے، تیسری بار وہ مقبولیت کے کوہ ہمالیہ پر جا بیٹھے، اب وہ حقیقی عوامی سنہری نظریہ بن چکے ہیں، مورخ یہ بھی لکھے گا کہ میاں نواز شریف کو گرانے کی کوشش میں انکے بیشتر مخالفین سیاست کی صف سے ہی مِٹ ہو گئے۔ دِلوں کے بادشاہ کا سیاسی قد اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آمد کا اعلان ہوتے ہی عوام کا جمِ غفیر نواز شریف کا استقبال کرنے ائیر پورٹ امڈ آئے گا اور بےنظیر بھٹو کے تاریخی استقبال کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔

تازہ ترین