• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی جو نیٹو کی فوجی قوت کے لحاظ سے امریکہ کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے، یورپی یونین کی مستقل رکنیت کا بھی امیدوارہے جب کہ اس کےروس اور یوکرین دونوں ملکوں کے ساتھ بڑے گہرے اور قریبی تعلقات ہیں۔ اس وقت تک صدر ایردوان روسی لیڈر پیوٹن سےکئی ملاقاتیں کرچکے ہیں، دونوں رہنمائوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ایک عام سی بات بن چکی ہےجبکہ صدر ایردوان کے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ بھی بڑے خوشگوار مراسم ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ صدر زیلنسکی نے یورپ کی جانب سے انہیں تنہا چھوڑجانے پر اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر بیان دیتے ہوئےدوست اور برادر ملک ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اور ترک عوام کا شکریہ ادا کیا تھا اور کہا تھا کہ یوکرینی عوام کبھی صدر ایردوان اور ترک عوام کی محبت اور چاہت کو فراموش نہیں کریں گے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے ترکی کی جانب سے روس کے جنگی بحری جہازوں کو آبنائے استنبول(Strait Bosphorus) اورآبنائے چناق قلعے (Strait Dardanelles)سے گزرنے کی اجازت نہ دینے اور یوکرین کی عسکری اور انسانی امداد کرنے پر بھی صدر ایردوان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ترکی نے بحیرہ اسود کے تمام ساحلی اور غیر ساحلی ممالک کو بھی اس راستے سے اپنے جنگی بحری جہاز نہ بھیجنے کے بارے خبردار کررکھا ہے۔ اس سلسلے میں ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے معاہدہ مونتریو (Montreux Convention) کےبارے میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا، اس معاہدے کے تحت ترکی کو جنگی حالات میں بحری جہازوں کو باسفورس اور ڈارڈینیلس سے گزرنے پر پابندی عائد کرنے کا حق حاصل ہے اور اس معاہدے پر جولائی 1936سے عمل کیا جا رہا ہے۔ اس وقت کم از کم چار روسی جنگی بحری جہاز بحیرہ اسود سے سے گزرنے کی اجازت کے حصول کے منتظر ہیں۔ حکومتِ ترکی نے اس سلسلے میں ان جنگی بحری جہازوں کوجنگ جاری رہنے تک گزرنے کی اجازت نہ دینے سے متعلق پہلے ہی حکومتِ روس کو آگاہ کردیا ہے۔ صدر ایردوان نے روس اور یوکرین کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے آغاز پر ہی اس مسئلے کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کے لیے صدر پیوٹن اور صدر زیلنسکی کے درمیان ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترکی کے لیے یوکرین اور روس میں سے کسی کو بھی چھوڑنا ممکن نہیں ہے۔ بعد میں صدر زیلنسکی نے ثالثی مذاکرات کے لیے جن مقامات کی نشاندہی کی تھی اس میں استنبول بھی شامل تھا لیکن روس کی جانب سے بیلاروس میں مذاکرات کرنے پر اصرار کی وجہ سے یہ مذاکرات یوکرین اور بیلا روس کی سرحد پر شروع ہوئےلیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ان مذاکرات کو کامیاب بنانا ہے تو یہ صدر ایردوان کی ثالثی ہی سے ممکن ہے۔

صدر ایردوان نےروس کے یوکرین پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے روسی حملوں کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور یوکرین کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہم یوکرین میں روس کے فوجی آپریشن کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ حملہ خطے کے امن و استحکام کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے‘‘۔ صدر ایردوان کے روسی صدر کے قریبی دوست ہونے کے باوجود دیے جانے والے بیانات اگرچہ ایردوان کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے اس بیان سے ثابت کردیا ہے کہ مظلوم عوام کی آواز بننے کے لیے دوستی کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔

ترکی کسی بھی صورت روس کو ناراض نہیں کرنا چاہتا، اسی لیے 25 فروری کو یورپی کونسل سے روس کی رکنیت ختم کرنے کے بارے میں ہونے والی رائے شماری میں ترکی غیر جانبدار رہا تھا۔ بعد میں ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترکی اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہا ں ہے۔ ترکی کے روس کیساتھ اتنے گہرے تعلقات ہیں کہ اس نے نیٹو کا رُکن ہونے کے باوجود روس سے دفاعی میزائل سسٹم ایس400 خریدرکھا ہے، اس خریداری کے بعد ترکی کے نیٹو ممالک کیساتھ تعلقات میں فیصلہ کُن تبدیلی رونما ہوئی تھی اور امریکہ نےترکی پر کئی پابندیاں عائد کردی تھیں اور ایف35 طیاروں کے مشترکہ منصوبے سے ترکی کو نکال دیا تھا۔اس لیے ترکی روس کے ساتھ اپنے تعلقات کسی بھی صورت دائو پر نہیں لگائے گا۔

اگر روس نے یوکرین پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تو اس کے واضح اثرات لازمی طور پر وسطی ایشیائی ترک جمہوریتوں پر بھی مرتب ہوں گے جن کے ترکی کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات ہیں بلکہ یہ تمام ممالک ترکی زبان( مختلف لہجے) بولنے والے ممالک ہی سمجھے جاتے ہیں روس کے زیادہ قریب آجائینگے اور ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں قازقستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس وقت ترکی کے یوکرین کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں، خاص طور پر دفاعی شعبے میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے گہرا تعاون کررہے ہیں۔ حکومت ترکی نے اس دوران یوکرین کو ایک سو عدد بائرایکتارٹی بی2 ڈرونز فروخت کیے ہیں اور یوکرین نے روس کے ساتھ جنگ میں ان ڈرونز کے ذریعے روسی فوجی دستوں کو اچھا خاصا نقصان بھی پہنچایا ہے اور اس وقت تک حکومتِ یوکرین کا روس کے خلاف استعمال کیا جانے والا یہ سب سے موثر ہتھیار سمجھا جا رہا ہے۔ ترکی کے یوکرین کو ڈرونز کی فروخت پر روس کو شدید غصہ ہے لیکن ترکی کا موقف ہے کہ وہ کسی بھی ملک کو اپنا فوجی سازو سامان فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس نے نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود روس سے ایس 400میزائل سسٹم خریدا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی کس طرح ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ رکوانے اور ثالثی کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔                    

تازہ ترین