عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال3مارچ کو’’ورلڈ ہئیرنگ ڈے‘‘ منایا جاتا ہے،جس کا مقصدسماعت کی اہمیت اُجاگر کرنا ہے۔ رواں برس اس دِن کے لیےجس تھیم کا اجرا کیا گیا ہے، وہ "To Hear For Life, Listen With Care" ہے۔ یعنی ’’زندگی بھرسُننے کے لیے:،توجّہ سے سُنیں۔‘‘
دراصل قوّتِ سماعت کی کمی نہ صرف کئی مسائل کا سبب بنتی ہے، بلکہ متعدّد افراد مستقل بہرے پَن کا بھی شکار ہوجاتے ہیں، لیکن اگربروقت سماعت کی کم زوری کا احساس ہوجائے، تو درست علاج سے عُمر بَھر کی محرومی سے بچا جاسکتا ہے۔مگر پاکستان ہی میں نہیں، تقریباً پوری دُنیا میں سماعت سے متعلق معلومات کاسخت فقدان پایا جاتا ہے،جس کےسبب اس سے متعلقہ مسائل کی شرح میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی جاری کردہ2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر کی تقریباً 5 فی صد آبادی(جس میں 43 کروڑ 20لاکھ بالغ افراد اور 3کروڑ 40لاکھ بچّے شامل ہیں) سماعت کے کسی نہ کسی درجے کے خلل کا شکارہے اور خدشہ ہے کہ 2025ء تک یہ تعداد200کروڑ تک پہنچ جائے گی، جب کہ ان میں سے قریباً ستّر کروڑ افراد کو آلۂ سماعت کی ضرورت درپیش ہوگی۔ان ہی اعداد وشمار کے مطابق 65 برس سے زائد عُمر کے افراد میں سے ایک تہائی کسی نہ کسی حد تک بہرے پَن میں مبتلا ہوتے ہیں۔
یعنی کسی انسان میں قوّتِ سماعت کا اپنی مکمل اور بَھرپور شکل میں موجود ہونا درحقیقت اللہ سبحان و تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے،جس کی قدر کرنا اور شُکر ادا کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃالمومنون کی آیت نمبر78میں ارشاد فرماتے ہیں،’’اور اسی نے تمہارے کان، آنکھیں اور دِل بنائے ہیں، تم بہت ہی کم شُکر کرتے ہو۔‘‘ توہم سب کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا جسم، صحت اور عطا کردہ ہر صلاحیت ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے، جس کی حفاظت ہمارے اوپر فرض اور اُس کا شُکر ادا کرنا واجب ہے، لیکن اس کی طرف سے لاپروائی برتنا اور دانستہ ایسے کسی عمل کا ارتکاب کرنا، جس سے اس نعمت کے ضایع ہونے کا اندیشہ ہو، ناشُکری کہلائے گی۔
سماعت کی نعمت سے محرومی انسان کی ممکنہ تخلیقی صلاحیتیں بُری طرح متاثر کردیتی ہے اور نہ صرف انفرادی ترقّی کی راہ میں حائل ہوتی ہے، بلکہ معاشرے کا ایک کارآمد فرد بننے میں بھی رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ ہیلن کیلر ایک اولو العزم اور مثالی خاتون تھیں، جو نہ صرف پیدائشی نابینا تھیں، بلکہ قوّتِ سماعت سے بھی محروم تھیں۔ ان کا یہ قول سماعت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ ’’نابینا پَن انسان کو اشیاء سے دُور کرتا ہے، لیکن بہرا پَن انسان کو انسانوں سے دُور کردیتا ہے۔‘‘
لہٰذا اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کرنا بھی ضروری ہے اور دیدہ و دانستہ اس کو نقصان سے بچانا بھی ہے۔الفاظ کا سُننا اور سمجھنا ایک پیچیدہ عمل ہے، لیکن یہ اس لیےبھی ضروری ہے کہ جب تک کسی شے سے متعلق معلومات نہیں ہوں گی، تو اس کی درست طریقے سے حفاظت بھی نہیں کی جاسکے گی۔آوازیں، لہروں کی شکل میں سفر کرتی ہیں اور یہ لہریں ہمارے کان کے راستے دماغ کے ایک مخصوص حصّے میں پہنچتی ہیں، جہاں دماغ ان لہروں کو بامعنی الفاظ کی شکل میں شناخت کرتا ہے۔ سماعت کے عمل میں بنیادی طور پر کان کے تین حصّے اہم کردار ادا کرتے ہیں،جن میں رگِ سماعت اور دماغ کے ایک مخصوص حصّے کا کردار کلیدی ہے۔
٭بیرونی کان: یہ چہرے کے دونوں جانب نظر آنے والا قیف نما حصّہ ہے، جو مختلف سمتوں سے آنے والی آوازوں کو کان کے پردے تک پہنچاتا ہے۔
٭درمیانی کان : یہ کان کے پردے کے اندرونی جانب واقع ہے۔ پردے سے ٹکرانے والی آوازیں اس درمیانے حصّے میں موجود جسم کی تین مختصر ترین، لیکن متحرک ہڈیوں کے ذریعے کان کے اندرونی حصّے تک پہنچتی ہیں۔
٭اندرونی کان : یہ گھونگھے(Snail) سے مشابہ انتہائی حسّاس حصّہ ہے، جس میں اس کی جھلّی پر نہایت مہین اور باریک خلیاتی ریشے(ہیئر سیلز) ہوتے ہیں، جو ایک سیال مادّے( Cochlear fluid)میں ملبوس ہوتے ہیں۔ جوں ہی درمیانے کان سے صوتی لہریں اندرونی کان کے سیال مادّے تک پہنچتی ہیں، اس میں ارتعاش پیدا کر دیتی ہیں، نتیجتاً ہیئر سیلز بھی حرکت میں آجاتے ہیں اورارتعاش کو برقی لہروں میں تبدیل کر دیتے ہیں اوریہی ہیئر سیلز آوازوں کی ابتدائی پہچان کا سبب ہیں۔
٭رگِ سماعت (Cochlear Nerve): کان کے اندرونی حصّے میں پیدا ہونے والے برقی اشارے ہیئر سیلز کے ذریعے رگِ سماعت تک پہنچنے ہیں، جہاں سے یہ رگ انہیں دماغ کے سماعت کے لیے مختص حصّے’’سمعی قرطاس(Auditory Cortex)تک پہنچاتی ہے۔
٭سمعی قرطاس (Auditory Cortex) : یہ دماغ میں واقع وہ اعلیٰ اور مخصوص حصّہ ہے، جہاں کان سے بذریعہ رگِ سماعت پہنچنے والی آواز کی لہروں کا تجزیہ اور تشریح کی جاتی ہے اور انہیں قابل فہم بنایا جاتا ہے۔
اب یہ بات سمجھنا قدرے سہل ہوگا کہ طویل عرصے تک کان میں پہنچنے والی مستقل تیز آوازیں مثلاً مشینوں، ٹریفک کا شور، تیز موسیقی یا مختصر ترین دورانیے کی غیر معمولی شدّت جیسے دھماکے، پٹاخے کی آوازیں کان کے اندرونی حصّے میں واقع ہیئر سیلز کے ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بنتی ہیں۔ چناں چہ یہ ضروری ہے کہ ہر قسم کے شور سے سماعت کو بچایا جائے، تاکہ کسی بھی عارضی شور کے نتیجے میں سماعت کی مستقل معذوری کا شکار نہ ہوسکیں۔
سماعت سے محرومی ،جو عام طور پر بہراپَن کہلاتی ہے، کئی اقسام کی ہے،لیکن انہیں دو بنیادی گروپس میںتقسیم کیاجاتا ہے۔ایک قسم مستقل اور دوسری عارضی بہرا پَن کہلاتی ہے۔ مستقل بہراپَن عموماً کان کے اندرونی حصّے، رگِ سماعت یا دماغ میں سُننے کے مختص حصّے کی کم زوری کی وجہ سے ہوتا ہے،جس کا علاج عمومی طور پر ادویہ یا عام جرّاحی کے ذریعے ممکن نہیں۔اس کے برعکس عارضی بہرا پَن کان کے بیرونی یا درمیانی حصّے میں کسی خرابی کی وجہ سے لاحق ہوجاتا ہے اور قابلِ علاج ہے۔ایک اندازے کے مطابق بچپن میں ہونے والا60فی صد بہرا پَن قابلِ علاج ہے، بشرطیکہ بر وقت تشخیص کے ساتھ مستند معالج سے علاج کروایا جائے۔
قوّتِ سماعت جانچنے کی اکائی"Decibel"کہلاتی ہے اورایک تن درست و صحت مند فرد کی قوّتِ سماعت 20سے25ڈیسی بیلز تک ہوتی ہے۔بالغ افراد کی سماعت میں 40ڈیسی بیلز کی کمی بہرے پَن کو ظاہر کرتی ہے، جب کہ بچّوں میں یہ حد30ڈیسی بیلزہے۔ بہرے پَن کی درجہ بندی اسی اکائی کو مدِّنظر رکھ کر کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر 30سے45ڈیسی بیلز کے درمیان معمولی بہرا پَن ، 46سے65ڈیسی بیلز تک درمیانے درجے کا بہرا پن،66سے85ڈیسی بیلز شدید اور اس سے زائدشدید ترین درجے کا بہرا پَن کہلاتا ہے،جب کہ 90 ڈیسی بیلز یا اس سے زائد درجے کی آواز سماعت کے لیےانتہائی خطرناک قرار دی گئی ہے۔
یوں توبہرے پن کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن موجودہ صنعتی دَور میں شور کی آلودگی (Noise pollution) سماعت کی کم زوری کی چند بڑی وجوہ میں شمار کی جاتی ہے۔ شور کی آلودگی نہ صرف ماحولیاتی نقصان کا باعث بنتی ہے، بلکہ انسان اور چرند پرند کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتّب کرتی ہے۔شور کی آلودگی سے مُراد ہے، ’’ماحول، اعصاب اور صحت پر اثر انداز ہونے والی غیر ضروری اور غیر مطلوبہ مہیب یا تیز ضرر رساں آوازیں۔‘‘ مطلب یہ کہ کوئی ایسی آواز ،جو انسانی سماعت کے لیے تکلیف دہ یا ناقابلِ برداشت ہو ، تووہ شور کی آلودگی کہلائےگی۔
شور کی آلودگی انسانی صحت کی ایک نادیدہ دشمن ہے۔ خواہ یہ ٹریفک کا شور ہویا کارخانوں، فیکٹریوں میں نصب مشینوںکا۔ موبائل فونز اور کمپیوٹرکے ہینڈز فری آلات ہوں یا ہیجان انگیز موسیقی کے آلات و ذرائع، تعمیراتی کاموں کا شور ہو یا جنریٹرکی آواز، لاؤڈ اسپیکر کا بے جا استعمال یا گاڑیوں میں لگے پریشر ہارن، فی زمانہ یہ تمام عوامل ہی صوتی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام ایجادات انسانوں کو سہولتیں بہم پہنچانے کے لیےہیں،لیکن ان کا بےجا، غیر ضروری اور لا پروائی سےہونے والا استعمال، خاص طور سماعت اور بالعموم انسانی صحت اور نفسیات پر بتدریج اثر انداز ہوتا ہے۔
فی الوقت، خصوصاً نوجوانوں میں سماعت کی کمی کا سب سے بڑا سبب تیز آوازوں سے واسطہ ہے۔ ان میں کچھ تو روز افزوں بڑھتی ہوئی آن لائن تعلیمی سرگرمیاں اور ورک فرام ہوم ہے، جو کووڈ-19 اور اس کے مختلف ویری اینٹس کی وجہ سے تقریباً مجبوری بن چُکا ہے، لیکن کچھ سرگرمیاں محض شوقیہ بھی ہیں، جیسے تیز موسیقی ، جسے سُننے کے لیے عموماً ہینڈز فری آلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یاد رکھیے، تیز آوازیں جتنے قریب سے سُنی جاتی ہیں،سماعت کے متاثر ہونے کے امکانات اُتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، سماعت کے معاملے میں بے احتیاطی کے باعث اس وقت تقریباً ایک ارب نوجوانوں کو سماعت میں خرابی کا خطرہ لاحق ہے۔واضح رہے، آن لائن کلاسز، میوزک پلئیرز یا دیگر آلات وغیرہ، جو ائیر فون یا ہیڈ فون کے ذریعے کان سے منسلک ہوتے ہیں،سماعت سے متعلق انتہائی حسّاس اندرونی حصّے پر براہِ راست منفی اثرات مرتّب کرتے ہیں۔اس ضمن میں خاص طور پرنوجوانوں میں آگہی اُجاگر کرنا ناگزیر ہے۔
نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو، ہینڈز فری آلات کے استعمال سے احتراز کریں اور اپنے کانوں کو مناسب اور مدہم آوازوں کا عادی بنائیں، بصورتِ دیگر آج کا شوق، آئندہ زندگی میں سماعت میں خلل کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ شور سے متاثرہ افراد کی ایک بڑی تعداد کا تعلق کارخانوں اور فیکٹریوں سے ہوتاہے کہ یہاں کام کرنے والوں کو روزانہ کی بنیاد پر مسلسل کئی کئی گھنٹے مشینوں کے انتہائی تیز شور سے واسطہ پڑتا ہے، جو رفتہ رفتہ ان کی قوّتِ سماعت بُری طرح متاثر کردیتا ہے۔ب
دقسمتی سے ہمارے مُلک میں کارخانوں میں یا مشینوں کے قریب کام کرنے والے افراد کی سماعت کے لیے کوئی مناسب حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں، نہ ان کی سماعت کی سالانہ جانچ کا کوئی اہتمام ہوتا ہے،حالاں کہ قانوناً ان جگہوں کی انتظامیہ اس بات کی پابند ہے کہ وہ مشینوں کے قریب کام کرنے والے تمام عملے اور مزدوروں کو نہ صرف شور سے بچاؤ کے درست اور مناسب آلات فراہم کرے، بلکہ ایک خاص وقفے کے بعد ان کی سماعت جانچنے کا بھی انتظام کرے۔ لیکن افسوس محنت کشوں کی بدولت حاصل شدہ منافعے میں سے ان کی صحت اور حفاظت کی مَد میں ایک معمولی رقم بھی خرچ نہیں کی جاتی۔
دُنیا کے بیش تر مُمالک میں کارخانوں میں 85سے 90 ڈیسی بلز کے شور کے ساتھ کام کے دورانیے کی حد 8 گھنٹے مقرر ہے اور وہ بھی کان کے حفاظتی آلات کے ساتھ۔اگرصرف کراچی کا جائزہ لیں،تو یہاں مختلف کارخانوں میں شور کا پیمانہ85 سے 112 ڈیسی بیلز تک پایا جاتا ہے اور کام کا دورانیہ بھی کئی جگہوں پر 10 سے 12 گھنٹے تک ہے۔یعنی حفاظتی اقدامات تقریباً ناپید ہیں۔
مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق کراچی کے کئی علاقوں میں ٹریفک 70 سے 90 ڈیسی بیلز کا شور پیدا کرتا ہے، جب کہ ان سواریوںپر سفر کرنے والوں کے لیے شورکی حد100 سے 120 ڈیسی بیلز تک ہے۔واضح رہے، اس ٹریفک میں سب سے زیادہ شور کی وجہ بغیر سائیلینسر کے رکشے اور موٹرسائیکلز ہیں ۔ اس کے علاوہ ہوائی اڈّوں کے قریب واقع علاقوں میں ہوائی جہاز بھی 140 ڈیسی بیلز کی خطرناک ترین سطح کا شور پیدا کرتے ہیں، جو رہائشیوں کے لیے صرف تکلیف دہ ہی نہیں، بلکہ سماعت کے لیے مُہلک بھی ہے۔ کم وبیش یہی حال ریلوے لائن کے آس پاس رہنے والوں کا بھی ہے۔عالمی ادارۂ صحت ماحولیاتی آوازوں کو24گھنٹوں کے لیے70ڈیسی بیلز کی حد تک رکھنے کی ہدایت کرتا ہے، جب کہ 75ڈیسی بیلز کی آوازیں آٹھ گھنٹے سے زائد سُننا سماعت کے لیے خطرناک قرار دیتاہے۔
اس کے علاوہ بند کمرے میں کم شدّت کی آواز بھی سماعت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے،البتہ کُھلی فضا میں اِسی شدّت کی آواز کو سماعت کے لیے خطرناک قرار نہیں دیا جاتا۔ چناں چہ اندرونِ خانہ آوازوں کی حد 45ڈیسی بیلز سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔علاوہ ازیں، مستقل شور بتدریج قوّتِ سماعت کی کم زوری کا سبب بنتا ہے، تو اچانک دھماکے یا یک بارگی کی انتہائی تیز آوازیں فوری قوّتِ سماعت کے زائل ہونے کی وجہ بن جاتی ہیں۔
مثلاً فائرنگ، پٹاخے، آتش گیر مادّے یا گیس سلنڈر پھٹنے کے واقعات سے متاثرہ افراد اچانک اور مستقلاً سماعت سے مکمل یا جزوی طور پر محروم ہو جاتے ہیں۔ تب ہی شادی بیاہ یا خوشی کے مواقع پر ہوائی فائرنگ یا آتش بازی سے یک دَم سماعت سے محروم ہو جانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد روزمرّہ کی او پی ڈی میں معائنے کے لیے آتی ہے۔
بہرے پَن سے متاثر زیادہ تر افراد کا تعلق ترقّی پذیر مُمالک سے ہے، جہاں اکثر و بیش تر تشخیص اور علاج کی سہولتیں ناکافی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ایسے ہی مُمالک کی فہرست میں شامل ہے، جہاں علاج تک رسائی حکومت اور عوام دونوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ۔ اسی لیے بہرے پَن کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد تاعُمر سماعت سے معذوری کا شکار رہتی ہے، حالاں کہ بروقت اور درست علاج کے ذریعے وہ سماعت کی خاطر خواہ صلاحیت حاصل کر سکتے تھے۔
بہتر تو یہی ہے کہ سماعت میں معمولی سا سقم بھی پیدا ہونے کی صُورت میں فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ سماعت کی صلاحیت تا دیر قائم رکھنے کے ضمن میں سب سے اہم صوتی آلودگی سے بچاؤ ہے۔ اگر آج سُننے میں احتیاط اور کان کی حفاظت کرلی جائے، تو مستقبل میں سماعت کی محرومی سے بچا جاسکتا ہے ۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب سماعت کی حفاظت کی اہمیت سے متعلق ہر سطح تک آگہی فراہم کی جائے ۔ عالمی ادارۂ صحت نے بھی رواں برس عوام الناس کی آگہی کے لیے ’’محفوظ سماعت‘‘ ہی کا موضوع مقرر کیا ہے، تاکہ غیر ضروری شور سے بچنے کی ترغیب دی جا سکے۔
(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ کان، ناک،گلا ہیں اور ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہونے کے ساتھ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما)کے رکن بھی ہیں)