• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
6ستمبر کے حیات آفریں مناظر سے میری روح اپنے اندر ایک عجیب آسودگی محسوس کر رہی تھی کہ 9ستمبر کی سحرکاریوں نے مجھے ایک نئے عہد کا مژدہ سنایا۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے فوجی سپہ سالار جی ایچ کیو سے خطاب کرنے کے بجائے یومِ والدین کے موقع پر ملٹری کالج سوئی پہنچ گئے جو بلوچ نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیر بنتے جا رہے ہیں۔ اِس تقریب میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بہت خوش خوش نظر آئے کہ وہ ایک نئی تاریخ طلوع ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل کیانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج سے ڈیڑھ سال پہلے ہم نے ملٹری کالج سوئی کا افتتاح اِس مقصد سے کیا تھا کہ معیاری تعلیم کی روشنی بلوچستان کے اِس پس ماندہ علاقے تک پہنچائیں گے اور نوجوان نسل کو قومی دھارے میں آنے اور اپنے صوبے کی ترقی اور خوشحالی میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔ اُن کا یہ انکشاف بے حد حوصلہ افزا تھا کہ ہمارے ملک میں پہلے ملٹری کالج کا قیام جہلم میں آج سے 88سال پہلے عمل میں آیا تھا اور مجھے اِس میں تعلیم حاصل کرنے کا اعزاز ملا۔ اِس کے بعد گزشتہ پانچ برسوں میں ہم نے دو ملٹری کالج قائم کیے  ایک مری اور دوسرا سوئی میں۔ سوئی میں ملٹری کالج کا قیام ایک مشکل خواب تھا  مگر ہم تمام رکاوٹیں دور کرنے میں کامیاب رہے اور اِن شاء الله آج کا ملٹری کالج سوئی مستقبل کی فوجی قیادت پیدا کرنے میں ایک موٴثر کردار ادا کرے گا۔
تقریب میں شامل والدین ،طلبہ اور عمائدین کے چہرے خوشی سے دمک اُٹھے تھے اور اُن کی آنکھوں میں مستقبل کے حسین خواب سجے ہوئے تھے۔ اِس باہمی یگانگت کی فضا میں جنرل کیانی کہہ رہے تھے کہ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم صوبہ ہے  الله تعالیٰ نے اِس خطے کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے اور یوں ایک مضبوط اور خوشحال بلوچستان ہی پاکستان کی مضبوطی کا ضامن ہے۔ افواجِ پاکستان نے اپنے محدود وسائل بروئے کار لاتے ہوئے صوبے میں امن کے قیام اور معاشی اور تعلیمی ترقی میں ایک اہم رول ادا کیا ہے اور اُن کی آرزو یہ ہے کہ بلوچستان کو پاکستان کے دوسرے صوبوں کا ہم پلہ بنایا جائے۔ فوج کے سپہ سالار نے بتایا کہ اِس وقت بیس ہزار سے زائد بلوچی طلبہ بلوچستان کے مختلف شہروں میں قائم آرمی اور ایف سی کے سکولوں اور انسٹی ٹیوٹس میں زیرِ تعلیم ہیں۔اِن نوجوانوں کو پاک فوج بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی تعلیم  رہائش  خوراک اور طبی سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔
یہ پہلو نہایت خوشگوار اور طمانیت بخش ہے کہ پاک فوج بلوچستان کی معاشی ترقی میں بھی حتی الوسع اعانت فراہم کر رہی ہے اور مختلف منصوبوں کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جا رہا ہے۔ اُن کی اوّلین کوشش ہے کہ بلوچ نوجوان مزدور بن جانے کے بجائے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے قومی قیادت فراہم کریں۔ جنرل کیانی نے فوج کی کمان سنبھالتے ہی بلوچستان کے معاملات سنوارنے میں ذاتی کردار ادا کرنا شروع کیا اور اب فوج میں بلوچستان کو پوری نمائندگی حاصل ہو چکی ہے۔ اُنہوں نے بلوچستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں زبردست کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں قومیت پرست جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہو کر قومی دھارے میں شامل ہو گئی ہیں اور ایک خوشنما سیاسی منظر نامہ وجود میں آتا جا رہا ہے۔ جنرل کیانی نے والدین کی تقریب میں خطاب کے دوران بڑے اعتماد سے اعلان کیا کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جناب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ راہنمائی کے لیے موزوں ترین شخصیت ہیں۔
6ستمبر کے تین روز بعد اسلام آباد میں اے پی سی کے موقع پر جو مناظر پوری قوم نے دیکھے  وہ سیاسی بلوغت اور قائدانہ ویژن کا حسین مرقع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم وزیرداخلہ اور وزیراطلاعات نے بڑی بالغ نظری اور ہنرمندی سے وہ کارنامہ سرانجام دیا جو ہماری تاریخ کا دھارا نئی عظمتوں کی طرف موڑ سکتا ہے۔ اے پی سی کی آٹھ نکاتی قرارداد کی قومی اور عالمی اہمیت اپنی جگہ  مگر جس ماحول میں اِس کا انعقاد ہوا  وہ سیاسی بُردباری اور دانش مندی کے علاوہ عسکری قیادت کی ژرف بینی اور آئین سے وابستگی کا ثمرہ بھی تھا۔ جنرل کیانی نے کسی لاگ لپٹ کے بغیر کہا کہ پالیسی بنانا سیاسی قیادت کی ذمے داری ہے اور اُسے عملی جامہ پہنانا ریاستی اداروں کا کام ہے۔ اِس کا صاف مطلب یہ تھا کہ پارلیمنٹ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی وضع کرنے میں پوری طرح آزاد ہے۔ اِس طرح اے پی سی میں سول حکومت کی بالادستی قائم ہوئی اور پوری دنیا کو یہ پیغام چلا گیا کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات نہایت خوشگوار اور حقیقت پسندی پر استوار ہو چکے ہیں۔
اے پی سی نے ہماری سیاست میں ایک خاموش انقلاب برپا کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور عمران خاں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے جبکہ وہ ایک دوسرے کی دشمنی پر تُلے ہوئے تھے۔ طویل عرصے کے بعد چودھری شجاعت حسین اور نوازشریف ایک دوسرے کے قریب دکھائی دیے۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اور متحدہ کے ڈاکٹر فاروق ستار کے مابین دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ جناب اخترمینگل فوجی قیادت سے پُرجوش انداز میں ملے۔ یہ سارا کام داخلی جذبے سے سرانجام پایا ہے اور پوری قومی قیادت نے اِس امر پر اتفاق کیا ہے کہ پہلے امن کو موقع دیا جائے اور قبائلی علاقے میں اپنے لوگوں سے مذاکرات کیے جائیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز اعتماد میں لیے جائیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ تمام ناراض بلوچ لیڈروں سے جو ملک میں ہیں یا جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں  اُن سے مذاکرات کیے جائیں۔ اِسی طرح خیبر پختونخوا کی حکومت پر ذمے داری عائد کی گئی ہے کہ وہ قبائلی علاقے میں اپنے لوگوں سے بات چیت کریں اور قیامِ امن کو یقینی بنانے کے لیے تمام آپشن بروئے کار لائیں۔ ہم سیاسی بصیرت اور عسکری عزیمت کو سلام پیش کرتے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ قوم کے اندر جو اتحاد پیدا ہوا ہے  اِس کے مثبت اثرات جلد برآمد ہوں گے۔ اے پی سی کی متفقہ قرارداد میں پوری سیاسی قیادت نے وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار اور افواجِ پاکستان کی بے مثال قربانیوں کا اعتراف اور اُن کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عزم کیا ہے۔
ماضی کے تجربات بہت زیادہ ہوشمندی کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ حقیقت اب سبھی کو معلوم ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ایک درجن کے لگ بھگ امن معاہدے ہوئے  مگر بیل منڈھے نہ چڑھی اور زیادہ تر فائدہ عسکریت پسندوں کو پہنچا۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تین درجن سے زائد دہشت گرد گروپ سرگرم ہیں اور اُن کے ایجنڈے جدا جدا ہیں۔ خود طالبان پاکستان کے اندر بھی گروہ بندیاں ہیں اور اُن کے مطالبات بھی عجیب و غریب ہیں  اُن جیسے لوگوں کو مذاکرات کی میز پر لانا کچھ سہل نہیں ہو گا۔ہمارے بعض سنکی اور تنک مزاج تجزیہ نگار اے پی سی کی قرارداد کو سرنڈر کی دستاویز سے تعبیر کر رہے ہیں جبکہ وفاق المدارس کے منتخب نمائندے اِس اعلامیے کو مستقبل میں قیامِ امن کے لیے سنگِ میل تصور کرتے ہیں۔اِس نوع کے تبصرے ہوتے رہیں گے۔ بنیادی ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیاسی قیادتوں نے جس تدبر اور معاملہ فہمی کا ثبوت دیا ہے  اُس کی بنیاد پر حکومت ہر قدم سوچ سمجھ کر اُٹھائے اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے۔ کراچی میں جو آپریشن مناسب تطہیر اور بڑے کروفر سے شروع کیا گیا  بند گلی میں داخل ہو چکا ہے اور سیاسی طاقت آزمائی کے خطرناک اسباب پیدا کر رہا ہے  مگر ماحول میں اپنی تقدیر بدل دینے کی جو تمنا مچل رہی ہے  اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہا پسندوں کے قابلِ ذکر گروہ مذاکرات کے ذریعے قومی دھارے میں آ جائیں گے اور ڈرون حملوں کے خلاف سلامتی کونسل میں جانے سے عالمی رائے عامہ پاکستان کے حق میں منظم ہوتی جائے گی۔
تازہ ترین