ایک لمحے کے لیے ہم آنکھیں موند لیں اور تصور کریں ایک گھر کا، جو کشمیر کے ایک دورافتادہ گائوں میں واقع ہے جہاں گھر کے چھ افراد نہایت تنگی اور ترشی سے گزارہ کرتے ہیں۔ گھر کا سربراہ دن بھر مزدوری کر کے یا جنگل میں لکڑیاں کاٹ کر بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کر پاتا ہے اور غذائی قلت کا شکار کمزور اور معمولی کپڑے پہنے اس گھر کی عورت گھر بھر کا کام کرتی ہے، ایسے میں ایک دن بھارتی فوجی دندناتے ہوئے کسی مجاہد کی تلاش کا بہانہ بنا کر اس گھر میں آن گھستے ہیں اور دروازے توڑ دیتے ہیں، معصوم بچے سہم کر ماں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔
شوہر آگے بڑھتا ہے تو اس فوجی کی گن کے آہنی بٹ سے اس کا سرپھاڑ دیا جاتا ہے، وہ روتا ہے اور اپنے بچوں کے لیے رحم کی بھیک مانگتا ہے مگر اس کی آواز اس کے حلق میں ہی خاموش کر دی جاتی ہے۔ فوجی درندے بچوں کی ماں سے توہین آمیز سلوک کرتے ہیں اور ان سب کو روتا چلاتا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
یہ کشمیر کے محض ایک گھر کا منظر ہے، وہ کشمیر و چنار کے اداس درختوں کی طرح ان مناظر سے بھی بھرا پڑا ہے۔ یہ ایک منظر یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اب ایک مظلوم عورت کو اپنی کچلی ہوئی نفسیات اور جذبات کے ساتھ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور اپنی زندہ لاش کے بوجھ کو گھسیٹنے کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے۔
آج کشمیری عورت کم از کم سابقہ تین دہائیوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ایک عذاب سے گزر رہی ہے۔ اس کے حصے کے محمد بن قاسم بے حمیتی کی چادر اوڑھے بے خبر سور رہے ہیں۔ اس کے لیے کوئی در نہیں کھلتا۔ اس کے لیے زبانیں گنگ ہیں اور قدم زنگ آلود، کیونکہ اس پر ظلم ڈھانے والے عالمی آقائوں کے لیے بڑی منڈی بھی رکھتے ہیں اور ان کے اتحادی بھی ہیں۔
کشمیر کے حوالے سے کام کرنے والے بہت سے باوثوق ادارے بتاتے ہیں کہ تحریک آزادی کے گزشتہ برسوں کے دوران کشمیر میں اپنے محبت کرنے والے شوہروں سے محروم ہو جانے والی دکھی خواتین کی تعداد پچاس ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ ایک بڑی تعداد ان مائوں کی ہے جن کے نوجوان یا کمسن بیٹے تحریک حریت کشمیر میں شہادت کا درجہ پا چکے ہیں یا لاپتا ہیں اور کم و بیش ڈیڑھ لاکھ یتیم بچوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی ان پریشان حال عورتوں پر آن پڑی ہے۔
یہی نہیں ان برسوں کے دوران بیس ہزار سے زائد خواتین کو بھارتی درندوں نے اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنایا اور ایک ہولناک حقیقت یہ بھی ہے کہ کشمیر میں بھارتی ظلم کا شکار ہو کر جان گنوا دینے والے ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد میں سے خواتین کی تعداد بھی بے شمار ہے۔ یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو کشمیر کے دور دراز علاقوں سے دستیاب ہو سکے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جن تک ذرائع ابلاغ اور تحقیق کار پہنچ بھی نہیں پاتے۔
کشمیر میں ایک نئی اصطلاح جو بہت زیادہ مشہور ہو چکی ہے اور وہ ہے آدھی بیوائوں کی، یعنی جن کے شوہروں کا پتا ہی نہیں ہے کہ وہ مر چکے ہیں یا زندہ ہیں۔ وہ ایک ایسی معلق لاشیں ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان کی وراثت ، ان کے بچوں کی وراثت، ان کے دوسرے نکاح، کچھ بھی نہیں کر پارہیں۔ اپنے مستقبل کا انھیں نہیں پتا کہ وہ کس طرح کی صورت حال سے دوچار ہو رہی ہیں۔ پوری دنیا میں کشمیر کی ان غم زدہ عورتوں کے نصیب میں آدھی بیوائوں کی اصطلاح بھی مشہور ہو چکی ہے۔
میرا 5فروری کے ساتھ ایک جذباتی سا تعلق بھی ہے۔ یہ 1989ء کا زمانہ تھا جب الیف الدین ترابی، عبدالرشید ترابی، ڈاکٹر غلام نبی فائی اور ڈاکٹر ایوب ٹھاکر منصورہ آ کر میرے والد محترم (قاضی حسین احمدؒ) سے ملاقاتیں بھی کرتے تھے اور کشمیر کی اندرونی صورت سے بھی آگاہ کرتے تھے۔ اس وقت وادی کے اندر سے جو ایک نئی انتفاضہ کی تحریک شروع ہوئی تھی اس سے پاکستان کے لوگ بالکل بے خبر تھے، لیکن 1989ء کے اوائل میں دسمبر اور جنوری کی یخ بستہ راتوں میں اچانک ہی بہت سارے نوجوان فراسٹ بائٹ یعنی برفانی موسم کا شکار ہو کر جب بیس کیمپ مظفر آباد پہنچے تو پتا چلا کہ وادی میں بیداری کی ایک بڑی لہر آ چکی ہے۔
افغانستان کا جہاد اس وقت اپنے عروج پر تھا۔ وہاں کے مظلوموں کی ہمت اور جرأت کو دیکھ کر خطے کے دوسرے مظلوم لوگوں نے بھی ہمت پکڑی اور بڑی تعداد میں کشمیری نوجوانوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ وہ افغانستان بھی گئے اور اپنے علاقے کی آزادی کی تحریک میں بھی انھوں نے جان ڈال دی۔ بڑی تعداد میں جب نوجوان پاکستان آئے تو یہاں بیس کیمپ میں ان کے لیے کوئی بھی انتظام موجود نہیں تھا۔ جماعت اسلامی نے دامے درمے سخنے اپنے کارکنان کے ساتھ پورے ملک میں بیداری کی لہر پیدا کی اور ان مظلوم کشمیریوں کے حق میں انھوں نے رائے عامہ بھی بیدار کی اور ایک بھر پور مہم بھی چلائی۔
انھی دنوں 5جنوری 1990ء کو ملتان ایئر پورٹ پر جماعت اسلامی کے زیراہتمام ایک اچانک پریس کانفرنس میں اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے پوری قوم کو کشمیریوں کی پشتیبانی کی اپیل کی۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی اس واقعے کے راوی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں اور ڈاکٹر ایوب ٹھاکر محترم قاضی صاحب سےملنے منصورہ آئے تھے تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کشمیر کی تاریخ میں کون سا ایسادن ہے کہ جس کو ہم ادھر پاکستان میں منا سکیں، تو کہتے ہیں کہ میں نے ان کو کہا کہ ایک 5 جنوری ہے۔
5 جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کے پاک و ہند کمیشن نے کشمیر پر قرارداد پاس کی اور دوسری 21 اپریل 1948ء جب سلامتی کونسل نے کشمیر پر قرارداد نمبر 47 قبول کی تو ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ آغا جان نے کہا کہ پانچ جنوری تو گزر چکا ہے، لیکن ہم ان شاء اللہ 5فروری کو اس دن کا اعلان کرتے ہیں اور ہمارے پاس یہ پندرہ بیس دن ہیں۔ پھر وہ ہمیں عبداللہ نصیف عمر نصیف جو رابطہ عالم اسلامی کےسیکرٹری جنرل تھے جو میاں نوازشریف کے پاس بیٹھے تھے، ملاقات کے لیے لےکر گئے اور ان سے آغا جان کی ملاقات بھی ہوئی تھی تو کہتے ہیں ہم دونوں کو بھی لےگئےاور ان کو کہا کہ ہم کشمیر کے لیے پورے عالم اسلامی کو متحرک کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی، ان کی خواہش تھی کہ بے نظیر بھٹو ہی اس کااعلان کریں۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں حیران ہوا کہ کس قدر بے غرض اور بے لوث انسان ہیں کہ اللہ نے انھیں موقع دیا ہے۔ مگر یہ دوسروں کو آگے کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اس تحریک میں سب لوگوں کو شامل ہونا چاہیے، یہ صرف جماعت اسلامی کی تحریک نہیں بلکہ پوری قوم کی تحریک ہے۔تو کہتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ حیرت ہوئی کہ ایک لیڈر کا اتنا ویژن ہے کہ اپنے آپ کو پیچھے کر کے اپنےمقاصد کو آگے رکھتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے 5 فروری کو قاضی صاحب کا کشمیریوں کے لیے تحفہ بنا دیا ہے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میں جب قومی اسمبلی میں اپنا حلف لینے جا رہی تھی تو مجھے آغا جان نے تین نصیحتیں کی تھیں کہ بیٹا! اپنی ذات کو پیچھے رکھنا اپنے مقاصد کو آگے رکھنا ۔ اللہ بہت قدردان ہے وہ تمھاری ذات کو بھی پیچھے نہیں کرے گا۔ تم نے اپنی نیت بھی خالص رکھنی ہے اور اپنے مقصد پر نگاہ رکھنی ہے۔ دوسری نصیحت مجھے یہ کی تھی کہ کوئی بھی بات تمھیں معلوم ہو تو تم نے اسے فوراً اپنی قیادت تک پہنچانا ہے اور تنہا کسی چیز کی ذمہ داری نہیں لینی اور تیسری نصیحت یہ کی تھی کہ کسی بھی جگہ پر اکیلے نہیں جانا، اپنے گروپ کے ساتھ جانا ہے۔
اس طرح ذمہ داریاں بھی بٹ جاتی ہیں اور تمھیں تنہا کسی چیز کی جواب دہی بھی نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ تین نصیحتیں میں نے اپنے پلے باندھ لیں۔ بہر کیف اس طرح اس دن کا اعلان ہوا۔ پھر مجھے یاد ہے کہ جب دو سال بعد 1993ء کا 5فروری آیا تو الیکشن کا بھی زمانہ تھا اور اسلامک فرنٹ بھی ان دنوں بن رہا تھااور پاسبان بھی بنی ہوئی تھی تو لوگ بہت زیادہ متوجہ تھے۔ لوگ اپنے زیور بھی اور فنڈبھی آزادی کشمیر کی تحریک کے حوالے سے جمع کروا رہے تھے۔
جنوری 1993ء کا زمانہ تھا، ایک دفعہ ایک دلہن نے قیمتی زیور لا کر جہادِ کشمیر کے لیے دے دیا اور پہلی دفعہ آغاجان نے ایک ہیلی کاپٹر کرائے پر لیا تھا اور چار شہروں پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں 5 فروری کے جو جلسے منعقد ہوئے تھے ایک ہی دن ان چاروں شہروں میں پہنچے اور خطاب بھی کیے اور اس دلہن کا جو سونے کا بڑا سا ہار تھا وہ بھی دکھایا اور واپس آکر انھوں نے جماعت اسلامی کے بیت المال میں داخل کرا دیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد اسی دلہن نے اپنے ہار کی رسید کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مجھے اس ہار کی رسید نہیں ملی، پتا نہیں کہ میرا وہ ہار کدھر گیا۔
آغا جان گھر آئے تو کہا کہ وہ بیت المال میں ہے۔ تم لوگ ذرا اس کی رسید تلاش کرو کہ وہ کدھر ہے۔ گھر میں بھی ان کے بریف کیس میں چیزیں ہوتی تھیں، ہم نے بہت ڈھونڈا، نہیں ملی، لیکن جب وہ بیت المال گئے تو میں نے انھیں یاد دلایا کہ آغا جان آپ جس 5 فروری کو ہیلی کاپٹر میں جلسوں کے لیے گئے تھے۔ اُس میں آپ نے وہ ہار رکھا ہوا تھا۔ میرے پاس اُس کی تصاویر محفوظ ہیں تو جب وہ بیت المال گئے تو اُنھیں اُسی دن کی وہ رسیدیں مل گئیں اور پھر وہ دینے والے بہت شرمندہ ہوئے کہ ہم نے ویسے ہی قاضی صاحب پر شک کیا۔
ہمارے ناظم مالیات مسعود احمد خاں تھے، انھوں نے پھر وہ رسید بھی دلہن کو دی اور اس کو کہا کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کو اپنے ہار کی جو قیمت بنتی ہے یا سونا آپ کو واپس کر دیں تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ وہ بڑی شرمندہ ہوئی اور کہا کہ نہیں، مجھے لگا کہ قاضی صاحب نے میرے اس ہار کا پتا نہیں کیا کیا۔ مگر مجھے علم ہو گیا ہے کہ جماعت اسلامی کا بہت ہی شفاف نظام ہے۔
یہ یادیں ہیں، جہاد کشمیر اور اس میں آغا جان کی محنتوں اور خلوص کی اور پھر وہ کشمیر کے لیے عالم اسلام کے رہنمائوں کے پاس ایک وفدلے کر گئے جس میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) جمعیت علمائے اسلام کے نمایندے بھی تھے اور عبدالرشید ترابی اور آغا جان خود بھی تھے۔ یہ وفد سارے عالم اسلام کے رہنمائوں سے ملا۔ آغاجان ہمیں بتاتے تھے کہ ترکی کے صدر ترگت اوزال سے ملاقات کے لیے ہمیں آدھا گھنٹہ دیا گیا لیکن وہ کشمیر کے حوالے سے گفتگو میں اتنے زیادہ محو ہو گئے کہ تین گھنٹے گزر گئے، وہ ٹائم کو آگے بڑھاتے رہے کہ میں اس کو پوری طرح سمجھنا چاہتا ہوں۔
انھوں نے ہماری بڑی پشتیبانی کی اور ترکی اس وقت سے جہاد کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر میں ہمارا پشتی بان بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وہ امام کعبہ سے ملے، جامعہ الازہر کے علما سے ملے۔ قطر اور بحرین ، عرب امارات، سوڈان، ایران ساری جگہوں پر یہ وفد پورا مہینہ مصروف کار رہا اور میرا خیال ہے کہ وہ ایک بہت اہم پیش رفت تھی آزادی کشمیر کے لحاظ سے کہ 5 فروری پوری امت کے اکثر سفارت خانوں میں منایا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے کشمیر کی پشتی بانی کی جاتی ہے۔
سید علی گیلانی بابا کے ساتھ بھی بہت ساری یادیں ہیں۔ دو تین دفعہ ان کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ ایک دفعہ اچانک مجھے ایک فون کال پہنچی کہ آپ سے علی گیلانی بابا بات کرنا چاہتے ہیں اور میں پہلی دفعہ ان سے براہِ راست بات کر رہی تھی تو مجھ سے بات بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ انھوں نے مجھے بالکل آغا جان کی طرح سمیحہ بیٹی کہہ کر مخاطب کیا اور مجھے بڑی دعائیں دیں کہ میں نے تمھارا ویڈیو کلپ دیکھا ہے جس میں ، میں نے ایک پیغام دیا تھا کہ علی گیلانی بابا کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے تو یہاں کی بیٹیاں ان کو جواب دیتی ہیں کہ ہم کشمیری ہیں اور کشمیر ہمارا ہے تو انھوں نے مجھے بڑی دعا دی اور کہا کہ اللہ کرے تم سب لوگ اپنے والد کے لیے صدقہ جاریہ بن جائو۔ پھر ایک کتاب بھی بھیجی روح دین کا شناسا اقبال۔ یہ کتاب اقبالؒ کی فارسی شاعری کے حوالے سے تھی۔ انھوں نے آغا جان کے لیے ایک بڑا خوبصورت فارسی شعر بھی لکھا تھا۔
یہ کچھ یادیں ہیں علی گیلانی بابا کے حوالے سے۔ اللہ تعالیٰ سید علی گیلانی کو، آغا جان کو، ان کے تمام مجاہدین جو شہید ہوئے، انبیا اور صدیقین اور شہدا کا ساتھ نصیب کرے۔ اللہ ہماری آیندہ آنے والی نسلوں کو اس قابل کر دے کہ وہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق کر دیں اور ہم اپنی شہ رگ سمیت اپنے پاکستان کو اسلامی ، فلاحی اور جمہوری مملکت بنا سکیں۔