• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھیرے ،آہستہ نہیں بلکہ برق رفتاری سے ملک ڈاکووٴں کے رحم و کرم پر ٹرانسفر ہو رہا ہے ۔سو شل ،الیکٹرانک میڈیا سمیت ہر محفل میں آج کل سب سے زیادہ اٹھایا جانے والا سوال یہ ہے۔ تو پھر ہم کیا کریں؟ سندھ میں ڈاکو راج پہلے کچے کے علاقے تک تھا مگر اب شاہراہوں سے پوری کی پوری بسیں اغوا ہو رہی ہیں۔مغوی زیادہ تر پنجابی ہیں لیکن پنجاب کی اشرافیہ سیاسی اور شخصی وجوہات کی بنا پر احتجاج نہیں کرتی ۔بلوچستان سے نائی ،موچی ، ترکھان ، درزی، پتھر توڑنے والے پیشوں کے غریب پنجابی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ تو اب خبر بھی نہیں رہی ۔ ڈاکو راج فلموں سے نکل کر پانچ دریاوٴں کے درمیان کس طرح پھل پھول رہا ہے اس کی ایک جھلک مجھے گجرات کے گاوٴں ککرالی میں دیکھنے کو ملی۔ 1998ء میں میرے ایک عزیز کھاریاں کینٹ کے انچارج جنرل تھے میں نے انہیں فون کیا ککرالی کی ایک لیڈی ڈاکٹر کے ہاں فاتحہ کے لئے جانا ہے۔ ان کی رہنمائی اور مدد سے تین بجے کے قریب گاوٴں میں پہنچا۔ لوگوں نے تیز رفتاری سے فاتحہ کی اور چائے میرے سامنے رکھی پھر خود ہی مجھے خدا حافظ کہنے لگے۔ میں اس طرز میزبانی پر حیران ہوا۔ گاوٴں والوں نے میری حیرانی دیکھ کر کہا کہ اگر آپ چار بجے تک نکل جائیں تو ٹھیک ،ورنہ سڑک پر تھڑا لگ جائے گا ۔ تھڑا انگریزی زبان کی اصطلاح میں (way-lay)کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ سڑک پر ڈاکو ناکہ لگا لیں گے۔
آج پولیس ڈکیتی کا پرچہ درج کرنے کو محکمانہ موت کا پروانہ سمجھتی ہے۔اس لئے گن پوائنٹ پر نقدی ،پرس، موٹر سائیکل وغیرہ چھیننے کو ہلکا پھلکا جرم یا ”اسٹریٹ کرائم“ کہہ کر پھینک دیتی ہے ۔حالانکہ اسلامی شریعت میں مسلح ڈکیتی کے مجرم کے ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاوٴں کاٹنے کی سزا موجود ہے۔ آئیے پیچھے چلتے ہیں۔ 1985ء میں نہیں اس سے ایک صدی پہلے1885ء میں ہند کی سول سروس کے سرمائیکل فرانسس او 'ڈوائر کی پہلی تقرری ضلع شاہ پور (موجودہ سرگودھا )میں ہوئی ۔ 1896ء میں وہ پنجاب کا ڈائریکٹر لینڈ بنا ۔1901ء سے 1908ء تک نئے صوبےNWFPکو سنبھالا ،1912ء میں پنجاب کا گورنر بنا ۔اس کی سیاہ ترین کار گزاری سانحہ جلیانوالہ باغ ہے۔ مگر اس نے متحدہ پنجاب کے ڈاکو راج کا خاتمہ کر دیا۔ کس طریقے سے خاتمہ کیا ؟تقریروں سے؟ وعدوں سے؟ دعووٴں سے؟ یا یک سُو ایکشن اور پلاننگ کے ذریعے۔ آئیے یہ کہانی متحدہ پنجاب کے آخری گورنر کے الفاظ میں پڑھتے ہیں ۔ اپنی خود نوشت ہندوستان ۔ جیسا میں نے جانا۔کے باب 16میں ”برطانوی سروس کی کمزوری“ کے عنوان سے صفحہ 176تا 177فرنگی گورنر لکھتا ہے ” پنجاب میں بے خوف، خطرناک مسلح گروپ ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث تھے۔ مزاحمت پر قتل بھی کر دیا جاتا تھا۔ پنجاب میں ایسی وارداتوں کی تعداد عوام کے محفوظ یا غیر محفوظ ہونے کا پیمانہ بن گئی۔ کامیاب وارداتیں پُرامن عوام کے اندر خو ف کی لہر دوڑا دیتی تھیں۔ کامیاب ڈاکے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی کرتے اور ڈاکووٴں کے نئے تازہ دم گروہ وجود میں آجاتے۔ برائی پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ پو لیس اور علاقے کے عوام آپس میں تعاون کریں جنہیں ڈاکووٴں نے نشانہ بنا رکھا ہو ۔ یہ تعاون ڈاکے کی واردات کے دوران یا بعد میں تعاون کرنے والے لو گوں کی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے کیونکہ ڈاکو انتقام پر اتر آتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ تعاون کرنے والوں کو فوری اور فیاضانہ انعامات سے نوازا جائے ، ان کی حوصلہ افزائی ہو اور ڈاکے کی واردات کے دوران یا بعد میں وہ دبک کر نہ بیٹھے رہیں۔
1915-16 ء میں، میں نے صوبے کے مختلف 13 دیہات کے محصولات میں دس ہزار روپے کی چھوٹ دی ۔ دس اضلاع سے تعلق رکھنے والے ان ایک سو بائیس لوگوں کو چار ہزارایکڑ زرخیز نہری زمین انعام میں دی جنہوں نے عوام کی خاطر ڈاکووٴں کے مسلح جتھوں کا مقابلہ کیا، ان کے گرد گھیرا ڈالا اور پو لیس نے موقع پر پہنچ کر انہیں گرفتار کر لیا۔ اسی نوعیت کی خدمات کے عوض کئی سو لوگوں کے درمیان 29,000روپے فی کس تقسیم کئے ۔ پولیس یا عوام میں سے جن لو گوں نے امن و امان کی بحالی کی خاطر اپنی زندگیاں نچھاور کر دیں ان کے پسماندگان کیلئے مستقل وظائف لگائے۔ ڈاکووٴں کے جتھوں کے خلاف عوام کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ اس پالیسی پر میں اپنے آخری ایام تک قائم رہا اور اس نے بہترین نتائج دئیے“۔ آج ایک پنجاب کاکیا ذکر پورے ملک میں ہی عملی طور پر ڈاکو راج کرتے ہیں۔ بھتہ خوروں نے ریاست کے اندر اپنا خزانہ اور جگّا ٹیکس کی وصولی کا متبادل نظام بنا لیا ہے جو ہمارے ایکسائز ، پراپرٹی ، جائیداد اور انکم جیسے ٹیکس جمع کرنے والوں سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ عملی طور پر یوں لگتا ہے کہ ایک سو ایک سال پہلے والا پنجاب ایسا تھا جس پر عوام کی رٹ قائم تھی۔فرنگی ہماری سرزمین پر ناجائزقابض ہوا اس کے باوجود صرف اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کیلئے امن و امان قائم رکھتا تھا۔ آج ہم ہیں اور یہ ماں دھرتی۔ ہمارا موجودہ نظام ہے کیا؟ جو اسے اُجاڑنے والے چند ہزار کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔ اسی لئے آل ”ٹی پارٹی کانفرنس“ ہو یا کراچی کے ری میک اپ کیلئے ”کاسمیٹک آپریشن“ میٹنگ، بڑے سے بڑا سرکاری اہلکار، عہدیدار ، تپّے دار یہی پوچھتا پھرتا ہے حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ پھر ہم کیا کریں؟
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ قوموں، معاشروں اور ملکوں کے معاملات درست کرنے کے لئے نہ کوئی سپرمین، نہ اسپائیڈرمین اور نہ ہی ریمبو اکیلا کچھ کر سکتا ہے۔ نہ ہی کسی دوسرے نام سے ون مین شو اس طرح کے چیلنجز سے نمٹ سکتا ہے۔ پنجاب اور ملک بھر کے دیہاتی سماج کو اس کی اصل روایت پر ڈالنا ہو گا۔ یہ روایت اجتماعی تحفظ اور اکٹھے جینے مرنے کے تصور میں رچی بسی ہے۔ جس کے اندر ٹھیکری پہرہ، چوکیدارہ نظام، نمبردار، ذیلدار، انعام خور اور سر پنچ پھر سے تیار کرنے ہوں گے۔ اگر بیس کروڑ لوگ اپنی گلی ،محلے، گاؤں، کوچے، قریئے اور شہر کے حفاظتی حصار کی اصل دیوار بن جائیں تو پھر اس قدرتی دیوارِ چین کو کوئی پار نہیں کر سکتا۔وقت آ گیا ہے کہ ہم تضادات سے باہر نکل کر اجتماعی سوچ کا سفر شروع کریں۔ زندہ قومیں مستقبل میں جی رہی ہیں۔ ہم ماضیِ مرحوم کا امن و امان، ماضی کی جی ٹی ایس ٹرانسپورٹ، ماضی کے اسکول استاد، ماضی کے اسپتال اور ڈاکٹر، ماضی کی پولیس اور جج ڈھونڈ رہے ہیں، ماضی جیسے دال چاول اور آٹے چینی کا بھاؤتلاش کر رہے ہیں۔ اگر سوال یہی ہے کہ ہمارا بوسیدہ نظام جو استعمار کا لاشہ ہے ہم سے درست نہیں ہو سکتا ، تو اس کا جواب ہو گا ”اِرحل“ GET OUT۔
کیا ہیں؟ ایک تماشہ کہئے
استعمار کا لاشہ کہئے
گہہ تولہ گہہ ماشہ کہئے
کھوٹے سکّے جھوٹے مول
بول وطن کے ماضی بول
تازہ ترین