• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹارگٹڈ آپریشن یا ایکشن،جو بھی کہیں، شروع تو آپ نے کر دیا۔غورو فکر ،منصوبہ بندی لگتا نہیں کہ کی گئی اور رینجرز کو یہ ذمہ داری سوچ سمجھ کر سونپی گئی ہے؟اس پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ اسی ادارے کے سربراہ نے ابھی حال ہی میں انیس ہزار کنٹینر غائب ہونے ، کھولے جانے اور ان میں سے اسلحہ نکال کر استعمال کرنے کا ’انکشاف‘ کیا تھا پھر کہا کہ انہوں نے کسی وزیر کا نام نہیں لیا تھا اور سنا ہے اب وہ کہتے ہیں ایسی کوئی بات انہوں نے کی ہی نہیں۔ یہ ان کی قسمت کہ عدالت نے ان کا یہ بیان اپنے ایک حکم میں شامل کرلیا۔ یہ سوال بھی ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے کہ کیا پولیس ناکام ہوگئی؟اگر ایسا ہی ہے تو اس محکمے کو بند کیوں نہیں کیا جا سکتا؟سامنے کی بات ہے جو ادارہ اپنے فرائض ادا نہ کرتا ہو،نہ کر پائے، اس کے باقی رکھنے کا جواز تلاش ہی کیوں کیا جائے ۔ پولیس پر خرچ کئے جانے والے اربوں روپے بھی رینجرز کو دے دیں،جو کام کرے حق اس کا بنتا ہے !!
مگر کیا واقعی رینجرز کراچی میں امن و امان بحال کر دیں گے؟جو ایسا سمجھتے ہیں انہیں کراچی کے حالات کا صحیح ادراک نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو جو کچھ یاد ہے وہ 1994-96 میں ہونے والا آپریشن ہے۔ یہ رینجرز نے کیا تھا۔ نصیر اللہ بابر اس کے نگراں تھے۔اس سے زیادہ کچھ یاد ہے؟ یاد کرایا جا سکتا ہے۔ وہ کراچی کا بدترین دور تھا۔ 95 کے وسط میں ایک ماہ میں ساڑھے تین سو سے زیادہ لوگ ہلاک کئے گئے۔ اس ماہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں، ہر ماہ ہوتی تھیں۔ ان میں سے اکثریت ماورائے عدالت قتل کئے گئے تھے، نام نہاد پولیس مقابلوں میں۔ یہ سنی سنائی نہیں ہے، آنکھوں دیکھی ہے۔ تحقیق کی جاتی تھی، جائے واردات پہ جاتے تھے۔ محمود آباد کے قریب ایک لڑکے کو قتل کر کے جس گھر کی چھت سے نیچے پھینک دیا گیا تھا وہ قریب کے ایک مدرسے کی ملکیت تھا۔ گزشتہ رات کا واقعہ تھا، اگلے دن محلے والوں کا خوف کم ہو چکا تھا، بات کر سکتے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے نے لوگوں کو اپنے گھروں میں بند رہنے کی ہدایت کی اور پھر اس لڑکے کو قتل کردیا۔ ایک اور لڑکے کو رات کو جیل سے نکالا گیا،بالکل قانونی طریقے سے، وہ دستاویز اب تک موجود ہیں۔ وہ وہاں عدالتی ریمانڈ پر تھا۔ صبح پولیس مقابلے میں اسے ہلاک کر دیا گیا۔ایسے بہت سے معاملات ہوئے۔ہر بار یہ کہا گیا کہ ملزم کے ساتھی اسے چھڑانے آئے تھے،پولیس سے مقابلہ ہوا اور فائرنگ کے نتیجے میں وہ ملزم ہلاک ہو گیا۔پہلے والا تو چھت سے گرایا گیا۔دوسرا ناظم آباد نمبر4 میں ایک تین منزلہ مکان کی دوسری منزل پر ہلاک کیا گیا۔چند اخبارنویس جب وہاں پہنچے تو واردات ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا، سارا خون ابھی جما نہیں تھا۔خون سے باہر پڑے گولیوں کے خول اب بھی موجود ہیں۔ جس گلی میں یہ ’پولیس مقابلہ‘ ہوا اس میں ایک ساتھ دو گاڑیاں کھڑی کی جا سکتی ہیں۔ سامنے والے گھر کے باہر ایک ہائی روف سوزوکی کھڑی تھی۔ملزم کو چھڑانے کی کوشش کرنے والے کدھر سے آئے؟ پولیس کی موجودگی میں اس چھوٹے سے مکان کی پہلی منزل تک کیسے گئے؟ پولیس مقابلے میں صرف یہ ملزم ہی کیوں مارا گیا؟
اس زمانے میں جتنی بھی ماورائے عدالت ہلاکتیں ہوئیں سب کے بارے میں یہ سوال پوچھے جا سکتے ہیں، پوچھے بھی گئے تھے،ایک بار نہیں بار بار۔ نصیر اللہ بابر، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، متفق نہیں ہوتے تھے، دفاع کرتے تھے۔ان کے خیال میں جرائم پیشہ لوگوں کا بس یہی ایک حل تھا۔ یہ سوال ہمیشہ ان سے کیا گیا کہ یہ طے کون کرے گا کہ فلاں جرائم پیشہ ہے۔یہ تو عدالت کا کام ہے۔بحث ان سے ہمیشہ ہوتی رہی۔برا انہوں نے کبھی نہیں منایا،ماورائے عدالت قتل انہوں نے روکے نہیں۔ رحمن ملک بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وہ ایف ائی اے کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل تھے۔اس آپریشن میں کئی سو لوگ مارے گئے۔گناہ گار،ان کا گناہ ثابت کئے بغیر ،اور بے گناہ جن کا خون رزقِ خاک ہوا۔ یہ آپریشن ایک المیہ پر ختم ہوا ۔وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو خاندانی رہائش گاہ70 کلفٹن سے چند سو گز دور ، سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے، موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ان کے ساتھ سات آٹھ لوگ اور بھی مارے گئے۔ پندرہ سال ہو گئے آج تک اس قتل کا سراغ نہ ملا۔آصف زرداری بھی ایک ملزم تھے،کئی اعلیٰ و ادنیٰ پولیس افسران بھی ۔ان میں سے کئی ملازمت پوری کرنے کے بعد بھی اچھے عہدوں پر رہے۔چند ایک اب بھی ہیں۔ عام لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے مارتے رہے تھے، مرتضیٰ بھی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے۔ صدر غلام اسحاق خان نے اسی بہانے بے نظیر کی حکومت بر طرف کردی۔ صدارتی حکم نامے میں برطرفی کی وجوہات درج تھیں۔ پہلی وجہ ماورائے عدالت ہلاکتیں تھیں۔بے نظیر تو بحیثیت وزیر ِ اعظم اس گناہ کی ذمہ دار ٹھہرائی گئیں،جن کے ہاتھوں لوگ مارے گئے انہیں کس عدالت کے سامنے پیش کیا گیا؟
کچھ افسران ہیں، اعلیٰ افسران ، نجی گفتگو میں انکشاف کرتے ہیں رینجرز والے لوگوں کو مار کر لاشیں پولیس کے حوالے کر دیتے تھے۔ گالیاں پولیس کو پڑتی تھیں، یقینا کچھ پولیس والے بھی ان کارروائیوں میں شریک رہے ہیں۔ رینجرز کے اس آپریشن نے کیا کراچی کا مسئلہ حل کر دیا؟ اس کا جواب آج کے حالات ہیں۔ اس کے برعکس اپنے پیچھے وہ انتقام کی ایسی آگ بھڑکا کر گیاکہ آپریشن میں شریک دو سو کے قریب پولیس اہلکار اب تک ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ان کا کوئی قصور نہ تھا۔قصور تو ان کے افسران کا تھا،بھگتا اِنہوں نے۔اور اب ایک بار پھر کراچی میں رینجرز کو آپریشن کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔کیا صاحبان اقتدار عقل و دانش سے بالکل محروم ہوتے ہیں؟انہیں اندازہ ہے کہ کراچی میں رینجرز ہمیشہ دوسرے صوبوں سے آتے ہیں۔ان میں کتنے کراچی کے جغرافیہ سے واقف ہوتے ہوں گے؟اس کے گلی کوچوں سے آشنا ہوں گے؟یہ کام پولیس سے لیا جانا چاہئے تھا۔مگر پولیس پر اتنا سیاسی دباؤہوتا ہے کہ از خود وہ کوئی کام نہیں کر سکتی۔ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ کواپنی بپتا کھلے بندوں سنائی۔ اسے کبھی کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ایسے اور بھی کئی افسر ہیں۔ ان کی پوسٹنگ چند ماہ رہتی ہے۔ عادتیں ان کی وہی ہیں جو اچھے افسروں کی ہوتی ہیں۔ کسی کی سنتے نہیں لہٰذا ہر بارتبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اعتبار کیا جا سکتا ہے، ان سے کام لیا جا سکتا ہے۔ یوں بھی بالآخر یہ کام، یہ ذمہ داری ہے تو پولیس کی۔ اب بھی، آج بھی، آج تک، ملزمان کو عدالت میں پیش کرنا اور مقدمہ لڑنا،پولیس ہی کو ذمہ داری ہے ۔تو جو پولیس ملزمان کو گرفتار نہیں کر سکتی،اتنی نااہل ہے،وہ عدالت میں جرم کیسے ثابت کرے گی؟ رینجرز تو صرف ملزم پولیس کے حوالے کریں گے، ثبوت اکٹھے کرنا، اور عدالت میں ثابت کرنا، اب تک مشکل کام رہا، آئندہ بھی مشکل رہے گا۔انسداد دہشت گردی کی مزید عدالتیں آپ بنا لیں، سزا بھی دلوالیں۔ اعلیٰ عدلیہ تو موجود ہے۔ وہ تو دیکھے گی کہ سزا صحیح ہوئی ہے یا نہیں۔ نواز شریف کو بھی تو ایسی ہی ایک عدالت سے سزا سنائی گئی تھی،کیا وہ درست تھی؟
رینجرز نے اگر چند یا چند سو مجرم پکڑ بھی لئے تو کیا کراچی میں ہمیشہ کے لئے امن ہو جائے گا؟ ممکن نہیں ہے۔ تھوڑا وقت گزرے گا، رینجرز واپس چلی جائے گی،جرائم پیشہ پھر آہستہ آہستہ اپنا سر اٹھانے لگیں گے اور شہر آج کی طرح کل پھر لہولہان ہوگا۔ اس کا تدارک کریں، مستقل حل تلاش کریں۔ آپ نے اب ٹارگٹڈ آپریشن یا ایکشن کا اختیار رینجرز کو دے ہی دیا ہے تو کچھ وقت آپ کو شاید اس طرح مل جائے، اس کا فائدہ اٹھائیں۔ اس دوران وہ بنیادی خرابیاں دور کرنے پر توجہ دیں جو ان مسائل کو جنم دیتی ہیں۔اس وقت بات صرف ادارے کی ہے۔پولیس کو مستحکم کریں،سیاسی دباؤ سے اسے بالکل آزاد کریں،یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کئی قوانین تو بنے ہوئے ہیں جن میں پولیس کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے،کچھ اور بنائے جا سکتے ہیں۔پولیس کے ڈھانچے کو مقامی رنگ دیں،بااختیار بنائیں اور احتساب کا کڑا نظام۔ ادارہ مستحکم ہوگا تو پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے، باقی لیپا پوتی ہے۔
تازہ ترین