وزیراعظم پاکستان عمران خان کا تین روزہ دورۂ چین چینی صدر شی جن پنگ (Xi Jinping) کے ساتھ ملاقات کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ اِس دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے چین کے وزیراعظم لی کی کیانگ (Li Keqiang)، اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتیرس (António Guterres)، مصر کے صدر عبدالفتح السیسی، قطر کے امیر شیخ تمیم اور ازبکستان کے صدر شووکت میرضیایف سمیت دیگر اہم عالمی شخصیات سے کشمیر اور افغانستان سمیت دیگر عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ چینی صدر اور وزیراعظم سے ملاقاتوں میں چین کی قیادت نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ چین پاکستان کے اقتصادی اور اسٹرٹیجک پارٹنر کی حیثیت سے ہمیشہ اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ چین کے دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے چائنا انرجی انجینئرنگ کارپوریشن کے چیئرمین سانگ ہیل سنگ (Sang Hailsang) سے میٹنگ میں کراچی کو پانی کی فراہمی اور 'K-4'منصوبے پر عملدرآمدکے ساتھ ساتھ ہب واٹرکینال اور فیصل آباد میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے منصوبے سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں چینی سرمایہ کاروں سے میٹنگز کیں۔ اس موقع پر مائننگ اور ہاؤسنگ کے شعبے کی بڑی کمپنیوں کی مینجمنٹ نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے دلچسپی کا اظہار کیا۔ ان ملاقاتوں میں چینی سرمایہ کاروں نے اٹھارہ مختلف سیکٹرز میں سرمایہ کاری کے حوالے سے تجاویز پیش کیں۔ اس دورے کی خاص بات یہ رہی کہ جہاں چینی قیادت نے وزیر اعظم عمران خان کو ونٹر اولمپکس جیسے اہم موقع پر مدعو کر کے دونوں ملکوں کے قریبی تعلقات کا اظہار کیا۔ وہیں جب کھیلوں کے اس عالمی میلے میں پاکستانی ٹیم نمودار ہوئی تو چین کے شہریوں نے بھرپور جوش و جذبے سے اس کا استقبال کیا۔ اس دوران درجنوں ممالک کی ٹیمیں آئیں لیکن اسٹیڈیم میں موجود شائقین نے جس گرمجوشی کا مظاہرہ پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے کیا وہ دیگر ٹیموں کے استقبال میں نظر نہیں آیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے اس دورے کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کے سلسلے میں یادگاری تقریبات کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے 140 سے زائد تقریبات منعقد کی جائیں گی جن سے دونوں ممالک کی ہر طرح کے حالات میں جاری رہنے والی پائیدار دوستی کا اظہار کیا جائے گا۔یہ حالات اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے دو طرفہ اقتصادی تعاون کو مزید تقویت ملے گی اور قومی اہمیت کے مختلف منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو گا۔ پاکستان نے چین کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت 60 ارب ڈالر کے فلیگ شپ سی پیک منصوبے کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے لیے گیم چینجر اور تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ صنعتی تعاون پر ایک اور فریم ورک معاہدے کا مقصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، صنعت کاری کو فروغ دینا، اقتصادی زونز کی ترقی، نجی اور سرکاری شعبوں میں منصوبوں پر عمل درآمد کرنا شامل ہے۔ سی پیک کے تحت گوادر بندرگاہ سمیت پاکستانی انفراسٹرکچر کی توسیع میں چینی سرمایہ کاری سے پاکستان کے ساتھ چین کا تعاون نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے جبکہ دونوں ممالک آزادانہ تجارت کے معاہدے سے بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان کی چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت اس عمل کو مزید تیز کرے گی۔ چین کے سرمایہ کار پاکستان کی ترقی اور دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے حوالے سے جو اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اس کا بطور چیئرمین فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (فیڈمک) میں خود مشاہدہ کر چکا ہوں۔ فیڈمک کے زیر انتظام بننے والے سی پیک کے سب سے بڑے ترجیحی سپیشل اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹری سٹی کا سنگ بنیاد جنوری 2020 میں رکھا گیا تھا۔ اس اکنامک زون میں چین کی 150 سے زائد کمپنیاں اور سرمایہ کار تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں فیڈمک کی طرف سے سرمایہ کاروں کو دس سال کی ٹیکس چھوٹ بھی دی گئی ہے جس کی وجہ سے اس اکنامک زون میں بعض صنعتی یونٹس کی جانب سے پروڈکشن یونٹس لگا کر پیداوار بھی شروع کر دی گئی ہے۔عالمی معیشت کے تناظر میں دیکھیں تو چین اس وقت امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جبکہ پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو چین کے صرف ایک صوبے کا جی ڈی پی ہمارے ملک کے مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ اس لیے امید کی جا رہی ہے کہ جب سی پیک کے تحت چین سے پاکستان میں انڈسٹری کی ری لوکیشن شروع ہو گی تو شاید ہر سیکٹر کے لیے ہمیں الگ الگ اکنامک زونز بنانے پڑیں یا موجودہ اکنامک زونز میں مزید رقبہ شامل کرنا پڑے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے ایک ایک سیکٹر کو چار سے پانچ ہزار ایکڑ رقبہ درکار ہے۔ اس حوالے سے جوائنٹ وینچر کا ماڈل بھی زیر غور ہے کہ زمین ہم 'ایکوائر کر لیں اور اس کی ڈویلپمنٹ کا کام چینی بلڈر زکو دیدیا جائے۔ اس طرح اکنامک زون کی ڈویلپمنٹ سے لے کر انڈسٹری کی ری لوکیشن تک پاکستان اور چین مل کر کام کر سکیں گے۔ لاہور میں حکومت نے زمین ایکوائر کر کے چین کے ایک بڑے گروپ کو لیز پر دی ہے۔ اس زمین پر چین کے بلڈرز نے انفراسٹرکچراور ڈویلپمنٹ مکمل کی ہے اور اب وہاں سے پوری دنیا میں مختلف مصنوعات ایکسپورٹ کی جا رہی ہیں۔اس ماڈل کی کامیابی کے امکانات کافی روشن ہیں کیونکہ جیسے جیسے سی پیک کا منصوبہ آگے بڑھے گا چین سے انڈسٹری کی ری لوکیشن کا عمل بھی تیز ہو جائے گا۔ اس بارے میں سی پیک منصوبے کے آغاز پر بھی بات چیت ہوتی رہی ہے لیکن اس وقت پاکستان میں سی پیک اتھارٹی یا اس طرح کا کوئی باقاعدہ انتظام موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے اس ماڈل پر پیشرفت نہیں ہو سکی لیکن اب ہم اس حوالے سے پوری طرح تیار ہیں۔ اس کے لیے انفراسٹرکچر اوردیگر درکار سہولیات دستیاب ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چین سفارتی اور معاشی محاذ پر پاکستان کا ساتھ دینے کے علاوہ علاقائی مسائل سے متعلق بھی پاکستان کی مکمل حمایت کرتا آرہا ہے۔ دونوں ممالک اپنے انتہائی قریبی اور خصوصی تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین سے دونوں ممالک کے درمیان دیرپا تزویراتی تعاون کی شراکت داری کو مزید فروغ حاصل ہوا ہے۔