• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا پُرانا آدمی ’آصف اسلم فرخی‘ (قسط نمبر…5)

علاوہ ازیں، اُسی دَور میں اُن کی شادی بھی ہوئی اور انھیں اجتماعی خاندان میں رہنے سے جنم لیتے خانگی مسائل کا سامنابھی رہا۔ سو، گمان ہے کہ یہ تمام عوامل اُن کی تحریروں پر اثر انداز ہوئے اوروہ شاہ راہ کو چھوڑکر پگ ڈنڈیوں کے مسافر ہوگئے۔ ایک بات تو طے شدہ ہے کہ اُن کی نثر میں ایامِ نوجوانی سے وہ پختگی تھی، جو ایک تجربہ کار اور پختہ کار ادیب کے قلم میں مسلسل مطالعے اورمشق سے آتی ہے۔ 

چند برسوں میں آصف کم زورعلامت نگاری اور ابہام بیانیے سے نکل آئے اور بالکل مختلف انداز کے افسانے سامنے لے کر آئے۔ تیسرے دَور کے شروع کے افسانوں میں اساطیری رنگ تھا، جو بعدازاں سیدھی سبھاؤ کہانیوں کی صُورت میں نمایاں ہوا۔ ان افسانوں میں اپنے گردوپیش سے وابستہ رہنے کی شدید خواہش نظر آتی ہے۔ آصف کے اس دَور کے افسانے ایک اکائی کی مختلف جہتوں کی صُورت نظر آتے ہیں۔ اُن میں سمندر، کراچی، خوف ودہشت، اجتماعی کے بجائے انفرادی خاندان (Nuclear Family) اور اُن کے بنیادی پیشے، طب سے وابستہ علامات نظر آتی ہیں۔ ایک افسانے میں ان کا مرکزی کردار اپنی بیٹی کو پیار سے یہ کہتے ہوئے اپنی گود میں بھر لیتا ہے’’چھوٹی سی ہے میری چوہیا‘‘ تو اُس کی بیٹی اُس کے سینے میں یہ کہتے ہوئے منہ چُھپالیتی ہے ’’آپ کا پیٹ کتنا موٹا اور نرم ہے۔‘‘ جب وہ ڈکار لیتاہے تو ننّھی بیٹی پکار اٹھتی ہے’’آپ کے پیٹ میں گائے بول رہی ہے۔‘‘یہ مرکزی کردار آصف صاحب ہی کا نظر آتا ہے۔

ایک روز مَیں نے آصف صاحب کو فون کیا اوراُن سے ملاقات کی خواہش ظاہرکی۔ اُن کی آمادگی پر مَیں اُسی وقت اُن کے ہاں چلا گیا۔ وہاں مَیں نے ایک پیکٹ اُن کےحوالے کیا اور اُن سے درخواست کی کہ وہ فرصت میں اِسے دیکھ لیں۔ عموماً وہ کسی مسوّدے کو پڑھنے میں دوچار ہفتے لگادیتے تھے۔ خلافِ توقع اگلےروز ہی اُن کافون آگیا۔ مسرت ان کے لہجے سے چھلک رہی تھی۔ بولے’’آپ نے یہ کیا تکلیف کی، مَیں نے رات کو سونے سے پہلے سوچا کہ دیکھ لوں پیکٹ میں کیا ہے۔ جب کھولا تو رات گئےجب تک مکمل مسوّدہ پڑھ نہ لیا، مَیں سویا نہیں۔ مَیں نے رجسٹربھی دیکھ لیا ہے۔ 

آپ نے تو کمال کردیا۔‘‘ مَیں نے آصف صاحب کے تمام مجموعوں کے مکمل افسانے پڑھ کر، ہرافسانے پر علیحدہ رائے اور مختلف عناصر کے انفرادی نمبر ایک ٹیبل کی صُورت درج کرکے، ایک طویل تاثراتی اور تجزیاتی مضمون لکھ کر اُن کے حوالے کیا تھا۔ انھوں نے میری رائے سے نہ صرف مکمل اتفاق کیا بلکہ اس انتخاب کو کتابی صُورت میں شائع کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ اُنھوں نے تو یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ اس ٹیبل/جدول کو بھی کتاب کا حصّہ بنایا جائے۔ جب کتاب اشاعت کے مراحل میں داخل ہو رہی تھی، تو اُس کے سرورق کے لیے تصویر بھی اُن ہی کی تجویزکردہ تھی۔ 

یوں اُن کے افسانوں کا انتخاب 2011ء میں ’’سمندر کی چوری‘‘ کے نام سے آیا۔ یہ اُن کے ایک افسانے کا عنوان بھی تھا۔ اِس انتخاب کی کتابی صُورت میں اشاعت کے بعد انھوں نے چند ایک افسانے ہی تحریر کیے۔ اگر اُن کے افسانوں، مضامین، تراجم اور تبصروں کو مکمل طور پر پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنّاتی کام ایک شخص کا نہیں، ایک ادارے کا ہے۔ اُن کے تمام کام کا انتخاب کیا جائے تو بحیثیت مجموعی اِس نسل میں اُن سے زیادہ کار آمد، موثر اور بہترکام شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ 

اُن کے کام کو جانچنے کا پیمانہ اُنھی کا دَور بنتا ہے اوران کا موازنہ اپنے معاصرین ہی سےکیاجانا چاہیے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ادب کے حوالے سے ان سا جامع الصفات آدمی جو افسانہ نگار، نقّاد، مضمون نگار، مترجم، مدیر، تبصرہ نگار، صاحبِ نظر اور وسعتِ مطالعہ والا قاری بھی ہو، پاکستان کے آج تک کے ادبی منظر نامے پر کوئی اور نظر نہیں آتا ۔ایک اور منظر ہے۔

 کراچی آرٹس کائونسل میں ایک اسٹیج ڈراما دکھایا جارہا تھا۔ وہ کسی مغربی مصنف کا معروف ڈراما تھا، جسے آصف فرخی نے اردو زبان اور مقامی معاشرت کا رُوپ دیا تھا۔ مَیں بھی وہ ڈراما دیکھنے گیا۔ آصف صاحب اپنی بیگم کے ساتھ تین چار قطار آگے بیٹھے تھے۔ ڈراما کیا تھا، ایک طلسم تھا۔ ابتدا میں ایک کہانی دکھائی جاتی ہے، کہانی میں سے ایک اور کہانی نکلتی ہے، دوسری میں سے تیسری اور تیسری میں سے چوتھی کہانی برآمد ہوتی ہے۔ 

ایک کردار ڈرامے میں داخل ہوتا ہے، تو اُس کی کہانی شروع ہو جاتی ہے، ابھی وہ موجود ہی ہوتا ہے کہ اُس کے ایک شریک کردار کی کہانی شروع ہو جاتی ہے اور پچھلے کردار کی کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ دو، ڈھائی گھنٹے کا الف لیلوی ڈراما تھا۔ جب ڈراما ختم ہوا اور پردے گرائے گئے تو حاضرین کھڑے ہوگئے اورکئی منٹ تک ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ آصف صاحب بھی اپنی بیگم کے ساتھ کھڑے ہو کر دادوصول کرتے رہے۔ جب انھوں نےتمام حاضرین کو اس طرح تالیاں بجاتے دیکھا تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ 

اُس روز وہ اور اُن کی بیگم ایک مثالی جوڑا نظر آرہے تھے۔ کتنے خوش تھے وہ دونوں۔ اُس ڈرامے کے چند روز بعد مَیں نے ایک ملاقات میں ادب وفن سے وابستہ ملک کے ایک نام وَر اور فعال دوست سے، جن کے آصف صاحب سے گھریلو مراسم تھے، اُس کام یاب اور پرُمسرت شام اور میاں بیوی کے مثالی جوڑے کاتذکرہ کیا تووہ صاحب اپنے مخصوص بے باک اندازمیں بولے۔’’پورے پاکستان میں اُن سے زیادہ ناخوش جوڑا کوئی اورنہیں۔‘‘یہ بات ہے آصف صاحب کی وفات سےچھے سات برس پہلے کی۔

ناخوش تو آصف صاحب کراچی لٹریچر فیسٹیول پر بےجواز اعتراضات کو سُن کر بھی ہوتے تھے۔ انھوں نے 2010 میں آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کی چیف ایگزیکٹیو، امینہ سیّد کے ساتھ اُس میلے کی داغ بیل ڈالی تھی۔ یہ میلہ صحیح معنوں میں پاکستان میں ہمہ جہت، رنگا رنگ ادبی میلوں کا سُرخیل تھا۔ مجھے آصف صاحب نے عزت بخشی کہ اِس کے پہلے میلے سے لے کر اگلے چند میلوں تک مَیں شریک رکھا۔ 

اُس میلے کی وساطت سے مجھے انگریزی اور اردو زبانوں کے بہت سے ادیبوں سے ملنے کا موقع ملا۔ اس میلے سے پہلے ہمارے معاشرے میں ادیب کا ٹھکانا حلقۂ اربابِ ذوق کا چند شرکا پر مشتمل اجلاس، کتابوں کی مخصوص تقریبات ِ رونمائی اور چائے خانوں تک محدود تھا، مگر اس میلے نےادیب کو قابلِ توجّہ اور معاشرے کے لیے باعث ِ عزت فرد بنانے کی کوشش کی۔ اُسے سیکڑوں سامعین اور میڈیا کی توجّہ عطاہوئی۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ لوگوں کو اس کے مختلف پینلز میں بین الاقوامی سطح کے غیر مُلکی ادیبوں، دانش وروں کو سُننے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ 

بلا امتیازِجنس ومذہب ہر طبقۂ فکر کے لوگوں کو فورم ملا، ٹرانس جینڈرز سے لے کر حقوقِ نسواں کی تنظیموں کی نمایندہ خواتین، وکلا سے لےکر اداکاروں تک کانقطۂ نظر سامنے آیا اور ادب وفن جوکسی بھی معاشرے کے جسم میں روح کی حیثیت رکھتا ہے،ٹی وی، اخبارات اورسوشل میڈیا پرتوجّہ کا مرکز بنا۔ اس حوالے سے چند لوگ معترض بھی ہوئے کہ اس سے قارئینِ ادب میں نہ تو خاطر خواہ اضافہ ہوا اور نہ ہی عُمدہ ادب کی تخلیق میں یہ معاون ثابت ہوا۔ مگریہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس میلے سےادب کو کوئی نقصان پہنچا، تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ 

معاشروں میں ادب و فن دِنوں میں عروج نہیں پکڑتے، اُنھیں دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔ پہلے میلے میں ہزاروں لوگ شریک تھے، لیکن اگلے میلوں میں یہ تعداد بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ گئی۔ آصف صاحب نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ اس میلے کے باعث معاشرے کی اُس اشرافیہ کو جو انگریزی زبان کا ادب پڑھتی تھی، اردو ادب کی اہمیت اور قدر و قیمت کا احساس ہوا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے بیش تر انگریزی زبان میں لکھنے والے ادیب ہماری حقیقی معاشرت تو کُجا، اردو ادب اور ادیبوں سے بھی ناواقف ہیں۔ اِس میلے نے اُنھیں آپس میں بھی متعارف کروایا۔ گویا اس لٹریچر فیسٹیول نے ایک پُل کا کام بھی کیا۔

ایک مرتبہ انگریزی زبان کےصف ِاوّل کے نوجوان پاکستانی ادیب سےپاکستانی ادب کےحوالے سے گفت گو ہو رہی تھی۔ بات چیت کے دوران مَیں نے احمد ندیم قاسمی صاحب کا نام لیا تو وہ مجھ سے بولے ’’حیرت ہے مَیں نے اِن صاحب کا کبھی نام ہی نہیں سُنا۔کیایہ لکھتےتھے؟‘‘اِسی طرح ایک مرتبہ محسن حامد کا تعارف، جن کی کتابوں کے دنیا بھر میں پانچ لاکھ سے زائد نسخے فروخت ہو چُکے ہیں اور اُن کے ایک ناول پر فلم بھی بنائی جا چُکی ہے، مستنصرحسین تارڑصاحب سےکروایاگیاتو وہ اُنھیں نہیں جانتے تھے۔ 

یہ اور اِسی نوعیت کی کئی باتیں اردو ادب کے شایقین کے لیے دل آزاری کا باعث بنتی تھیں۔ بدقسمتی سے ہمارا مذکورہ مختصرانگریزی داں طبقہ اردو میں منٹو، فیض یا انتظار حسین کو فیشن کے طور پر جانتا ہے اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان انگریزی زبان کے ادیبوں اور قارئین کا اردو ادب کا مطالعہ بھی انگریزی ترجمے کے ذریعے ہی ہے۔ ابتدا میں اسپانسرز، اشرافیہ اور شریک غیر مُلکی سفارت کاروں کے باعث انگریزی کو نمایاں جگہ دی جاتی تھی اور اردو کو ثانوی حیثیت حاصل تھی۔ 

آہستہ آہستہ نہ صرف اردو بلکہ مقامی زبانوں کے ادب نے اتنی جگہ بنالی کہ اُس کے ادیبوں کو مرکزی محفلوں میں نمایاں مقام دیا جانے لگا اور اچھے شعر پر well said کہنے والے ’’مکرّرمکرّر‘‘ کہنے لگے۔ ایک روز آصف صاحب کہنے لگے کہ جس طرح پہلے انگریزی ایک In thing تھی، اُسی طرح اب اردو ہے۔ یوں انگریزی، اردو دونوں زبانوں کے ادب، ادیب اورقارئین کے بیچ ایک رابطہ قائم ہوگیا۔ ایک دفعہ مَیں نے اُن سے گزارش کی کہ بعض ناقدین اعتراض کرتے ہیں کہ اُن کے ہاں بہت سےعُمدہ اور اہل ادیبوں اور دانش وروں کو جگہ نہیں دی جاتی۔ 

اس حوالے سے مَیں نے اسد محمّد خان، محمّد سلیم الرحمان، اکرام اللہ اور دیگر چندسینئرز کے علاوہ چند نوجوان لکھنے والوں کاحوالہ بھی دیا۔ انھوں نےجواب دیا کہ کئی اچھے لکھنے والےاچھا بول نہیں پاتے۔ حاضرین وہاں ناظر کے علاوہ سامع کے طور پر بھی آتے ہیں۔ سو، ایک بہت اہم بات اچھی گفت گو کی صلاحیت بھی ہے۔ بہرحال انسان پر ذاتی پسندو ناپسند کا اثر انداز ہونا قدرتی امر ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُنھوں نے اپنی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ’’دنیا زاد‘‘ میں کئی با صلاحیت جوان ادیبوں کو بھی بلاامتیاز متعارف کروایا۔ اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے وسعت ِ قلب سے جس طرح ہرطبقےاورطرزِ فکر کوان میلوں میں نمایندگی دی، وہ شاید کوئی اور نہ دے پاتا۔ دیگر لوگ اپنے نظریے اورتعصب کے غلام بن کر ایک بلبلے میں قید رہ جاتے۔

ایک شام وہ مجھ سے کہنے لگے۔ ’’تمھارے شہر (یعنی لاہور) سے آنے والے ادیب اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ مَیں اردو بولنے والوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ نمایاں کرتا ہوں اور وہ مجھ پر لسانی تعصب کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ فیسٹیول کراچی میں ہوتا ہے اور قدرتی طور پراس پر زیاد ہ حق بھی اس شہر والوں کا ہے ۔ 

دوسری بات یہ کہ جو لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں، پہلے وہ اپنے گریبان میں جھانکیں۔ کیا اُن کے اپنے شہروں میں ہونے والے میلوں میں اُنھیں اتنی بھی جگہ دی جاتی ہے۔‘‘ ان کا اشارہ لاہور لٹریچر فیسٹیول اور دیگر ادبی اجتماعات کی جانب تھا، جہاں مخصوص طبقات کی اجارہ داری تھی۔ یہاں تک کہ پنجاب کے اہم اور باصلاحیت ادیبوں کو نظر انداز کردیا جاتا تھا۔ جب اپنے گھر والے ہی نظر انداز کررہے ہوں تو دوسرے گھر سے شکوہ، چہ معنی ؟فن و ثقافت کا مرکز لاہور سے کراچی منتقل ہورہا تھا۔ ’’نقوش‘‘ ، ’’اوراق‘‘، ’’فنون‘‘ جیسے اعلیٰ ادبی رسائل بند ہو چُکے تھے، ’’سویرا‘‘ کا دَم غنیمت تھا۔ کراچی سے ’’آج‘‘، ’’دنیا زاد‘‘، ’’مکالمہ‘‘، ’’کولاژ‘‘، ’’اجرا‘‘ اور دیگر معیاری پرچےنکل رہے تھے۔ 

فلمی صنعت اِدھر منتقل ہورہی تھی اور کراچی میں لاہور کی نسبت زیادہ فلمیں بن رہی تھیں۔ اہم ٹی وی چینلز کے صدر دفاتر کراچی میں تھے، ٹی وی ڈرامے کے پروڈکشن ہاؤسز زیادہ ترکراچی میں تھے، کراچی آرٹس کائونسل اور ناپا میں اعلیٰ اسٹیج ڈرامے تیار کیےجارہے تھے اورفنون کے خریدار ادھر زیادہ تھے۔ بعض احباب اس کی توجیہ یہ پیش کرتے تھے کہ یہ سب اس لیے ہورہا تھا کہ کراچی پاکستان کا صنعتی مرکز ہے اور زیادہ اسپانسر اور سرمایہ دار اِدھر موجود ہیں۔ جب ان سے عرض کیا جاتا کہ کراچی تو گزشتہ ستّر برس سے کاروباری مرکز ہے مگر ادبی، فلمی، اخباری اور دیگر فنون کا مرکز تو پھر بھی لاہور رہا ہے تو وہ لاجواب ہوجاتے۔ 

وہ اس حقیقت کو ہضم کرنے میں تامل کامظاہرہ کرتے کہ لاہور کے لوگوں کا مزاج تبدیل ہوگیا ہے اور فنون کے پہلے سے شایق وہاں نہیں رہے۔ ایک اور امر دل شکن تھا کہ جب اُدھر سے ادیب اور فن کار اِدھر آتے تو گروہ بندیوں کے شکار ہوتے۔ ہر دوسرا ادیب چوتھے ادیب کےلیے دل میں مخاصمت کا جذبہ رکھتا اور ہردوسرا کسی بات پرتیسرے سے یا تو ناراض ہوتایااُس کی زیادہ پذیرائی پر نالاں۔ یہ بات مجھے لاہور سےکراچی منتقل ہوجانےکے بعدلاہورمیں زیادہ واضح نظر آنے لگی تھی۔ ایسے معاندانہ جذبات کراچی میں بھی تھے، مگر یہاں کے تخلیق کاروں میں رواداری زیادہ تھی۔ (جاری ہے)