گزشتہ برس، 3 دسمبر کی وہ خنک سہہ پہر مشکل سے بھولے گی۔ اچانک ٹیلی وژن کی سکرین پر، مضطرب ہجوم اور دھُواں اُٹھنے کے مناظر دکھائی دیے۔ کچھ ہی دیر میں یہ روح فرسا خبر ملی کہ ایک سری لنکن انجینئرپریانتھاکمارا کو توہینِ مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے بے دردی سے ہلاک کر دیا۔ راقم کا سیالکوٹ سے تعلق، سرکاری نوکری کے دوران، دومرتبہ اِس شہر میں تعیناتی اور یہاں کی برآمدی صنعت میں دلچسپی کی وجہ سے اب بھی اِس شہر سے تعلق قائم ہے۔ 1965 کی جنگ میں ہلال استقلال حاصل کرنے والے اِس منفرد شہر کے بزنس مین پڑھے لکھے، روشن خیال اور اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کے قائل ہیں۔ وہ پہلے بھی اپنے بل بوتے پر مختلف امتحانوں میں سرخرو رہے، مگر اِس دفعہ آزمائش زیادہ کٹھن تھی۔ یہ سانحہ برآمدات کے لیے کتنا نقصان دہ ہے، اُنہیں اِس کا مکمل ادراک تھا۔ فوری طور پر دس ایکسپورٹ کمپنیوں نے پریانتھا کمارا کی بیوہ کے لیے ایک لاکھ ڈالر جمع کیے۔ مرحوم سری لنکن شہری، سیالکوٹ کی فیکٹری Raj Co (راج کو) میں گزشتہ دس سال سے پروڈکشن انچارج تھا۔ کمپنی کے مالک اعجاز بھٹی نے اعلان کیا کہ پریانتھا کمارا کی تنخواہ، اُس کی بیوہ کو ریٹائرمنٹ کی عمر تک ادا ہوتی رہے گی۔
پاکستانی اور عالمی میڈیا میں اِس سانحہ کا تذکرہ، سماج میں بڑھتی ہوئی دراڑوں اور معاشرتی رویے میں تبدیلی کے حوالے سے ہوا، مگر قارئین کے فہم کے لیے، ملک کی معاش پر اِس کے بُرے اثرات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ راقم اِس مسئلے سے آشنا ہے کیونکہ سرکاری نوکری کے دوران ترکی کے ساتھ تجارتی تعلقات، کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن، ایکسپورٹ پروموشن بیورو، سیکرٹری ٹیکسٹائل انڈسٹری اور پھر اڑھائی سال سیکرٹری تجارت کی حیثیت میں پاکستانی برآمدات کے فروغ سے منسلک رہا۔ انٹرنیشنل ٹریڈ میں کسی ملک کا مجموعی تاثر بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وضاحت کے لیے، عرض ہے کہ جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر زمین بوس ہوا تو کئی پاکستانی برآمد کنندگان کو امریکی خریداروں کے ای۔میل پیغامات موصول ہوئے۔امریکی خبردار کر رہے تھے کہ اگر اِس حملے میں پاکستان کا کوئی شہری ملوث ہوا تو برآمدات کے آرڈر منسوخ تصور کئے جائیں۔ چند دن پاکستانی تاجروں پر بہت بھاری گزرے۔ وہ سانس روک کر انتظار کرتے رہے۔ تیار شدہ برآمدی سامان ضائع ہونے کا خدشہ تھا۔ میں نے ایک ایکسپورٹر سے پوچھا کہ امریکی وارننگ پر آپ کا کیا ردِ عمل تھا؟ جواب ملا ’’جائے نماز بچھا ئی، تسبیح ہاتھ میں لی دُعا کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا‘‘۔
دُوسرا واقعہ سیالکوٹ میں دو بھائیوں کی ہلاکت سے متعلق ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک بے قابو ہجوم کے انصاف کی فلم دُنیا بھر میں دیکھی گئی۔ سیالکوٹ کے ایک ایکسپورٹر سہیل برلاس نے بتایا کہ اُسے امریکی خریدار نے فون کیا جو چالیس سال پہلے امریکی یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانے سے اُسے جانتا تھا۔ اُس کا کہنا تھا ’’آپ لوگ اتنے Barbaric (بربریت پسند) ہیں، اگر میں آپ کو ذاتی طور پر نہ جانتا تو ہماری کمپنیوں کے تجارتی تعلقات ختم ہو جاتے‘‘۔ سیالکوٹ کا بیرونی دُنیا سے تعلق ایک اور حوالے سے عیاں ہوتا ہے۔ 1980-90 ء کی دہائی میں سیالکوٹ سے چمڑے کا لباس، جدیدلیدر ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کے باعث، اٹلی یا دُوسرے ترقی یافتہ ممالک کی کوالٹی کا مقابلہ نہیں کرتا تھا۔ موٹے چمڑے سے بنی، کم قیمت لیدر جیکٹ کے اُوپر دھات کے بنے کوکے لگا کر ڈیزائن بنائے جاتے، جسے امریکہ کے شوقین موٹر سائیکل سوار پسند کرتے۔ ایسی جیکٹوں کی نہ زیادہ مانگ تھی اور نہ ہی اچھی قیمت۔ ایک روز سیالکوٹ کے ایم این اے، میاںشفیع مرحوم، جو چمڑے کی مصنوعات کے ایکسپورٹر بھی تھے، نے بتایا کہ اچانک سیالکوٹ کے برآمد کنند گان کو انہی کوکے والی موٹے چمڑے کی جیکٹ کے بے تحاشا آرڈر ملنا شروع ہوگئے۔ امریکی امپورٹر زیادہ قیمت دینے کو تیار تھے۔ سیالکوٹ کی کمپنیوں کے پاس تیار سٹاک چند دنوں میں ختم ہو گیا مگر مانگ میں کمی نہ آئی۔ تحقیق پر پتا چلا کہ کسی مشہور امریکن گلوکار، میڈونا یا مائیکل جیکسن نے یہی جیکٹ پہن کر امریکہ میں گانا گایا اور سیالکوٹ کی قسمت جاگ اُٹھی۔ پرستاروں نے ویسی جیکٹ حاصل کرنا چاہی جو صرف سیالکوٹ میں بنتی تھی۔
ایک دفعہ امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے دورِ صدارت میں سیالکوٹ کے روشن خیال صنعت کاروں کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا۔ پس منظر میں کھیلوں کے سامان اور لباس کے حوالے سے مشہور انٹرنیشنل کمپنی Nike (نائیکی) اور سیالکوٹ کی ساگا سپورٹس کے درمیان تجارتی تعلقات سے جُڑا ایک معاہدہ تھا۔ 1980ء کی دہائی میں ساگا سپورٹس کے مالک، صوفی خورشید مرحوم کی کوشش سے Nike (نائیکی) نے پاکستان سے فٹ بال منگوانے شروع کئے۔ مخالف کمپنیوں نے چائلڈ لیبر کا الزام لگا کر پراپیگنڈہ کیا کہ (نائیکی) کے فٹ بال کم عُمر بچے تیار کرتے ہیں۔ دُنیا کے مشہور رسالے ٹائم میں چھپی ایک تصویر یاد آ رہی ہے، جس میں دس بارہ سالہ بچہ فٹ بال کی سلائی کرتا نظر آ رہا تھا۔ پراپیگنڈہ اِس حد تک شدید تھا کہ (نائیکی) نے اپنی بین الاقوامی ساکھ بچانے کی خاطر سیالکوٹ کی فیکٹری کے لیے لازم قرار دیا کہ فٹ بال بنانے کے عمل کی نگرانی، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO)اور بین الاقوامی اداروں کے ذریعے کی جائے، ورنہ امریکی کمپنی، ساگا سپورٹس سے تجارتی معاہدہ ختم کر دے گی۔اِن شرائط کو تسلیم کرنا ایک مہنگا عمل تھا۔ مگر ساگا سپورٹس نے امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں ہونے والے معاہدے کی کڑی شرائط پوری کیں۔ صنعتکار اِس امتحان میں بھی سرخرو ہوئے۔خورشید صوفی کی رحلت کے بعد، آج بھی، سیالکوٹ کی ایک اور کمپنی، نائیکی کے لیے فٹ بال تیار کر رہی ہے۔
سیالکوٹ کے صنعتکاروں نے ماضی میں حیرت انگیز کام کیے۔ اُنہیں برآمدی سامان کو بیرونِ ملک بھیجنے کی خاطر بار بار کراچی آنا پڑتا۔ مطالبہ تھا کہ سیالکوٹ میں ڈرائی پورٹ قائم کی جائے۔ وزارتِ صنعت اور پاکستان ریلوے کے اربابِ اختیار مالی وسائل کی عدم دستیابی کا رونا روتے۔ آخر کا ر صنعت کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک کمپنی قائم کی، وسائل جمع کیے اور سیالکوٹ میں ڈرائی پورٹ بنا لی۔ کئی سال بعد، جب ایئر پورٹ کے مطالبے پر شنوائی نہ ہوئی تو اسی طرز پر صنعت کاروں نے اکٹھے ہو کر پیسے جمع کیے اور آج سیالکوٹ ایئر پورٹنہ صرف سیالکوٹ بلکہ ملحقہ علاقوں کے مسافروں کو بھی بیرونِ ملک ہوائی سفر کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ آئندہ کالم میں سیالکوٹ کی برآمدی صنعت کو درپیش اُن مشکلات کا ذکر کروں گا جو سیالکوٹ کے روشن خیال صنعت کار اپنے بل بوتے پر حل نہیں کر سکتے۔ ہم اگربار بار آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانے سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک جامع پالیسی کے تحت برآمدات بڑھانے پر توجہ دینا ہو گی۔