• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا پُرانا آدمی ’آصف اسلم فرخی‘ (قسط نمبر…3)

پشت پر واقع مکان میں ڈاکٹر انور سجاد مقیم تھے۔ چند منٹوں کے فاصلے پر شکیل عادل زادہ کا گھر تھا اوراُسی گلی میں بی بی سی سے وابستہ ادیب، محمّد حنیف کی قیام گاہ تھی۔ گویا قدرت نے مجھے ممتاز ومعروف دانش وَروں، صحافیوں اور ادیبوں کے بیچ لابٹھایا تھا۔ آصف فرخی اکثر وبیش تر سرور صاحب کے ہاں آتے رہتے۔ یوں راہ چلتےاُن سے ملاقات ہوجاتی۔ بعد ازاں وہ کئی مرتبہ میرے ہاں تشریف لائےاور مجھے بھی اُن کے ڈیفینس میں واقع بنگلے میں بارہا جانے کا موقع ملا۔ 

مَیں نے اُن کے ہاں جو ممتاز ادیبوں، منفرد فن کاروں اور ثقّہ بند دانش وروں کا متواتر اکٹھ ہوتے دیکھا، ایسا اس سے پہلے صرف احمد ندیم قاسمی صاحب کے مجلسِ ترقی ٔ ادب کے دفترہی میں دیکھا تھا۔ اُن کا گھر جدید طرز ِ تعمیر کا دل آویز نمونہ تھا۔ مَیں پہلی مرتبہ وہاں گیا تو ابھی اُس میں نئے گھر کی مہک موجود تھی، مہمان خانہ صفِ اوّل کے مصّوروں کی اوریجنل پینٹنگزمُلکوں مُلکوں سے چاہت سے لائے گئے سجاوٹ کےنمونوں اورنفیس فرنیچر سے آراستہ تھا۔ پہلی شام ہم باہربغلی ورانڈے میں بیٹھے تھے، ڈاکٹر شیر شاہ سیّد سے بھی اُسی ملاقات میں تعارف ہوا تھا۔ 

قریب ہی سمندر تھا، ہمہ وقت بہتی ہوا اور ورانڈے میں لٹکتی گھنٹیوں کی جل ترنگ ماحول کورومان پروربنارہی تھی۔ تب اُس علاقے میں زیادہ بنگلے نہ بنے تھے، سو ماحول میں شہر کےنواحی علاقوں کی سی جنگلی اور ساحلی ویرانے کی سی نمکین مہک موجود تھی۔ نفیس کراکری میں چائے اورسامانِ خورد ونوش لایا گیا۔ تب آصف صاحب بہت خوش نظر آرہے تھے۔ خوشی جیسےاُن کےاندر سے اُٹھتی تھی اور چہرے پر چمک جاتی تھی۔ وہ وجہ، بےوجہ مُسکرا رہے تھے اور ماحول سے لُطف اندوز ہو رہے تھے۔ بچیاں اعلٰی اسکولوں میں پڑھ رہی تھیں اور بیگم تدریس سے وابستہ تھیں۔ اُن کا گھرانا ایک مثالی گھرانے کا عمدہ نمونہ تھا۔ 

وہ اپنی شناخت بناچُکے تھے، اعلیٰ مُلکی اعزازات سے نوازے جاچکے تھے، عمدہ ملازمت کرتے تھے، شہر کے بہترین علاقے کی کوٹھی میں منتقل ہوچُکے تھے، سفر وسیاحت ان کے معمولات میں شامل تھی، صحت کا کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا، معاشی خوش حالی ان کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی، مطالعے کے لیے وافر وقت میسر تھا، گھر میں عمائدین کا تانتابندھا رہتا تھا، وہ بہت خوش تھے اور بےخبر تھے کہ حزن و اندوہ کیسے اُن کے تعاقب میں تھے۔ ایک روز اپنے مہمان خانے میں لگی چند پینٹنگز کی جانب اشارہ کر کے بتانے لگے کہ ’’اِن کے مصّور تصدق سہیل ہیں۔‘‘ مَیں نے مصّور کا نام تو سُن رکھا تھا، مگر اُسے زیادہ جانتا نہ تھا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ آیندہ چھٹی کے روزتیار رہوں، وہ مجھے اُس نابغۂ روزگار، سراپافن کار سے ملوائیں گے۔

گرمیوں کے دن تھے، جب مَیں نے آصف صاحب کو اُن کے گھر سے لےلیا۔ مَیں نے آصف صاحب کو عموماً خود گاڑی چلاتے کم دیکھا۔ اگر اُنھیں کہیں جانا ہوتا تو یا تو وہ ڈرائیور کو بلوا لیتے یا کسی دوست سے درخواست کرلیتے کہ وہ اُنھیں اُن کے گھر سے لے لے یا پھر ٹیکسی، اُوبرکروالیتے۔ مَیں نے یہ عادت چند اور لوگوں میں دیکھ رکھی ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ مہارت سے گاڑی چلا لیتے ہیں مگر حتی الوسع گاڑی چلانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ (اس امر کے نفسیاتی تجزیے سے متعلقہ شخص کی شخصیت کا کوئی نہاں گوشہ وا ہوسکتا ہے) بہرحال، اُس خاموش، لُو دھونکتی گرم دوپہر میں ہم کراچی ڈیفینس کی چھبیس ویں اسٹریٹ پر واقع ایک عمارت کے سامنے جا پہنچے۔

وہاں تیسری منزل کے فلیٹ میں تصدّق صاحب قیام پذیر تھے، نیچے ہاٹ اسپاٹ کیفے تھا۔ بعدازاں، اسی کیفے میں دو دیرینہ دوستوں عبداللہ حسین اور تصدّق سہیل کی دہائیوں بعد ملاقات کا اہتمام بھی ہوا تھا۔ فلیٹ تک تنگ سیڑھیاں جاتی تھیں۔ ہم نے وہاں پہنچ کر گھنٹی بجائی تو دروازہ نیم واہوا۔ مَیں آگے کھڑا تھا، دروازے سے ایک گول مٹول چہرے والے بزرگ نے باہر جھانکا اور مجھے دیکھ کرتذبذب کا شکار ہوگئے، مگر میرے پیچھے کھڑے آصف فرخی کو دیکھا تو کھلکھلا کر ہنس پڑے اوردروازہ کھول کر کہنے لگے ’’آیئے،آیئے…‘‘ فلیٹ میں ایک مخصوص بو ُپھیلی ہوئی تھی۔ 

اور پھر عقدہ کھلا کہ دوسرے کمرے کی بالکونی پر لٹکتے پنجرے، اُن پنجروں میں طرح طرح کے چہچہاتے، گاتے، غُل مچاتے پرندے، اُن کادانہ دُنکا اورپانی بَھری کٹوریاں اس بُو کا باعث تھے۔ حیران کُن طور پر فلیٹ میں بلیاں صوفوں اور فرش پر بیٹھی تھیں یا چلتی پھرتی نظر آرہی تھیں۔ نہ جانے ایک ہی مقام پر بلیاں اورپرندے بقائے باہمی کے کن اصولوں کے تحت اکٹھے زندگی بسر کررہے تھے۔ مصّور کا بالائی بدن برہنہ تھا، صرف نچلے حصّے پر چادر کو تہ بند کے طور پر باندھ رکھا تھا۔ بہت بعد میں مصّور نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’لباس انسان کی ضرورت کے تحت ایجاد ہوا اور خلافِ فطرت ہے۔‘‘ مصّور کے ہاتھوں، بازوؤں اور کہنیوں پر تازہ پینٹ لگا ہوا تھا۔ 

ایزل پر ایک نامکمل پینٹنگ رکھی تھی اور دیواروں کےساتھ مختلف مکمل اور نامکمل تصاویر دَھری تھیں۔ سامنے کمرے سے کسی مغربی سازینے کی مدھر موسیقی ہوا کی لہروں پر تیر رہی تھی اور میز پر ادھ بھرا گلاس رکھاتھا۔ تب کے ستّربہتّر سالہ مصّور نے ساری عُمر شادی نہ کی تھی۔ بس، اپنے جنونِ مصّوری اور دوشیزاؤں کے ساتھ زندگی بسر کردی تھی۔ آصف صاحب نے تصّدق صاحب سے میرا بطور ایک دوست اور ادیب تعارف کروایا۔ پہلی ہی ملاقات میں تصدّق صاحب نے بے باکی سے اُن موضوعات پر گفت گو شروع کردی جن پر مملکتِ خداداد میں سوچنے کا تصّور بھی محال ہے۔ وہ مصری شاہنشاہ، اخناتون سے، جس نے بقول اُن کے، خدائے واحد کا پہلی مرتبہ تصّور پیش کیا، بات کرنا شروع ہوئے اورمَردوں کے لیے شہر کی دیواروں پر لکھے مجرّب نسخوں پر بات ختم کی۔ 

اسی یک طرفہ گفت گو کے بیچ وہ کوئی کٹیلا تبصرہ، شگفتہ جملہ بھی بول دیتےتھے۔ جب آصف صاحب نے اپنی دستی گھڑی پر وقت دیکھنا شروع کیا تو تصدّق صاحب ایک دَم چونک گئے۔ انھوں نے ہم دونوں کو اپنے پیچھے چلنے کا اشارہ کیا اور ملحقہ کمرے میں لے گئے۔ وہاں ایک شاہ کار پینٹنگ کی جانب، جس میں عجیب الخلقت رنگین پرندے، آبی جان وَر اور بے لباس لوگ تھے، اشارہ کیا اور آصف صاحب سے کہنے لگے ’’وہ رہی آپ کی پینٹنگ۔‘‘ آصف صاحب نیوڈز کو دیکھ کر متذبذب ہوگئے اور بولے ’’تصدّق صاحب! آپ کو پتا ہے، میرے ہاں ہر طرح کےلوگ آتے ہیں، تو یہ برہنہ لوگ…‘‘ تصدّق صاحب نے اُن کا جملہ بیچ سے اُچک لیا اور بےزاری سے بولے ’’تو اِنھیں کپڑے پہنا دیتے ہیں۔‘‘ 

’’اس طرح تو آپ کی پینٹنگ خراب ہوجائے گی، جو آپ نے اپنی فطری رَو میں بنائی ہے۔ مَیں کوئی اور پینٹنگ لےلیتاہوں۔‘‘ تصدّق صاحب کی فوری آمادگی پر اُنھوں نے دیدہ زیب اور زندہ شوخ رنگوں سے مزیّن دو پینٹنگزاُٹھا لیں۔ جب ہم چلنے لگے، توتصدّق صاحب نے ہمیں ٹھیرنے کو کہا اور موٹے مارکر سے دونوں تصاویر کی پشت پراپنے دست خط ثبت کرکے تاریخ لکھ ڈالی۔ جب ہم فلیٹ سے باہر آئے تو آصف صاحب نے کہا، ’’کیا عُمدہ اور شگفتہ مزاج آدمی ہیں۔‘‘مَیں نے شکیل عادل زادہ صاحب کا جملہ دہرایا، ’’اِن کی شادی جو نہیں ہوئی۔‘‘

درحقیقت تصدّق صاحب کی درجن بھر سے زیادہ تصاویر آصف صاحب کے مہمان خانے، ذاتی لائبریری اورمختلف کمروں میں سجی ہوئی تھیں۔ مصّور نے وہ تمام فن پارے اُنھیں تحفتاً دیئے تھے۔ اُس وقت بھی تصدّق سہیل کی پینٹگزفنون کی منڈی میں ایک لاکھ سے چالیس لاکھ روپے تک میں بِکتی تھیں۔ مَیں نے اپنی زندگی میں تصدّق صاحب جیسا درویش صفت اوردولت سے مکمل بے نیاز، وسیع القلب شخص کوئی اورنہیں دیکھا۔ وہ جس سے محبّت کرتے تھے اُس پر اپنا سب کچھ وار دیتے تھے۔ ایک ایسے نادرِ روزگار اور فنا فی الفن فن کار سے متعارف کروانے پر مَیں آصف صاحب کا شُکر گزار ہوا اور اُن سے اجازت طلب کی کہ جب کبھی آصف صاحب مصروف ہوں یا اُن کا ساتھ میسّر نہ بھی ہوتو مَیں تصدّق صاحب سے مل لیا کروں۔ اُنھوں نے بخوشی اجازت دے دی۔ یوں میرے تصدّق صاحب سے دہائی بھر سے زیادہ مدّت کے مستقل تعلق کا آغاز ہوا۔ 

بعدازاں، اُن کے نگار خانے میں پھر مَیں نے کیا کیا دل چسپ کردار، عُمدہ فن پارے اور غنچہ بدن نازنینوں کو نہیں دیکھا۔ اِس پہلی ملاقات کے بعد بھی چند ایک مرتبہ آصف صاحب میرے ساتھ تصدّق صاحب کے ہاں گئے اور تصدّق صاحب نے اُن سے کہا کہ ’’وہ جو پینٹنگ چاہیں اُٹھالیں، وہ اُن کی جانب سے تحفہ ہوگی۔‘‘ آصف صاحب نے، مصّوری کے شائق ہونے کے باوجود، کبھی کوئی تصویر منتخب کرتے ہوئے تردّد اور تکلّف کا مظاہرہ کیا،تو تصّدق صاحب نے اُنھیں فن پارہ زبردستی تھما دیا۔ سو، یہ حقیقت تھی آصف صاحب کے ہاں ایک بین الاقوامی سطح کے مصوّر کی منفرد طرز کی کئی دلآویز پینٹگز کی کلیکشن موجود تھی۔

مَیں جو کوئٹہ میں بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں، تو آصف صاحب سے منسلک کئی مناظر آنکھوں کے سامنے چلے آتے ہیں۔ کوئٹہ سے زیارت اور ولی تنگی جھیل تک سیب، آلو بخارے اور آڑو سے لدے درختوں کے باغات جوبن پر ہیں، جھیل میں موجود پہاڑی چشموں کا پانی اِن باغات کو سیراب کرتا ہے اور آیندہ بھی انار، انگور، خوبانی، چلغوزے وغیرہ کے باغات کی پیاس بجھاتارہے گا۔ پہاڑوں، درختوں اور اچھلتے کودتے پانی والے چشموں میں نہ جانے کیا جادو ہے کہ آدمی اُن کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے،مگر میرادل اداس ہے۔ ایک مرتبہ مَیں درختوں، پودوں سے اپنے فطری لگاؤ کے باعث اُن پر مضمون ’’درخت آدمی ہیں‘‘ لکھ رہا تھا۔ مَیں نے آصف صاحب کو فون کر کے اِس مضمون کا بتایا، تو وہ بےاختیار بولے ’’بھئی، یہ درخت آدمی ہیں یا آج کے آدمی درخت ہیں؟‘‘

مَیں نے اِس بےساختہ جملے کی داد دے کر اُردو زبان کے کئی ادیبوں، شاعروں کا حوالہ دیا، جنھوں نےدرختوں اور قدرت کے تذکروں کو اپنی تحریروں کا حصّہ بنایا تھا۔ اُن میں انتظار حسین کا حوالہ بھی تھا۔ آصف صاحب نے فی الفور انتظار صاحب کی کئی دہائی پرانی تحریروں کاحوالہ دیا، جن میں درختوں اورقدرت کو موضوع بنایا گیا تھا۔ بقول غالب ؎ ایساکہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے۔ جب کہیں کسی موضوع پر راہ نمائی درکار ہوتی، کسی حوالے کی ضرورت پڑتی، متعلقہ موضوع پرکیا کچھ لکھا گیا، معلوم کرنا ہوتا، مُلکی، بین الاقوامی سطح پر ادب وفن میں کیا کچھ ہورہا ہے سے متعلق دریافت کرنا ہوتا، تلفّظ یا اِملا کے مسائل درپیش ہوتے، مَیں آصف صاحب سےرجوع کرتا۔اب مَیں کس سے بات کروں، کس سے پوچھوں؟ انٹرنیٹ اپنے بلاقیمت غیرمستند اور محدود مواد اور قیمتاً فراہم کردہ محفوظ حقوق والی معلومات سمیت اردو کے معاملات پر آکرخاموش ہو جاتا ہے۔ 

شکیل عادل زادہ صاحب کی بلند قامت شخصیت موجود ہے، مگر جدید بین الاقوامی ادب پر آصف ساکوئی نہیں۔ میرے کمرے سے باہر باغات میں درخت، پھلوں کے وزن سے خمیدہ کمر ہیں اور غُنچے کِھلے جاتے ہیں، مگر دل کایہ غُنچہ ہے کہ مُرجھایا ہی چلا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ مَیں نے اُن کے سامنے اعتراف کیا کہ مَیں نےان سے زیادہ صاحبِ مطالعہ کوئی اور شخص نہیں دیکھا تو مُسکرا کر بولے، ’’لگتا ہے آپ کی سلیم الرحمان اور زاہد ڈار سے زیادہ ملاقات نہیں رہی۔‘‘

ایک دفعہ انگریزی زبان کی ادیبہ کاملہ شمسی سے ایک انٹرویو میں اُن کے پسندیدہ اردو ادیب کا پوچھا گیا تو انھوں نے آصف فرخی کا نام لیا۔ جب مَیں نے یہ بات آصف صاحب کو بتائی تو جھینپ کر بولے ’’کاملہ کا انٹرویو مَیں نے بھی پڑھا ہے، دراصل کاملہ کا اردو ادب کا خاص مطالعہ نہیں ہے۔‘‘ اِسے ان کی کسر نفسی کے سوا کیا کہا جائے۔ ایک روز مجھے ڈیفینس میں واقع ایک کیفے لے گئے۔ وہاں اُنھوں نے ایک پرُاعتماد اور بےتکلف خاتون سے ملوایا اور بتایا کہ اِن خاتون نے علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں اور مباحثوں کا ڈول ڈالا ہے۔ وہ خاتون سبین محمود تھیں اور اس کیفے کا نام دی سیکنڈ فلور (T2F) تھا۔ یہ اُس کیفے کے ابتدائی دن تھے۔ 

بعد ازاں، وہ کیفے بہت مقبول ہوا اور وہاں کئی یادگار پروگرام ہوئے۔ اُس کیفے میں بِلا امتیازِ جنس و مذہب کُھل کر مباحثے ہوتے اور اخبارات میں جگہ پاتے۔ اکثر و بیش تر آصف صاحب وہاں کسی پروگرام کی نظامت کرتے، کافی پیتے یا اپنے اشاعتی ادارےکی کتابیں رکھواتے نظر آتے۔ کیفے کے آغاز کے آٹھ ہی برس بعد سبین محمود جیسی سادہ، معصوم اور متحرک خاتون کو ظالم شدت پسندوں نے قتل کردیا۔ اُن کے قتل پر مَیں نے دیگر کے علاوہ آصف صاحب کو جتنا مغموم دیکھا، پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ مغموم تو وہ اپنے والد کی وفات پر بھی حد درجہ تھے۔ 

اُن کے والد اُن کا عشق، اُن کے رول ماڈل تھے۔ اسلم فرخی جیسے ادیب، استاد، عالم اور وضع دار بزرگ تھے بھی ایسے ہی باثمر اور بے مثال۔ بڑھاپے میں مختلف عوارض نے اسلم فرخی کو اپنے حصار میں لے لیا، تو آصف اُن کے لیے بہت فکر مند رہا کرتے۔ والد گلشنِ اقبال میں اقامت پذیر تھے اور آصف ڈیفینس منتقل ہوچُکے تھے۔ چناں چہ انھوں نے معمول بنالیا کہ چُھٹی کا دن اپنے والدین کےساتھ گزارتے۔ وہ والد سے علیحدہ کیوں ہوئے تھے، اس راز سے بھی پردہ انھوں نے اواخرِ عُمرمیں اٹھایا۔ ایک شام کا واقعہ ہے۔ میرے گھر کو شکیل عادل زادہ اورآصف فرخی نے رونق بخشی تھی۔ خوش گوار ماحول میں آصف صاحب کی شگفتہ مزاجی اپنے جوبن پر تھی۔(جاری ہے)