• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملکی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے 65 والے جذبے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 65والا جذبہ اب آپ لائیں گے کہاں سے؟ فوج میں تو کسی حد تک آج بھی وہ جذبہ موجود ہے مگر عوام میں اب ایسا کوئی جذبہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اس کے ذمہ دار وہ کرپٹ حکمران ہیں جنہوں نے 65ء کی جنگ کے بعد اس ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا، لوگوں کے جذبوں کو ٹھنڈا کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا اور پھر ہمیں 1971ء میں جو تاریخ ساز شکست ہوئی وہ ایک لمبی داستان ہے۔
جذبے تب زندہ و تابندہ رہتے ہیں جب ان جذبوں کو زندہ رکھنے والوں کے اپنے جذبے بھی زندہ ہوں اور وہ مخلص ہوں۔ کوئی صوبائی یا وفاقی حکومت یہ تو بتائے کہ اس نے 65ء کے ہیروز کے ساتھ کتنی شامیں منائیں۔ فلم سٹاروں، انڈیا کے اداکاروں، گانے والوں اور گانے والیوں کے ساتھ تو ہر فائیو سٹار ہوٹل میں رنگا رنگ محفلیں جمائی جاتی ہیں ذرا یہ تو بتائیں اس 6ستمبر کو کس جگہ کوئی بڑی سرکاری تقریب ہوئی جہاں پر 65ء کے ہیروز کو بلایا گیا؟ یا کوئی حکومتی نمائندہ، وزیر اعلیٰ، کوئی وزیر حتیٰ کہ واہگہ بارڈر کے علاقے کے کسی ایم پی اے اور ایم این اے نے یہ تکلیف گوارہ کی کہ وہ 65ء کے شہداء کی یادگاروں پر پھولوں کی چار بتیاں ہی رکھ آئے۔
ہمیں یاد ہے کہ 65ء کی جنگ کے کئی برس بعد تک یوم دفاع اس شان و شوکت سے منایا جاتا تھا کہ لوگوں کے جذبے جوان ہو جاتے تھے۔ پھر حکومت نے 6ستمبر کی تعطیل ختم کر دی۔ جب تک واہگہ بارڈر کے علاقے کمرشل نہیں ہوئے تھے اور دور سے شہداء کی یادگاریں نظر آیا کرتی تھیں تو لوگ 6 ستمبر کو ٹولیوں کی شکل میں شہداء کی یادگاروں پر جا کر پھولوں کی چادریں چڑھایا کرتے تھے۔ 7ستمبر کو یوم فضائیہ منایا جاتا تھا، اسلحہ کی نمائش ہوتی تھی ۔ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو لاہور کے عوام ڈنڈے اور بعض گنیں اٹھائے واہگہ بارڈر پر پہنچ گئے تھے۔ یہ تھا جذبہ جو اب نظر نہیں آتا۔ حکمران عوام سے تو ہر جذبے کی توقع کرتے ہیں لیکن خود ہر جذبے سے عاری رہتے ہیں۔ ملکی چیلنجوں کا مقابلہ کرنا صرف بھوکی ننگی عوام کا کام ہے کرپشن کرنے والے حکمرانوں کا نہیں۔ وزیر اعظم کے ہر اجلاس میں ان کے ایک وزیر جس متکبرانہ انداز میں بیٹھے ہوتے ہیں ان کا یہ انداز وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو نظر نہیں آتا۔ جذبے حکمران اور لیڈر پیدا کیا کرتے ہیں۔ ورلڈ کپ کرکٹ ٹیم نے اس لئے جیتا تھا کہ عمران خان نے ٹیم میں جذبہ پیدا کیا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے اندر جذبہ قائد اعظم اور علامہ اقبال نے پیدا کیا تھا جذبے لیڈر پیدا کیا کرتے ہیں۔ آج اوپر سے نیچے تک کرپشن ہی کرپشن ہے تو جذبہ کہاں سے لائیں گے؟ ہاں البتہ کرپشن کا جذبہ اب کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ جاتے جاتے سابق صدر زرداری نے نواز شریف کی تعریف کر کے لوگوں کو حیران کر دیا۔ اب پتہ نہیں اس کے پیچھے کیا ہے۔ ہم نے آج ایم ایم عالم کو بھلا دیا، ہم میجر شفقت بلوچ کو بھول گئے۔ ہم فلائٹ لیفٹیننٹ یونس کو بھول چکے ہیں ۔ ہمیں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ایم ایم عالم روڈ پر اس ہیرو کی تاریخ لکھ دیتے جس نے دنیا کی فضائیہ کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔بڑے میاں صاحب اور چھوٹے میاں صاحب آپ نے تو 1965ء کی جنگ بہت ہوش اور جوانی میں دیکھی ہے۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ 65 ء کی جنگ میں حصہ لینے والے جو چند ایک سپاہی اور ہیروز زندہ رہ گئے ہیں ان کو تلاش کریں اور ان کے ساتھ شامیں منائیں۔ ان کے کارنامے لوگوں کو بتائیں ۔ زرداری صاحب کا یہ بیان کہ کشمیر لے کر رہیں گے، پڑھ کر صرف ہنسی آئی۔ کشمیر کو لینے کے لئے آپ نے اب تک کیا کیا تھا؟ پی پی کئی مرتبہ اقتدار میں آئی کیا ا س نے کشمیر حاصل کرنے کے کچھ کیا؟ آج ملک کو سب سے بڑا چیلنج کرپشن کا ہے اس کے خلاف 65ء کا جذبہ لائیں۔ آپ نے کرپشن ختم کردی تو باقی تمام چیلنجز کا مقابلہ بھی کر لیں گے اور فتح بھی حاصل کر لیں گے۔ جو قومیں اپنے ہیروز کو بھول جاتی ہیں تاریخ ان قوموں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہے۔ افسوس صد افسوس کسی تعلیمی ادارے نے 6ستمبر کو کوئی قابل ذکر تقریب منعقد نہیں کی۔ ہم تو اپنی قومی زبان کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدتر سلوک کر رہے ہیں قومی ہیروز کی بات ہی چھوڑیں۔ آج ہر سرکاری محکمے میں خط و کتابت انگریزی میں ہو رہی ہے؟ کیا ہم نے اپنی اندرونی خط و کتابت امریکہ بہادر یا انگریز بہادر کو پیش کرنی ہے؟ اور تو اور پنجاب یونیورسٹی نے بھی اردو دشمنی کی پالیسی شروع کر رکھی ہے۔ تمام تھیسز انگریزی زبان میں لکھنے کی پابندی ہے۔ ارے بھائی آپ نے کسی سائنسی مضمون یا جو کوئی تھیسز جو بیرون ملک بھیجنا ہے اس کو انگریزی میں کرا لو باقی کی کیا ضرورت ہے؟ کیا شعبہ ابلاغیات کے تمام تھیسز یو کے اور امریکہ جاتے ہیں؟ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران بڑا درد دل رکھنے والے انسان ہیں وہ اگر برا نہ منائیں تو یہ بتا دیں کہ شعبہ ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی کے کتنے تھیسز آج تک انگلستان، امریکہ اور دیگر ممالک میں وہاں کے لوگوں کو بھیجے گئے اور پھر ان کی رپورٹ پر آپ نے اپنے کتنے سٹوڈنٹس کو ڈگری جاری کی۔ امریکہ اور انگلستان کی کتنی یونیورسٹیوں کے تھیسز آپ کے ہاں آتے ہیں اس پر روشنی ڈال دیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران ہمارے 34 سال سے دوست ہیں اور انہیں بورڈ آف سٹڈیز کے معاملات میں ان مسائل پر بات کرنی چاہئے۔ اپنی زبان کو گھٹیا نہ کریں۔ اردو زبان کی ترقی کے لئے بھارت میں پاکستان سے زیادہ کام ہو رہا ہے۔ ایک مراٹھی گلوکارہ لتا نے اردو زبان سیکھ کر اس میں گانے گا کر پوری دنیا میں نام کمایا ہے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری انگریزی نہیں صرف اور صرف اردو کی وجہ سے پوری دنیا میں جانی گئی اور پھر لوگوں کو پتہ چلا کہ وہاں پر کئی اور زبانوں میں بھی فلمیں بنتی ہیں۔ خادم پنجاب سرکاری دفاتر میں اردو کو رائج کریں۔ یہ قائد اعظم کا فرمان بھی تھا”میں اردو کی خدمت کو قوم کی خدمت سمجھتا ہوں“ (1947)
شعبہ صحت کی ذرا بات ہو جائے۔ چند روز قبل رات کو بارہ بجے ایک بچے کی طبیعت زیادہ بگڑنے پر اس کو ایک پرائیویٹ ہسپتال لے جایا گیا۔ ایمرجنسی پر موجود ڈاکٹر نے کہا کہ ہمارے پاس وینٹی لیٹر نہیں ہے کہیں اور لے جاؤ ۔ اس بچے کو ایمرجنسی کور نہ دیا۔ ایک اور پرائیویٹ ہسپتال لے جایا گیا انہوں نے بھی مریض بچے کو لینے سے انکار کر دیا آخر اس بچے کو سروسز ہسپتال لایا گیا۔ انہوں نے بچے کو داخل تو کر لیا مگر وینٹی لیٹر کم ہونے کی صورت میں بچے کو غبارے کے ذریعے سانس دینے کی کوشش کی گئی۔ خیر وہ بچہ بچ گیا۔ اس وقت تمام پرائیویٹ ہسپتال اور سرکاری ہسپتال رات کو ہاؤس آفیسرز کے رحم و کرم پر چل رہے ہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب ، سیکرٹری صحت اور پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے لوگ کبھی رات کو جا کر تو دیکھیں کہ سرکاری اور پرائیویٹ دونوں ہسپتالوں میں کیا ہو رہا ہے؟ بھولے لوگواپنے دلوں سے اس بات کو اڑا دو کہ کبھی اس ملک کے حالات بہتر ہوں گے؟ اور کبھی مریضوں کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ ہو گا۔ جتنے مرضی کمیشن، محکمے، انسپکشن ٹیمیں بنا دیں کچھ نہیں ہو گا۔ محکمہ صحت ، ڈاکٹرز اور پروفیسرز بالکل ٹھیک ہو سکتے ہیں اگر جذبہ ہو۔ دوسرے ہمارے بعض دوست ناراض ہو جاتے ہیں کہ تم ڈاکٹروں کے خلاف لکھتے ہو۔ میں تو صرف دو نمبر ڈاکٹروں کے خلاف لکھتا ہوں۔ اب ناراض ہونے والے ڈاکٹرز خود فیصلہ کر لیں کہ وہ ایک نمبر ہیں یا دو نمبر۔ یقین کریں شعبہ صحت کے بارے میں بہت کچھ لکھنے کو دل کرتا ہے اور ہمارے پاس بہت کچھ ہے مگر جگہ کی کمی آڑے آ جاتی ہے۔
تازہ ترین