• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جابر شاہ ہمارے علاقے کی مشہور ترین ہستی ہیں، بقول شخصے ’اتنے غریب ہیں کہ پیسوں کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں‘۔مال و دولت کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ بٹوے میں پانچ ہزار سے کم کا نوٹ رکھنے میں بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔ جابر شاہ کی شہرت ایک بدمعاش کی ہے، علاقے میں ان کی ایسی دہشت ہے کہ دن کی روشنی میں بھی لوگ ان کی گلی سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔جابر شاہ کا تعلق قبضہ گروپ سے ہے،خالی پلاٹوں پر قبضے کرلینا ان کے ’بائیں پائوں ‘کا کھیل ہے‘ موصوف کافی عرصہ تک ڈکیتیوں میں بھی ملوث رہ چکے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ جب بھی کوئی تھانے میں ان کی شکایت کرتاہے، پولیس آتی ہے اور جابر شاہ کے گھر سے خوشی خوشی باہر نکل کر فوراًمدعی کو گرفتار کرلیتی ہے۔پورا علاقہ جابر شاہ سے تنگ ہے لیکن کچھ نہیں کر سکتا۔جو بھی ایسی کوئی ہمت کرتاہے جابر شاہ کے غنڈے اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ لیکن سب حیران ہیں کہ جابر شاہ کا بیٹافیصل اپنے باپ سے بالکل مختلف ہے۔ یہ بچہ میٹرک کا اسٹوڈنٹ ہے، بہت اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پڑھتا ہے لیکن آج تک کبھی کسی جرم میں ملوث نہیں پایا گیا۔ لڑائی جھگڑے، قبضے اور بدمعاشی کے تمام معاملات جابر شاہ کے کارندے ہی سرانجام دیتے ہیں۔تین چار دفعہ میری فیصل سے ملاقات ہوئی تو میں نے اسے اُس کے باپ سے یکسر مختلف پایا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی نہایت شریف والدین کی اولاد ہے۔علاقے کے کئی لوگوں کو شک ہے کہ فیصل ، جابرشاہ کا سگا بیٹا نہیں۔ لیکن یہ خیال اس وقت غلط ثابت ہوگیا جب میری جابر شاہ سے ملاقات ہوئی۔جابر شاہ نے انتہائی سنجیدگی سے بتایا کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا بھی اس کی راہ پر چلے لہٰذا بیٹے کی تربیت میں اس نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ وہ صاف ستھری زندگی گزارے۔جابر شاہ کی یہ بات میرے لیے نہایت تعجب کا باعث تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ ’شاہ جی! ویسے آپ کو چاہیے کہ بدمعاشی والے کاموں میں بھی صاحبزادے کو اپنے بندوں کے ساتھ بھیجا کریں۔‘‘جابر شاہ نے خوفناک نظروں سے میری طرف دیکھا اور غرایا’تمہارا مطلب ہے اپنابیٹا ضائع کروا لوں؟‘‘۔میں نے سعادت مندی سے جابر شاہ کی اصول پسندی کی تعریف کی اور پتلی گلی سے نکل گیا۔

آپ نے اپنے اردگرد بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جن کی اولادیں ان کے بالکل برعکس ہیں، مولویوں کے بیٹے بدمعاش بنے ہوئے ہیں اور بدمعاشوں کی اولادیں درس و تدریس کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ اصل میں ہم میں سے کوئی بھی نہیںچاہتا کہ اس کی اولاد برائی کے راستے پر چلے ، برائی کا ٹھیکہ ہم دوسروں کی اولادوں کو سونپ دیتے ہیں۔اپنے بچوں کو ہم یہی نصیحت کرتے ہیں کہ بیٹا اگر کوئی موٹر سائیکل والا تمہارا موبائل چھیننے کی کوشش کرے تو زیادہ بہادری مت دکھانا، آرام سے موبائل اس کے حوالے کردینا۔لیکن جب ہمارا ملازم ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا موبائل کسی نے چھین لیا ہے تو غصے سے ہماری کنپٹیاں سلگنے لگتی ہیں’’ تم نے کیوں اتنے آرام سے اسے اپنا موبائل دے دیا، لگانی تھی اس کے منہ پر ایک‘‘۔

ہماری اولادیں چونکہ ہماری ہیں اس لیے ہمیں لگتاہے کہ وہ معصوم ہیں، نیک ہیں اور انہیں ایسا ہی رہنا چاہیے ،البتہ باقی سب لوگوں کی اولادیں مرنے مارنے کے لیے ہیں اس لیے انہیں سراپا بدمعاش ہونا چاہیے۔آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کوئی بدمعاش اپنے دشمن سے بدلہ لینے کے لیے گیا اور ساتھ میں اپنی اولاد کو بھی لے گیا۔ عموماً یہ اولادیں کسی کالج یا یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم ہوتی ہیں اور بدلہ لینے کے لیے جانے والے لوگ زرخرید گماشتے ہوتے ہیں۔ پیروں فقیروں کے آستانوں پر بھی آپ کو کبھی ان کی اولادیں نظر نہیں آتیں، یہ اپنے بچوں کا علاج ماہر ڈاکٹر سے کرواتے ہیں اور دوسروں کی اولادوں کو جھاڑ پھونک پہ لگائے رکھتے ہیں۔تعویز گنڈوں کے دعویدار بیشتر لوگوں کی اولاد یں سو فیصد عملی زندگی گزار رہی ہیں لیکن خود اِن کے مریدین اپنے مرشد کے صدقے واری جارہے ہوتے ہیں، مرشد کے کہنے پر اپنی اولادوں تک کوقتل کردیتے ہیں، مرشد کے کہنے پر اپنی اولادوں کا مستقبل تباہ کرلیتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ آخر مرشد کی اولاد کیوں مرشد کے نقشِ قدم پر نہیں چل رہی؟ایسے عقلمند لوگ لڑائی میں دوسروں کی اولادوں کو استعمال کرنے کا فن خوب جانتے ہیں،ان کی اپنی اولادیں نہ ڈنڈا اٹھاتی ہیں نہ ریوالورلیکن دوسروں کی اولادوں کو یہ ہلہ شیری دیتے ہیں۔یہ اپنی اولادوں کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کا دھیان رکھتے ہیں۔ اچھے برے کی تمیز سکھاتے ہیں لیکن دوسروں کی اولادوں کو تھپکی دیتے ہیں کہ جتنی گالیاں نکالو گے اتنی ہی عزت پائو گے۔ہزاروں جوان اولادیں اسی اندھی تقلید میں اپنی جان سے گئیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتاہے’تُو نہیں اور سہی ،اور سہی، اورسہی‘…کبھی کبھی تو لگتاہے کہ ہم میں سے اکثراپنی اولادیں اسی لیے جوان کر رہے ہیں کہ وہ ہماری بجائے اِن جیسے لوگوں کا سہارا بنیں، ان کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دیں۔یوں ایسے لوگوں کے حصے میں جیت آتی ہے اور ہمارے حصے میں جنازے۔آپ نے کسی کارندے کے مرنے پر بدمعاش کی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھے ہوں گے، روتا وہی ہے جس کا اپنا مرتاہے۔کوئی ماں باپ یہ نہیںچاہتے کہ ان کی اولادلڑائی مارکٹائی والی سرگرمیوں کا حصہ بنے لیکن جب اولاد کے لیے ماں باپ سے زیادہ ’’جابر شاہ‘‘ ٹائپ بندہ اہم بن جائے تو عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔بدمعاشوں کی اولادیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرجاتی ہیں اور کارندوں کی اولادیں غلام ابن ِ غلام کی عملی تفسیر بن کر رہ جاتی ہیں۔تجربہ کرکے دیکھ لیں، اکثر منشیات فروشوں کے بچے سگریٹ نوشی سے بھی مبرا نظر آئیں گے۔ظاہری بات ہے ہمارا بچہ بھینس ہے اور دوسروں کے بچے چارہ۔

تازہ ترین