وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں دونوں متاثر ہوں گی، کچھ چیزوں پر نظرِ ثانی کی درخواست کی جائے گی، ججز قانون کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں۔
کراچی میں سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس پر تفصیلی بات ہوئی، فیصلے پر کمیٹی بھی بنائی ہے، دیکھیں گے کہ فیصلے کے کون کون سے حصے ہیں جس پر عملدر آمد کرنا ہے۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ جب پٹیشین دائر ہوئی تو آخری سماعت اکتوبر 2020 ء میں ہوئی، اس وقت پراپرٹی ٹیکس کی کلیکشن ان اداروں کے پاس نہیں تھی، ابھی جو جماعت اسلامی سے معاہدہ ہوا ہے، اس سے بھی تبدیلی ہوگی۔
وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے صرف 2013 ء کے قانون میں دو سیکشن کو کالعدم قرار دیا ہے، یہ دو سیکشن کالعدم ہونے سے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے کمیٹی قائم کی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام صوبوں کےلیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے بلدیاتی انتخابات تک ڈسٹرکٹ کونسلز کام کرتی رہیں گی،جماعت اسلامی سے معاہدے کی روشنی میں قوانین میں ترامیم ہونی ہیں، جماعت اسلامی کے ساتھ معاہدہ ہوا جس میں بہت چیزیں طے ہوئیں۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم پردو جزائر کو پروٹیکٹڈ فاریسٹ کی منظوری دی ہے، بہادری کی بنیاد پر پرموشن پر سپریم کورٹ میں سفارشات دینی ہے، محکمہ جیل میں بھرتیوں کے حوالے سے بھی بڈنگ کی منظوری دی ہے۔
سعیدغنی نے بتایا کہ کوآپریٹو مارکیٹ کے متاثرین کی معاوضے کی منظوری دی ہے، اسٹیل مل کی زمین سوئی سدرن کو دی جارہی ہے، کابینہ نے تحفظات کا اظہار کیا کہ یہ زمین کسی اور کو نہیں دی جائے گی، اگر زمین کی ضرورت نہیں ہے تو وہ سندھ کو واپس دی جائے۔
انہوں نے کہاکہ قومی، صوبائی اور بلدیات کی حلقہ بندیاں ہمیشہ حکومتیں کرتی رہی ہیں،پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مخالفین کے بنائے گئے حلقوں پر الیکشن لڑا اور جیتا، ہمارے دور میں حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کرتا ہے۔
وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ جسٹس گلزار صاحب ریٹائرمنٹ کے وقت یہ فیصلہ دے گئے، بھٹو صاحب کے قتل سے متعلق ہماری پٹیشن بھی کورٹ میں ہے، ہماری اس پٹیشن پر سماعت تک نہیں ہوتی ہے، بھٹو صاحب کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں قتل کروا دیا گیا۔
انہون نے کہا کہ لامحدود اختیارات کے ساتھ کوئی حکومت نہیں ہوتی ہے، بلدیاتی اداروں کے پاس مالیاتی اور انتظامی اختیارات موجود ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ اسلام آباد سمیت دیگر صوبوں پر بھی لاگو ہوگا، فیصلے سے جو مشکلات آئیں گی وہ دیگر صوبوں میں بھی آئیں گی، ہم سپریم کورٹ سے فیصلے کی مزید تفصیلات مانگیں گے۔