• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت جب کہ ترکی میں مہنگائی اپنے پورے زوروں پر ہے اور افراطِ زر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 48 فیصد کے لگ بھگ ہے، عالمی میڈیا اور ترک اپوزیشن رہنمائوں نے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے صدر ایردوان کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے،جس کے نتیجے میں ترک رہنمائوں کو دو دہائیوں کے بعد پہلی بار اس بات کا یقین ہورہا ہےکہ ترکی میں مہنگائی کی لہر کسی بھی وقت صدر ایردوان کو نگل سکتی ہے، اس خودفریبی میں مبتلا ہو کر ترکی کی چھ سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کمال کلیچدار اولو ( ری پبلکن پیپلزپارٹی)، میرال آق شینر(گڈ پارٹی)، تیمل قارا مولا اولو(سعادت پارٹی) گل تیکن اوئسل (ڈیموکریٹ پارٹی)، علی باباجان (دیوا پارٹی) اور احمد دائود اولو (فیوچر پارٹی) نے 12 فروری کو ایک گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور آئندہ انتخابات میں متحدہ محاذ بناتے ہوئےنہ صرف صدر ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے بلکہ ان کے متعارف کردہ صدارتی نظام کا بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بوریا بستر گول کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل درآمد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان چھ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں میں سے پانچ کا تعلق دائیں بازو سے ہے اور جن میں سے دو رہنما صدر ایردوان کے دستِ راست بھی رہ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک علی باباجان ہیں جو ایردوان دور میں پہلے وزیر خارجہ اور بعد میں وزیر خزانہ رہے (ایردوان کے پہلے دو ادوار میں ترک اقتصادیات کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور تیزی سے ترقی کرنے کا معمار انہیں ہی سمجھا جاتا ہے)۔ دوسرے ساتھی احمد داؤد اولو ہیں جو ابتدا میں ترکی کے وزیر خارجہ اور بعد میں ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔

اپوزیشن رہنمایہ بات مگر بھول گئے ہیں کہ صدر ایردوان نے ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرے کی گرتی ہو ئی قدر کو مزید گرنے سے نہ صرف روکنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ ترک لیرے کی قدرو قیمت اور ساکھ کو بحال کرنے کیلئے ایسا قدم اٹھایا ہے، جس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔ جنوری 2021میں جہاں ڈالر کے مقابلے لیرا کی قدر 7.3 تھی وہیں سال کے آخر تک اس کی قدر 18تک پہنچ گئی تھی اور ایردوان کی متعارف کردہ نئی پالیسی کے نتیجے میں اس میں گراوٹ آئی اور اب چند ماہ سے ترک لیرا 13.5کے لگ بھگ مستحکم ہے۔ اس وقت ترکی دنیا میں چلی کے بعد سب سے تیز ترقی کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے اوراس کی ایکسپورٹس ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کر رہی ہیں، سیاحت کا شعبہ ایک بار پھر ملکی آمدنی کا بڑا ذریعہ بن چکا ہےجبکہ ترک ڈرونز عالمی مارکیٹ میں نمبر ون سمجھے جا رہے ہیں اور ان کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتِ ترکی نے ترک لیرے کی قدرو قیمت کو مستحکم کرنے کے بعد ملک کے ریزرو میں اضافہ کرنے اور غیر ملکی قرضے پر انحصار کم کرنے کیلئے عوام کے پاس موجود سونے کے زیورات کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترک وزیر خزانہ نور الدین نباتی کے مطابق اس وقت ترک باشندوں کے پاس 5 ہزار ٹن کے لگ بھگ سونا پڑا ہوا ہے۔ حکومتِ ترکی نے ان ذخائر کو استعمال کرنے کیلئے اپنے مقرر کردہ صراف کے پاس مخصوص مدت کیلئے سونا جمع کروانے اور اس پر حکومت کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری کرنےکے ساتھ ساتھ سونے کے زیورات پر مخصوص منافع دیے جانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ (یہ منافع سونے یا رقم کی شکل میں ہوسکتا ہے ) اس سے عوام کو اپنے پاس پڑےبے مصرف سونے کے ان زیورات سے فائدہ تو پہنچے گا ہی بلکہ حکومت کے سونے کے ذخائر میں بھی زبردست اضافہ ہو جائے گا، جس سے ترک لیرے کو مستقل بنیادوں پر مستحکم رکھا جاسکے گا۔ اس مقصد کیلئے حکومت پہلے مرحلے میں 15 سو مقامات پر صرافوں کے مراکز قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے ملک میں ہوش ربا مہنگائی اور معیارِ زندگی کی زبوں حالی پر عوام کی جانب سے مظاہروں سے قبل ہی فوری طور پر اشیائے خوردنی کی قیمتوں پر عائد آٹھ فیصد’’ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘‘ کو کم کر کے ایک فیصد کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس پر عمل درآمد بھی شروع کیا جاچکا ہے۔ صدر ایردوان دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ہم قوم کو مہنگائی تلے کچلنے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ منافع خوروں نےاس ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی سات فیصد شرح سے زیادہ قیمتوں میں اضافہ کیا ہے لیکن حکومت ِ ترکی نے فوری اقدامات کرتے ہوئے ہیرا پھری کرنے والوں سمیت تمام منافع خوروں کو سخت سے سخت سزا دینا شروع کردی ہے۔ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں 127 فیصد اضافے پر نظر ثانی کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے اسے معقول شرح تک لے جانے کی خوشخبری سنائی ہے۔ جہاں تک افرطِ زر کی شرح کا تعلق ہے اس پر قابو پانے کیلئے بھی حکومتِ ترکی نےکئی ایک اقدامات شروع کردیے ہیں۔ اس وقت سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 48فیصد کے لگ بھگ افراطِ زر کو چند ماہ کے اندر اندر اکائی کے ڈیجٹ تک لانے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اگر صدر ایردوان نے جون 2023کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو انہیں افراطِ زر کی شرح کو لازمی طور پر سنگل ڈیجٹ پر لانا ہوگا۔ اگرچہ حکومت ِ ترکی نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30سے 35فیصد تک اضافہ کیا ہے لیکن یہ اضافہ کافی نہیں اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ صدر ایردوان جولائی میں ایک بار پھر تنخواہیں بڑھاکر سرکاری ملازمین کو خوش کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے تاکہ سرکاری ملازمین ان کو ووٹ دینے میں کسی تذبذب کا شکار نہ ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین