• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا پُرانا آدمی ’آصف اسلم فرخی‘ (قسط نمبر…4)

بات مختلف موضوعات سے ہوتی ہوئی انسانی یادداشت پر آن ٹھیری۔ شکیل صاحب نے اپنے جاننے والے ایک مرحوم عالمِ دین کا تذکرہ کیا، جن کے چاہنے والے اور مریدین ان کی حیات پر کئی برس سے ایک کتاب مرتب کررہے تھے۔ اُس کتاب کے لیے مختلف لوگ مرحوم بزرگوار کےحوالےسےاپنی یادداشتیں لکھ رہے تھے۔ جب بھی مسوّدہ نظرِثانی کے لیے مریدین کو دیا جاتا، تو اس میں چند مافوق الفطرت واقعات کا اضافہ ہوجاتا۔ 

شکیل صاحب نے اُس کا ابتدائی مسوّدہ پڑھ رکھا تھا اور اب حتمی مسوّدہ پڑھ رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ پہلے مسوّدے کے بزرگ، جو ایک نیک، دین دار اور صالح انسان نظر آتے تھے، حتمی مسوّدے میں ایک ایسے ولی اللہ کا درجہ اختیار کرچُکےہیں، جنھیں قدرت نے مستقبل بینی کے ساتھ دیگرکئی ماورائی صلاحیتیں بھی عطا کررکھی ہیں۔ یعنی وقت گزرنے کے ساتھ حقیقت میں ابہام اورمبالغہ بڑھتا جاتا ہے۔ وہاں یہ تذکرہ بھی ہوا کہ انسان بڑھاپے میں کیسے بچپن کی باتیں تو خُوب یاد رکھتا ہے مگر اُس روز کی بات بھول جاتا ہے۔

ایک سراپا علم و ادب شخص کا دل چسپ و فکر افروز احوال

بڑھاپے کے ساتھ اُس کی تکالیف کا بھی تذکرہ ہوا۔ شکیل صاحب نے آصف صاحب کے والد کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تو آصف صاحب نے بتایا کہ بڑھاپا اپنے ساتھ جو عوارض لاتا ہے، قریباً وہ سبھی ان کی جان کے درپے ہوگئے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں نماز پڑھ رہے تھے کہ چند آیات بھول گئے۔ اُنھوں نے بہت کوشش کی، لیکن اُنھیں آیات یاد نہ آئیں۔ دورانِ نماز وہ اس پریشانی میں مبتلا ہوگئے کہ کہیں وہ یادداشت نہ کھو بیٹھے ہوں۔ اس مخمصے اور پریشانی سے نکلنے کا اُنھیں ایک حل سُوجھا۔ انھوں نے غالبؔ کی ایک غزل یاد کرنے کی کوشش کی۔ اور وہ غزل اُنھیں پہلے مصرعے سے آخری مصرعے تک یاد آگئی، تو اُنھیں یقین آیا کہ اُن کی یادداشت نے جواب نہیں دیا۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر قدرت کسی انسان کو ایک صلاحیت سےمحروم کردے تو کسی دوسری صلاحیت میں اضافہ کردیتی ہے۔مگربڑھاپا یادداشت اوردیگرصلاحیتیں سلب تو کرتاہے، پر کسی صلاحیت میں اضافہ نہیں کرتا۔ آصف صاحب اور شکیل صاحب کے حوالے سے مذکورہ موضوع پرایک واقعہ ہے۔ آصف صاحب کی کوشش سے ایک شام آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کی عمارت میں معروف بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کے ساتھ ایک شام رکھی گئی۔ مَیں شکیل صاحب کے ساتھ وہاں پہنچا تو آصف صاحب نے بہت تپاک سے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں حاضرین سے کھچاکھچ بَھرے ہال میں نمایاں جگہ پر بٹھایا۔ نصیر الدین شاہ نے کئی واقعات سُنائے۔ 

اُن میں مذکورہ موضوع سے منسلک ایک دِل چسپ واقعہ بھی تھا۔ وہ بتانے لگے کہ عام طور پر فلموں میں نابینا افراد کو بہت دُکھی انسان کے طور پر اور تقدیر کا شکوہ، گلہ کرتے ہی دکھایاجاتا ہے، لیکن حقیقتاً بہت سے نابینا لوگ بھرپور اورخوش گوار زندگیاں گزارتے ہیں۔ کسی بڑی کمپنی کے ایک ایسے ہی نابینا مالک نے ایک مرتبہ نصیر الدّین شاہ کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی۔ وہاں نصیر الدّین نے مشاہدہ کیا کہ چوں کہ ان افراد کا بیش تر انحصار اپنی سماعت پر ہوتا ہے، سو کسی کی بات سُنتےہوئے اُن کے چہرے کےتمام نقوش آوازکی جانب کھنچ جاتےہیں۔ 

اُنھوں نے میزبان سے سوال کیا کہ وہ نابینا ہونے کے باعث رنگوں کی پہچان کس طرح کرتے ہیں، تو میزبان نے بتایاکہ اُنھوں نےکچھ خودساختہ طریقے وضع کر رکھے ہیں، جن سےوہ رنگوں کو پہچانتے ہیں۔ کھانے کے بعد جب سب پہلی منزل پر واقع ڈائننگ روم سے رخصت ہوکر سیڑھیاں اُترنے لگے تو ایک دم بجلی چلی گئی اور اندھیرا ہوگیا۔ سب اپنی جگہ پر رُک گئے۔ جب میزبان کو سب کے رُک جانے کی وجہ معلوم ہوئی تو اُس نے ہنستے ہوئے ’’اب تک مَیں آپ لوگوں کےپیچھےآرہاتھا،اب آپ میرے پیچھے آئیں۔‘‘یہ کہہ کر نابینامیزبان اعتماد سے سیڑھیاں اُترنے لگا۔ یعنی اُس کی کمی اس کی خوبی بن گئی۔

آصف صاحب کی شخصیت کے بہت سے شگفتہ اور لطیف پہلو تھے۔ وہ اسکینڈلز بھی چٹخارے لے کر سُنتے اورسُناتے تھے۔ البتہ ایسا وہ صرف قریبی حلقے میں کرتے۔ جب وہ کوئی اسکینڈل سناتے، تو بےیقینی کاعُنصر شامل کردیتے اور صاحبِ معاملہ کےساتھ اپنی ہم دردی بھی جتا دیتے۔ صاحبانِ نظر ان کی کُل گفت گو سے ’’اصل بات‘‘ تک پہنچ ہی جاتے۔ مثلاً وہ کہتے’’کیسا زمانہ آگیا ہے، لوگ کتنا جھوٹ بولنے لگے ہیں۔ 

اب فلاں شاعر کو دیکھیے، کتنے بھلے آدمی ہیں۔ بھلا وہ کسی کے گریبان میں کیوں ہاتھ ڈالیں گے،مگردیکھیے لوگ کیسے جھوٹ بولتے ہیں کہ انھوں نے گزشتہ رات بہک کر فلاں شاعرہ کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی۔ مجھے تو یقین نہیں آتا۔‘‘ اس گفت گو سے اُن کا مخاطب سمجھ جاتا کہ مذکورہ شاعرنے نہ صرف اس شاعرہ سے یقینا ًدست درازی کی ہے بلکہ اغلب امکان ہے کہ وہ اس سے پہلے بھی بہک کر ایسا کرتا رہا ہوگا۔ ایک مرتبہ مجھ سے پوچھا۔’’آپ کا اسلام آباد والے واقعے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ ’’کون سا واقعہ؟‘‘

مَیں نےاستفسار کیا۔ ’’کیا آپ واقعی نہیں جانتے؟‘‘انھوں نےحیرت اور بےیقینی سےکہا۔ ’’یقین جانیے، مَیں اسلام آباد کے کسی واقعے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ مَیں نے یقین دلایا۔ ’’اچھا نہیں جانتے تو رہنے دیجیے۔‘‘ انھوں نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔ اب میرا تجسّس جاگ اُٹھا اور مَیں نےاصرار کیاکہ وہ واقعہ سنائیں۔ طوہاً وکرہاً گویا ہوئے۔’’ارے بھئی، وہی واقعہ جس میں فلاں مدیر اور ناقد، فلاں نوجوان شاعر اور فلاں ادیب کھانے پر اکٹھے ہوئے تو ادیب نے نشے کی حالت میں شاعرکی عزت پر ہاتھ ڈالا۔ بہت شور اُٹھا، بڑی آپا دھاپی ہوئی۔‘‘اِس واقعے کے بعد جب بھی میں اُس ادیب کا سوچتا تو اس کا ایک مختلف چہرہ میری نظروں کے سامنے گھوم جاتا۔

چُھٹی کے روز اُن کے ہاں جانا میرا ایک ایسا معمول تھا کہ ایک آدھ مہینے میں یا تو اُن کے گھر اُن سے ملاقات ہوجاتی یا مَیں اُنھیں اُن کے گھر سے لے کر مصّوری کی کسی نمایش، پرانی کتابوں کے بازار، کتابوں کی دکان، کیفے یا مطلوبہ جگہ لے جاتا۔ چند ادبی جوڑے تھے جن سے اُن کے گھریلو مراسم تھے اور اکثر و بیش تر وہ ایک دوسرے کے ہاں آئے گئے رہتے۔ انورسِن رائے، عذرا عباس، افضال احمد سیّد، تنویر انجم، خدا بخش ابڑو، عطیہ داؤد اِنھی جوڑوں میں سے تھے۔ ڈاکٹر شیرشاہ سیّد بھی اکثر وبیش تر وہاں ہوتے۔ ایک کہکشاں تھی، جس کے وہ نمایاں ترین ستارے تھے۔ جب بھی اُن کے ہاں جانا ہوتا، کوئی نئی چیز سیکھنے کو ملتی۔ وہ طوفانی رفتار سےمطالعہ کرتے تھے۔ اکثر بیرونِ مُلک جانا رہتا۔

واپسی پرکتابوں کا ایک انبار ان کے ساتھ ہوتا۔ وہ اپنی کتابیں کم ہی کسی کو پڑھنے کو دیتے تھے۔ مجھے جدید بین الاقوامی ادب کے بے شمار شاہ پاروں اور ادیبوں سے اُنھوں نے متعارف کروایا۔ A Short History of Tractors in Ukrainianجیسا مارینا لیویکا کا عُمدہ ناول ہو یا ایلف شفق کا ناول The Bastard of Istanbul ، پیٹرکیرے اور جولیان بارنز جیسے عُمدہ ادیب ہوں یا پاک وہند کا علاقائی ادب، انھوں نے مجھے بےشمار کتابوں اور ناموں سے روشناس کروایا۔ 

وہ تازہ ادب پر گہری نظر رکھتے تھے۔ عموماًسینئر ادیب، نئے ادیبوں کی تحریریں یا تو پڑھتے نہیں یا پھر اُن پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ حال اُن ادیبوں کا بھی ہے، جو ایوارڈز اور انعامات کے مختلف پینلز میں ہوتے ہیں۔ آصف صاحب نہ صرف سامنےآنےوالی تازہ تحریریں پڑھتے تھے، اُن کا جابہ جا تذکرہ کرتے تھے بلکہ نوجوان ادیبوں کی خُوب حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ آصف جن نوجوان ادیبوں کی پہچان بنے، اُن کی ایک طویل فہرست ہے۔

ایک مرتبہ مَیں نے اُن سے کہا کہ وہ ہرکسی کا تذکرہ کرتے ہیں، مگر بطور نمایاں ادیب، دوسرے ادیب ان کا اس طرح تذکرہ نہیں کرتے، تو وہ خاموش ہوگئے۔ تب تک وہ اپنے افسانوں کے تمام مجموعے اور کُل مضامین مجھے تحفتاً دے چُکے تھے اور مَیں اُنھیں پڑھ بھی چُکا تھا۔ ہر اہم اور غیر اہم ادیب کی طرح اُن کی زنبیل میں جہاں نسبتاً کم زور افسانے تھے، وہیں عُمدہ افسانوں کی بھی کمی نہ تھی۔ اُن کے مضامین میں ایک برجستگی، روانی، شگفتگی اور تازگی تھی، خاص طورپر ’’عالمِ ایجاد‘‘ نے تو مجھے خاصا متاثر کیا۔ 

اس کے علاوہ شستہ اور خُوب صُورت زبان میں درجنوں تراجم اور انگریزی اردو زبانوں میں لکھے گئے سیکڑوں تبصرے اور مضامین تھے۔ فِکشن میرے دل کے زیادہ قریب تھا، سو مَیں نے اُن کے افسانوں کو ازسرِنو پڑھنا شروع کیا۔ جدید بین الاقوامی ادب کی طرح عموماً اُن کے بعد کے دَور کے افسانے کثیر الجہتی اور نیم مبہم تھے۔ بیچ کے دَور کے افسانے کم زور علامت نگاری کےحامل تھے، جب کہ ابتدائی دَور کی کہانیاں، افسانے مضبوط پلاٹ کی حامل داستانوی طرز اور آبائی ثقافت پر مشتمل تخلیقات تھیں۔ 

اُن میں سے بیش تر افسانوں میں ایک بات زیریں سطح پرموجود تھی، جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہےہوں مگرکُھل کےکہہ نہ پارہے ہوں۔ مضامین میں وہ زیادہ کُھل کر بات کرتے تھے۔ اُن کی ابتدائی کہانیوں میں بڑی بوڑھیوں، متوسّط طبقے کے شہری گھرانوں، مِٹتی ہوئی ہندی، مسلم تہذیب اور لوک کہانیوں کا واضح عکس نظر آتا ہے۔ ان میں مشترکہ گھرانوں میں رہنے والی چاچیاں، تائیاں، دادیاں، پھوپھیاں، خالائیں، مُمانیاں اور نانیاں نظرآتی ہیں۔ ٹین کے بکسے، پوٹلیاں، توتوں کے پنجرے، ہاتھ سےجَھلنے والے پنکھے، لوٹے، تانبے کے برتن اور پرانی گرد آلود کتابوں کے خستہ اوراق کی قدامت نمایاں ہوتی ہے۔ ابتدائی کہانیاں اُن کی اپنی کہانیاں ہیں، ذاتی مشاہدے اور بزرگوں سے سنی کہانیاں ہیں۔ اُن کی بُنی کشمیری شال کا ایک ٹکڑا بطور نمونہ ہے۔

’’دوپہرکو کھانے دانے سے فرصت پاکر ڈیوڑھی کے کواڑ بھیڑ اور دالان کے پردے چھوڑ، پٹ اندھیرا کر کے سب لیٹ رہتے۔ خس کی ٹٹیاں بندھ جاتیں اور اُن پر وقفے وقفے سے پانی کےتڑیڑے ڈال کر چھڑکاؤ ہوتا جاتا، کوری برنجی صراحیاں اندر رکھوا لی جاتیں اور ملازم چھوکری دھیرے دھیرے پنکھا کھینچتی، فرشی پنکھے کی لمبی ڈور کھینچتے کھینچتے، خود بھی نیند کے جھونٹے کھانے لگتی۔ 

سہ سپہر جب دھوپ ممٹیوں، کوٹھوں، چھتوں سے نیچے اتر کے دیواروں سے لپٹنے لگتی تو بوجی پردے کھول دیتیں، یک لخت دھوپ آن کر آنکھوں میں چکاچوند مچادیتی اور سب باہر آجاتے، باہر فالسے کا شربت یا تربوز کی قاشیں ملتیں۔ اس سے پہلے ان کی مرضی نہیں تھی کہ کوئی باہرنکل سکے۔’’ان گھمن گھیری دوپہروں میں چڑیلیں پھرتی ہیں اور پچھل پیریاں آتی ہیں۔‘‘ بوسیدہ دیوارمیں ٹھنڈا نم چڑھنے لگتا کہ خشک ہوا میں اس کی تبخیر بھرجاتی تو ہوا بھیگی چنری کی طرح بھاری ہوکر نیچے ڈھلکنے لگتی، جانو کمرا نہیں ہے، کوئی تہ خانہ ہے، جو صدیوں سے نہیں کُھلا، جس میں زمین کے اندر کی بےجان سردی رچ بس گئی ہے۔‘‘

اُن کی تخلیقی زندگی کے ابتدائی دَور میں گھر کا ماحول اتنا نمایاں ہے، جیسے یہ کسی ایسے ادیب نے لکھا ہو، جس نےایک روایتی گھرانے کے جمے جمائے تہذیبی ماحول میں محفوظ بچپن گزارا ہو۔ ان افسانوں میں چھپکلی بھگانے کے لیے انڈے کے باس دیتےخالی چھلکے، مچھر مار جلیبیاں، دودھ کی سطح پر پھونک مار کر، بالائی ہٹا کے کٹورے سے چاندی کے گلاس میں دودھ ڈالتی بوا، مچھلی کے ٹکڑے، گودام میں رکھے کنستر، موتیے کی کیاریاں، لان میں بکھرے سُوکھے پتّے، اونچے پیڑوں سےچھن چھن کردیواروں سے اُترتی دھوپ کے متحرک سائے اور پرانے مکانوں کے سال خوردہ برآمدے ہیں۔

ایک مرتبہ مَیں نے اُنھیں اپنا ایک افسانہ پڑھنے کو دیا، جو میری نظر میں میرانسبتاً کم زور افسانہ تھا۔ خلافِ توقع انھیں یہ افسانہ پسند آگیا اوراُسے انھوں نے اپنے رسالے ’’دنیازاد‘‘ میں شائع بھی کیا۔ جب مَیں نے پسندیدگی کی وجہ پوچھی تو بولے کہ اس افسانے کو پڑھ کر اُنھیں اپنے بچپن کے گھر کا ماحول یاد آگیا تھا۔ افسانے کا نام تھا’’اور جب ببلو گھرواپس نہ آیا۔‘‘اُس میں کراچی کے ایک متوسّط گھرانے کا ماحول دکھایا گیا تھا، جس میں صحن میں دانہ چگتی مُرغیاں، ٹھیلے پر سبزیاں بیچتے سبزی فروش، خوانچہ فروش، سردیوں کی سویر کھڑکی سے آتی دھوپ کی نرم حدّت، دالان میں کھڑی سائکل، رقم بچانےکے لیے درودیوار پر روغن، سفیدی کرتے گھر کے افراد اوردیگر عناصر شامل تھے۔ 

اپنی تخلیقی زندگی کے دوسرے دَور میں آصف لا یعنیت اور الجھن کے چنگل میں کیوں کر پھنس گئے؟یہ سوال اُن کے نفسیاتی اور سوانحی تجزیے کا متقاضی ہے۔ ’’خردنامہ جلال پوری‘‘ میں علی عباس جلال پوری رقم طراز ہیں۔ ’’تحلیلِ نفسی کی اصطلاح میں شعور کے وہ ٹکڑے، جو کسی شخص کی اذیّت ناک ذہنی کش مکش کے باعث اپنی اصل سے منقطع ہوکر لاشعور میں چلے جائیں اور وہاں سے بھیس بدل بدل کر شعور پر اثر انداز ہوتے رہیں، ذہنی الجھنوں کے زمرے میں آتے ہیں۔‘‘ آصف فرخی کو اپنے بیان کی زبان نہیں مل رہی تھی یا وہ کسی ذہنی خلجان کا شکار تھے؟جب مَیں نے اُن کے اُس دَور کے افسانوں اورسوانحی حالات کا باہم موازنہ اورتجزیہ کیا تو سامنے آیا کہ اُس دور میں اُنھیں اپنا گھر چھوڑکر تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانا پڑا تھا۔ ایک تو غریب الوطنی کا احساس، دوسرے تعلیم کا دباؤ، تیسرے مسلسل تخلیق کی خواہش نے(جو بعض اوقات استعداد سے بڑھ جاتی تھی) اُنھیں ذہنی انتشارکا شکار کر دیا۔ (جاری ہے)