• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سال کا یوم کشمیر کئی حوالوں سے منفرد رہا۔ کئی سال سے اس روز کی مناسبت سے جاری ہونے والا آزادی والا آئیٹم سانگ بوجوہ ریلیز نہ ہوسکا جس سے کشمیریوں کا درد رکھنے والے اس تردد کا شکار ہوگئے کہ کیا کشمیر کے حوالے سے پھر پالیسی بدل گئی ۔ پھر حالات کا ادراک رکھنے والے دوستوں نے اس کی دو ممکنہ توجیہات پیش کیں۔ اول یہ کہ موضوع کے اعتبار سے اب کوئی نئی چیز رہی ہی نہیں جس کو گانے کی صورت میں پیش کیا جاسکے یا یہ کہ موجودہ صورت حالات میں اس قسم کے ایڈونچر کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ دوم شاید گانا تیار بھی کیا گیا ہو مگر بھارت کے خیر سگالی جذبات کے اچانک اظہار کی ضرورت کے تحت اسے آخری وقت میں ریلیز ہونے سے روکا گیا ہو۔ اور کیوں نہیں؟ صرف چند روز قبل ملک کے ایک، کھرب پتی تاجر نے انکشاف کیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی نہ صرف جاری ہے بلکہ عنقریب کسی بڑی پیش رفت کا امکان بھی ہے، انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی مستقبل قریب میں پاکستان کا دورہ بھی کرسکتے ہیں۔ اس قسم کے خوش آئند بیانات سے یہ امید بھی بندھ گئی کہ شاید اب کشمیر کے نام پر گزشتہ سات دہائیوں سے جاری کشیدگی کم ہوجائے گی تاکہ کشمیری کسی بیرونی مداخلت کے بغیر ایک حقیقت پسندانہ مؤقف اختیار کرسکیں۔ البتہ اس کو بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ نادیدہ طاقتیں اس قسم کے اعلانات درباری مجاوروں کے بجائے کاروباری حضرات کے ذریعے کروارہی ہیں جس سے اس قسم کے اعلانات کی نیک نیتی پر شک کی گنجائش کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ مزید برآں بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں عنقریب الیکشن ہونے والے ہیں جس کی وجہ سے فی الوقت بھارت کی جانب سے کسی قسم کے ’خیر سگالی‘ اقدامات کی گنجائش شاید ممکن نہ ہو۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف چند دن پہلے 31جنوری کو بھارت کے وزیر برائے پنچایتی راج کپل شرما نے مہاراشٹر کے مسلم اکثریتی قصبے بھیونڈی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ممکن ہے آزاد کشمیر 2024ءتک بھارت کا حصہ بن جائے اور یہ کہ وزیراعظم مودی کچھ ایسا کردکھائیں گے، جس سے یہ ممکن ہوسکے گا۔

گانے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اس سال ایوان صدر میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق شاعروں نے دبے الفاظ میں کشمیر کی آزادی کے حق میں منظوم کلام پیش کیا جسے تھکن کے مارے حاضرین نے بہت زیادہ پسند نہیں کیا۔ اس پر مجھے کسی گمنام صاحب طرز کا یہ شعر یاد آگیا۔

ہم غزل کہتے رہیں، تم واہ وا کرتے رہو

چائے پانی کےنمک کا حق ادا کرتے رہو

جانکار حلقوں کی اطلاعات کے مطابق مشاعرے میں پانچ عدد کشمیری ’لیڈروں‘ کو بھی دعوت نامے جاری کئے گئے تھے جس سے اس بات کا اعادہ ہوتا ہے کہ سرکاری سطح پر ہونے والے ادبی پروگراموں میں کشمیری سامعین کی علامتی شرکت کو اب بھی نہ صرف اہم تصور کیا جاتا ہے بلکہ ان کی ’واہ واہ‘ قومی سلامتی کیلئے اہم تصور کی جاتی ہے۔ کشمیر سے یکجہتی کے ذیل میں کئی جگہوں پر ’واک‘ کا اہتمام بھی کیا گیا جس کےدوران پیر و جواں سب چاق چوبند نظر آئے خاص کر میڈیا کے کیمروں کو دیکھتے ہوئے ان کا جوش و خروش کچھ زیادہ ہی دیدنی تھا۔

مسئلہ کشمیر کی بات ہو اور لاہوری اس میں حصہ نہ ڈالیں یہ کیسے ممکن ہے؟ یہاں بھی مختلف مذہبی رہنماؤں، تاجر یونینوں، تعلیمی اداروں حتیٰ کہ غریبوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرکے بنائی جانے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بھی کشمیر کے حوالے سے پروگرام منعقد کئےگئے جس میں کشمیریوں سےاظہار یکجہتی کرتے ہوئے آخری کشمیری تک جنگ جاری رکھنے کے عزم کو دہرایا گیا۔ ذاتی طور پر مجھے لاہور پولٹری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کا احتجاج سب سے منفرد اور مؤثر دکھائی دیا جس کے بارے میں ایک کشمیری دوست کے توسط سے آگاہی ہوئی۔ انھوں نے پولٹری ٹرک کی ایک تصویر بھیجی جس کے پیچھے پینافلیکس کا ایک بڑا بینر لگا ہوا تھا جس کے اطراف میں پاکستانی جھنڈے اٹھائے کشمیریوں کی تصویریں تھیں اور نیچے بڑی بے نیازی سے یہ عبارت درج تھی:’’مودی تینوں ککڑ وڈن‘‘۔ ہائبرڈ وار کے اس دور میں جب ایٹمی ہتھیاروں سے لے کر توپ و تفنگ تک ہر قسم کا آتشیں اسلحہ جنگ کیلئے نامناسب گردانا گیا ہو ایسے حالات میں فارمی مرغیوں اور ان کی بددعاؤں پر تکیہ کرنا نہ صرف حقیقت پسندانہ سوچ کا مظہر ہے بلکہ یہ میدان جنگ میں ایک بہترین حربہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین