عالمی ادارئہ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال دُنیا بَھر میں 24مارچ کو تپِ دق (Tuberculosis)کا عالمی یوم منایا جاتا ہے۔ رواں برس، اس دِن کے لیے جس تھیم کا اجراء کیا گیا ہے، وہ ،"Invest to End TB. Save Lives" ہے۔یعنی ’’تپِ دق کے خاتمے کے لیے سرمایہ کاری کریں، زندگیاں بچائیں‘‘۔
انسانی زندگی اپنے آغاز ہی سے جہاں مختلف بیماریوں اور وباؤں سے نبرد آزما رہی، وہیں علاج اور بچاؤ کے طریقے دریافت کرنے کے لیے تحقیق کا سفربھی طے کرتی رہی۔ یہ اور بات ہے کہ جدوجہد کی اس راہ میں کئی انسانی جانیں ان امراض سے لڑتے لڑتے ہار بھی گئیں،لیکن انسانی جان بچانے کی کاوشیں کبھی تاخیر تو کبھی جلد کام یابی سے ہم کنار بھی ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو امراض ازمنۂ قدیم میں جان لیوا تصوّر کیے جاتے تھے،اب نہ صرف قابلِ علاج ہیں، بلکہ ان سے بچاؤ کی ویکسی نیشنز بھی موجود ہیں۔
ان قدیم اور متعّدی امراض میں ایک مرض تپِ دق بھی ہے، جس نے ماضی میں بستیوں کی بستیاں اُجاڑ دیں۔اس مرض کے قدیم ہونے کا اندازہ اُس تحقیقی رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جس کے مطابق قبل از مسیح کی ممیوں کی ریڑھ کی ہڈی کے مُہروں میں بھی ٹی بی کے جراثیم پائے گئے ۔جب تک تپِ دق کی حتمی وجوہ اور علاج دریافت نہیں ہوا تھا، مرض کے لاحق ہونے کی مختلف وجوہ سامنے آتی رہیں ۔ کبھی اسے بھوت پریت، آسیب، غم یا پریشانی کا نتیجہ قرار دیا جاتا ،تو کبھی گلے سڑے پھل، سبزیاں اور اجناس کا استعمال اس کی وجہ قرار پاتا۔
اسی سبب ماضی میں ٹی بی کے مریضوںکو اچھوت سمجھ کر آبادیوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا تھا، جب کہ ماضی قریب میں سینیٹوریمز اس کی مثال ہیں، جہاں ایسے مریضوں کو اس اُمید پر داخل کیا جاتا کہ شایدمتوازن غذا کے استعمال، بَھرپور آرام اور ذہنی سُکون کی بدولت مریض صحت یاب ہوجائیں گے، مگر یہ سب اندازے ہی تھے۔
بہرکیف، 1882ء میں رابرٹ کاخ (Robert Khock) نامی ایک سائنس دان نے اپنی مسلسل تحقیق کے ذریعے ایک نہایت باریک، خم دار اور جوڑے کی شکل میں رہنے والا سخت جان جرثوما "Bacilli" دریافت کیا، جو درحقیقت تپِ دق کے خلاف وہ پہلی کام یابی تھی، جس نے اس موذی مرض کے علاج اور صحت یابی کے امکانات روشن کردئیے۔ پھر علاج کے ضمن میں 1943ء میںSelman Waksmanنامی سائنس دان نے انجیکشن کی صُورت ایک مخصوص دوا متعارف کروائی، جس پر اسے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔
اس کے بعد 1952ء1961ء اور 1966ء میں بھی نہایت مؤثر اور دافع مرض ادویہ متعارف ہوئیں۔یاد رہے،1921ء میں ایک ویکسین بی۔ سی۔جی (Bacillus Calmette–Guerin) بھی تیار ہوئی، جو نوزائیدہ اور کم عُمر بچّوں کے لیے تھی۔ اسی ویکسین کی بدولت کم و بیش دس سے پندرہ سال کے لیے خاص طور پر اس بیماری کی شدیدنوعیت کے خلاف 80فی صد مدافعت پیدا ہونے لگی۔
تپِ دق کے جراثیم چوں کہ ہوا کے ذریعے ایک فرد سے دوسرے فرد تک منتقل ہوتے ہیں، اس لیے جب مریض کھانستا، چھینکتا، تھوکتا، گاتا، چیختا یا چلّاتا ہے، تو جراثیم ہوا میں تحلیل ہوکر کسی دوسرے فرد کو متاثر کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ٹی بی کا ایک مریض سال بھر میں گیارہ سے بارہ صحت مند افراد میں اپنا مرض منتقل کرسکتا ہے۔ اور ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں دو ارب افرادکے(جو دُنیا کی کل آبادی کا کم و بیش تیسرا حصّہ ہیں) پھیپھڑوں میں ٹی بی کا جرثوما پایا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان افراد میں یہ جرثوما موجود تو ہے، لیکن فعال نہیں۔ یاد رکھیے، تپِ دق کے جراثیم تب فعال ہوتے ہیں، جب قوّتِ مدافعت کم زور پڑجائے، تو ہر سال ایسے افراد میں سےلگ بھگ ایک کروڑ میں یہ جرثوما فعال ہوجاتا ہے اور پھر ان میں سے تقریباً 16لاکھ جان کی بازی ہار بھی جاتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا پُھوٹنے کے بعد سے تپِ دق دوسری بڑی متعدّی بیماری (انفیکشیئس ڈیزیز) کے طور پرجانی جاتی ہے۔
اس مرض کی شرح افریقا اور ایشیا کے کم آمدنی والے مُمالک میں بُلند ہے اور یہ مرض اُن افراد کو جلد متاثر کرتا ہے، جو ایڈز، ذیابطیس یا پھر غذائیت کی کمی کا شکار ہوں۔ علاوہ ازیں، منشیات اور تمباکو نوشی کی عادی افراد بھی ہائی رسک میں شمار کیے جاتے ہیں ۔تپِ دق سے متاثرہ مُمالک میں پاکستان کا شمار پانچویں نمبر پر کیا جاتا ہے کہ یہاں سالانہ چار سے پانچ لاکھ افراد اس عارضے کا شکار ہورہے ہیں اور ہر ایک لاکھ مریضوں میں سے 34 لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں ٹی بی کی بُلند شرح کے اسباب میں سرِ فہرست تشخیص میں تاخیر، غیر معیاری علاج، ادویہ کی کم یابی، علاج سے گریز اور مستند علاج تک رسائی نہ ہونا ہیں۔ تپِ دق کی مستقل علامات میں مسلسل دوہفتے یا اس سے زائد مدّت تک بخار(خاص طور پر شام کے وقت زیادہ ہو اور پسینہ بھی آئے)جو باقاعدہ علاج سے ٹھیک نہ ہو، بھوک نہ لگنا، وزن کم ہوجانا ،خون کی کمی، شدید کم زوری اور تھکاوٹ کا احساس وغیرہ شامل ہیں۔ عمومی طور پر ٹی بی کا مرض80فی صد تک تو سانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں ہی کو متاثر کرتا ہے، لیکن یہاں سے جسم کے دیگر حصّوں تک منتقل ہونے کا سبب بھی بنتا ہے، جب کہ کسی مخصوص عضو کی ٹی بی میں اس عضو کی اپنی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔مثلاً:
٭سانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں کی ٹی بی :اس صُورت میں مستقل علامات کے ساتھ مسلسل دو ہفتے یا اس سے زائد مدّت تک کھانسی، جو درست علاج کے باوجود ٹھیک نہ ہو، بلغم کا اخراج، بلغم میں کبھی کم یا زائد مقدار میں خون،پیپ کا اخراج، سانس پُھولنا اور سینے میں درد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
٭غدود کی ٹی بی :اس میں ٹی بی کے جراثیم پھیپھڑوں کے ذریعے لمفیٹک(lymphatic)میں داخل ہو کر، خاص طور پر گردن اور بغل کے غدود متاثر کردیتے ہیں۔ اس صُورت میں غدود متوّرم ہوکر آپس میں جُڑ جاتے ہیں، ان میں درد ہوتا ہے اور بعض اوقات ان سے خون اور پیپ بھی خارج ہوتی ہے۔
٭ ہڈیوں، جوڑوں کی ٹی بی:اس کی وجہ بھی بالعموم پھیپھڑے ہی ہوتے ہیں۔ اس ٹی بی میں خاص طور پر ریڑھ کی ہڈی زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ ہڈیاں متوّرم، کم زور ہوجاتی ہیں اور ان میں درد بھی ہوتا ہے۔ بعض اوقات فالج کےامکانات بھی بڑھ جاتے ہیں ۔
٭دماغ کی ٹی بی:اگر کوئی فرد دماغی ٹی بی کا شکار ہو جائے،تو اس کی علامات میں سرِ فہرست شدید سَردرد اور اُلٹیاں ہیں۔ بعض اوقات مریض کو جھٹکے لگتے ہیں اور دورے بھی پڑسکتے ہیں۔
٭آنتوں اور جگر کی ٹی بی:اس کی عام علامات میں یرقان کی کیفیت، پیٹ میں درد، شدید اُلٹیاں، اسہال، پاخانے میں خون کا اخراج شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پیٹ کے مخصوص نظامMesentery کے متاثر ہونے سے پیٹ میں پانی بھی بَھر سکتا ہے۔ یہی حال جگر کے متاثر ہونے سے بھی ہوتا ہے۔
٭گُردے اور مثانے کی ٹی بی: ان اعضاء کی ٹی بی میں عمومی طور پر جو علامت ظاہر ہوتی ہے، وہ پیشاب میں بغیر کسی تکلیف کے خون کا اخراج ہے، جب کہ کبھی کبھار پیشاب میں جلن بھی محسوس ہوتی ہے۔
٭تولیدی اعضاء کی ٹی بی :اس قسم کی تپِ دق کی علامات میں خواتین میں ماہ واری کی خرابی، حاملہ ہونے کی صلاحیت سے بعض اوقات مستقل محرومی، تولیدی اعضاء میں درد، جب کہ مَردوں میں تولیدی صلاحیت کا ختم ہو جانا، تولیدی اعضاء میں درد اور سُوجن شامل ہیں۔
٭جِلدی ٹی بی:اس ٹی بی کی شرح کم پائی جاتی ہے۔ اس کی عام علامت میں جِلد پر زخم بننا ہے۔ یہ زخم جِلد پر سُوجن کی صُورت اُبھرتے ہیں اور آس پاس پھیلتے چلے جاتے ہیں۔یعنی ناسور کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔
تپِ دق کا مرض بچّوں کو بھی متاثر کرتا ہے، مگر ان میں مرض کی علامات بڑوں کی نسبت قدرے مختلف ظاہر ہوتی ہیں، جیسا کہ مستقل علامات کے ساتھ بچّے سُستی، بے زاری اور چڑچڑے پَن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر علاج کا ذکر کریں تو اب تک دریافت شدہ پانچ ادویہ میں سے کم از کم چار پہلے مرحلے میں دو سے تین ماہ تک تجویز کی جاتی ہیں۔ ان ادویہ سے افاقے کی صُورت میں بقیہ دو چھے سے اٹھارہ ماہ تک(جس نوعیت کا کیس ہو، اُس کے مطابق)مستند معالج کی زیر نگرانی استعمال کروائی جائیں۔
عام ادویہ کی طرح ٹی بی کی دوا کے بھی سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں، جو بالعموم قابلِ برداشت اور قابلِ علاج ہیں۔ اگر خدانخواستہ تپِ دق کی کوئی دوا زیادہ نقصان دہ ثابت ہو، تو مستند معالج کی مستقل نگرانی میں علاج کیا جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر ادویہ کے استعمال میں کوتاہی برتی جائے یا پھر علاج ادھورا چھوڑ دیا جائے، توکئی طرح کی پیچیدگیوں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ پھیپھڑوں کی پیچیدگیاں میں سانس پُھولنا، پھیپھڑوں میں ہوا، پانی بَھر جانا، زخم بننا اور زخموں سے کم یا زائد مقدار میں خون یا پیپ کا اخراج وغیرہ شامل ہیں۔ واضح رہے، یہ تمام تر پیچیدگیاں فوری اسپتال میں داخلے کی متقاضی ہیں اور اکثر اوقات ان پیچیدگیوں پر قابو پالیا جاتا ہے۔
بعض اوقات ٹی بی کی ادویہ استعمال کرنے کی باوجود افاقہ نہیں ہوتا،جس کا یہ مطلب ہے کہ جراثیم نے ادویہ کے خلاف اپنے اندر مزاحمت (Resistant) پیدا کر لی ہے، جسےطبّی اصطلاح میں ملٹی ڈرگ ریزیسٹینٹ ٹی بی(Multi Drug Resistant TB) کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہےکہ خاص طور پر دو مخصوص ادویہ کے خلاف یہ مزاحمت نہایت مُہلک ثابت ہوتی ہے۔ واضح رہے، ایم ڈی آر ٹی بی کا مریض اپنے جراثیم کسی صحت مند فرد میں منتقل کرکے اُسے بھی ملٹی ڈرگ ریزیسٹینٹ ٹی بی میں مبتلا کرسکتا ہے۔
اس قسم کی ٹی بی سے متاثرہ مُمالک میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں تقریباً 5لاکھ سے زائد مریض ملٹی ڈرگ ریزیسٹینٹ ٹی بی کا شکار ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق چین، بھارت، روس، ایشیائی اور افریقی مُمالک سے ہے۔ پاکستان میں ان مریضوں کی تعداد 25 سے 30ہزار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ عام ٹی بی کے برعکس ایم ڈی آر ٹی بی کا علاج منہگا اور دورانیہ بھی طویل ہے۔ یعنی دو برس تک مریض باقاعدگی سے ادویہ استعمال کرتا ہے۔ ان ادویہ کے ضمنی اثرات بھی بے حد تکلیف دہ ہیں اور بعض اوقات نا قابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔
مثلاً نفسیاتی و جسمانی عوارض، گُردوں اور سماعت کی خرابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مکمل علاج کے باوجود بھی زیادہ سے زیادہ60 فی صد مریض ہی شفایاب ہوتے ہیں۔زیادہ تر کیسز میں ایم ڈی آر ٹی بی کی وجہ مریض یامعالج کی کوتاہی یا غفلت ہی بنتی ہے۔ جیسا کہ اگر عام ٹی بی کی تشخیص کے بعد غیر معیاری ادویہ تجویز کی جائیں، ادویہ کے استعمال میں ناغہ کیا جائے، مریض اور معالج کا باقاعدہ طور پر رابطہ نہ ہو اور ہدایت کے برعکس دوا استعمال کی جائے، تو تحقیق کے مطابق 18 سے 20 فی صد زیرِعلاج مریضوں میں عام ٹی بی ،ایم ڈی آر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ملٹی ڈرگ ریزیسٹینٹ ٹی بی کی علامات عام ٹی بی جیسی ہی ظاہر ہیں، البتہ ان کی نوعیت شدید ہوتی ہے۔ اس ٹی بی کی تشخیص کے لیے مخصوص لیبارٹری ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں۔مثلاً جین ایکسپرٹ ٹیسٹ (Genexpert Test)اور کلچر اینڈ سینسٹیویٹی ٹیسٹ(Culture And Sensitivity Test) ۔یہ ٹیسٹ منہگے بھی ہیں اور ان کا طریقۂ کار بھی خاصا پیچیدہ ہوتاہے۔ ایم ڈی آر ٹی بی کے علاج کے ضمن میں ماہرین جدید اور فوری طور پر اثرانداز ہونے والی ادویہ متعارف کروانے کے لیے شب و روز تحقیق میں مصروف ہیں، جس میں کافی حد تک کام یابی بھی حاصل کی جاچُکی ہے۔
ٹی بی کا مکمل علاج ہی دراصل اس سے تحفّظ ہے،کیوں کہ جب تک کرۂ ارض پر ٹی بی کا ایک بھی مریض موجود ہوگا، بیماری کے پھیلاؤ کے امکانات باقی رہیں گے، لہٰذا جوں ہی کسی میں تپِ دق کی علامات ظاہر ہوں، تو تاخیر کیے بغیر کسی مستند معالج یا مرکزِ صحت سے رابطہ کیا جائے۔ اگر ٹیسٹ رپورٹ پازیٹیو ہو، تومعالج کی ہدایت کے مطابق دوا استعمال کریں۔اپنے معالج سے مسلسل رابطے میں رہیں۔
ایک اور بات کا بھی دھیان رہے کہ جب مریض ادویہ استعمال کرنا شروع کردے،تو خاص طور پرابتدائی دنوں میں منہ ڈھانپ کر رکھے۔ متوازن غذا کا استعمال کریں، زیادہ سے زیادہ ہوادار جگہ پر رہیں،حتی الامکان ہجوم سے گریز کریں،حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کیا جائے اور اگر ویکسی نیشن نہیں کروائی ،تو فوراًکروالیں۔اس کے علاوہ حکومت ،ماہرینِ صحت، مخیر ادارے اور افراد، مذہبی رہنا، کھلاڑی، سیاست دان، قومی شخصیات اور پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا بھی مل جُل کر اپنا اپنا کردار ادا کریں، تاکہ اس مرض کا قلع قمع کیاجاسکے۔
عالمی ادارۂ صحت نے ٹی بی کے خاتمے کے لیےایک حکمتِ عملی"End tb strategy 2035" ترتیب دی ہے ،جس کےتحت 2035ء تک تپِ دق کے پھیلاؤ اور اموات کی شرح پر قابو پانے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ اگرچہ کووِڈ-19کی ہول ناک وبا نےانسدادِ ٹی بی پروگرام کو خطرے میں ڈال دیا ہے، لیکن بہرحال اُمید کی جاسکتی ہے کہ رواں برس کے منتخب کردہ تھیم کو مشن بنا کر اس موذی بیماری سے نجات حاصل کر لی جائے گی۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ سینہ اور تپِ دق ہونے کے ساتھ سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر، اوجھا انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیزز ہیں)