قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا اٹارنی جنرل کو لکھے گئے جوابی خط میں کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت معاملے پر خط لکھ کر توہین عدالت کی گئی، خط لکھتے ہوئے عدالتی حکم کو نظر انداز کیا گیا، وفاقی کابینہ کی ہدایت پر لکھا گیا خط شریف خاندان کے میڈیا ٹرائل کی کوشش ہے۔
اٹارنی جنرل کے لکھے گئے خط کے جواب میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے دو صفحات کاجوابی مراسلہ تحریر کیا جسے ان کے پرسنل سیکرٹری مراد علی خان نے اٹارنی جنرل کے سیکرٹری خالد خان نیازی کو ارسال کیا ۔
اٹارنی جنرل آفس کو بھجوائے گئے مراسلے میں شہباز شریف نے بتایا کہ نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس باقاعدگی سے جمع کرائی جا رہی ہیں، آپ کے خط سے تاثر ملا کہ خط سیاسی مقاصد کے لیے لکھا گیا ہے، اٹارنی جنرل کا لکھا گیا خط ماورائے قانون ہے۔
خط کے متن میں قائد حزب اختلاف نے تحریر کیا کہ اٹارنی جنرل کا خط ہائیکورٹ میں زیر سماعت معاملے میں توہین عدالت کےمترادف ہے،اٹارنی جنرل کے خط میں اختیار کردہ لب و لہجہ انتہائی قابل اعتراض ،نامناسب ہے، خط میں لاہور ہائیکورٹ کے 16 نومبر کے حکم کے مندرجات کو ملحوظ نظر نہیں رکھا گیا۔
شہباز شریف نے جوابی خط میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم نامے کا درست تناظر پیش نظر رکھے بغیر وفاقی کابینہ کی ہدایت پرخط لکھا، خط لکھنے والے ماتحت افسر انڈر ٹیکنگ کے اختتامی حصے کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں،نتیجہ اخذ کرنے کی وجوہات موجود ہیں کہ یہ خط سیاسی وجوہات کی بنا پر لکھا گیا ۔
جوابی خط میں شہباز شریف نے کہا کہ اٹارنی جنرل نےخط لکھتے ہوئے قانون، میڈیکل بورڈکی تشکیل کو نظر انداز کیا، کارروائی کی تفصیل اور اس کی بنیاد پر ہوئی معروضات کو نظر انداز کیا گیا، اٹارنی جنرل کا خط کابینہ کے دم توڑتے سیاسی بیانیے کی حمایت اور میڈیا ٹرائل کی نیت سے جاری کیا گیا۔
اٹارنی جنرل کا خط خلاف قانون، بلاجواز اور کسی قانونی اختیار کے بغیر ہے، خط لکھ کر جیسے کردار کشی کی گئی اس پر قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی پر اٹارنی جنرل نے شہباز شریف کو خط لکھ کر کہا تھا کہ 10 دن میں نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس خصوصی بورڈ کو پیش کریں۔