• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاف کیجیے گا پاکستان کہنے کی حد تک جمہوری ملک ہے وگرنہ یہاں جمہوریت نام کا کوئی نظام سرے سے نہیں۔ ملک میں اس وقت جو صورتِ حال بنی ہوئی ہے اس میں اگر امکانی طور پر 28مار چ کو عدم اعتماد کا مارچ ہو بھی جاتا ہے تو اپوزیشن کے پاس جمہوری ملک کی اپوزیشن کی طرح کوئی شیڈو کابینہ نہیں ہے’ وزیراعظم کون ہوگا‘ جوتیوں میں دال بٹے گی۔ وزراء حصہ بقدرِ جثہ اور وزارتیں بولیاں لگنے پر ملیں گی۔ فیصلہ تو نوازشریف نے لندن سے فوراً آتے ہی کرنا ہے تاہم صدر اِک واری فیر زرداری ہوںگے۔ سب کہنے کی باتیں ہیں ہوگا وہی جو تلملاتا ہوا امریکہ چاہے گا’سب سے زیادہ نقصان اسی کو ہوا ہے افغانستان تو ہاتھ سے گیا‘ پاکستان بھی نکل رہا ہے۔ عمران خان نے امریکہ سے جان خلاصی کرالی ہے۔ یورپی یونین کو بھی حقیقت پسندانہ جواب دے دیا ہے جس پر اپوزیشن رہ نما سیخ پا ہیں۔جیسے یورپی یونین کی پاکستان کوئی کاؤنٹی ہے۔ اب تاش کے ظاہر ہوتے پتوں کی بازی الٹے نہ الٹے چہروں سے نقاب ضرور اترگئے ہیں۔ عدم اعتماد نہ سہی اجتماعی استعفوں کا آپشن تو کھلا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا ہے کہ عدم اعتماد سے ایک دن پہلے ڈی چوک میں انسانوں کا سمندر ہو گا اور میں قوم کو بتاؤں گا کہ یہ لوگوں کے ضمیر خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جوابا ً اپوزیشن رہنمابلاول بھٹو زرداری، شہبازشریف اورمولانا بھی ایسے ہی تاریخی جملے کہہ چکے ہیں۔اب اگر اپوزیشن عدم اعتماد کے معاملے سے پھر گئی تو وہ اجتماعی استعفوں کا آپشن استعمال کرے گی اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کو بھی اس اجتماعی سیاسی خودکشی کا حصہ بنانے کی سر توڑ کوشش کرے گی۔ پونے چار سال اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہ آسکا اور انہوں نے عوام کی نمائندگی کا حق بھی ادا نہیں کیا۔ اب حرص اقتدار میں وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم نے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے، بہت جلد اس وزیر اعظم سے چھٹکارا ملے گا اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل شروع ہوگا۔ شہباز شریف نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پاکستان کے عوام نے جمع کرائی ہے، اس کے ثمرات بھی عوام کو ملیں گے، اپوزیشن نے اپنا جمہوری او رآئینی حق استعمال کیا ہے۔ اس کی کامیابی اور ناکامی بعد کی بات ہے، تاہم حقیقت یہی ہے کہ دو سو پانچ اراکین کی دعویدار اپوزیشن شاید عدم ا عتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد اپنے ساتھیوں سے بھی ہا تھ دھو بیٹھے ۔ اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کی حمایت میں 172 ووٹ درکار ہیں۔ اپوزیشن کے پاس نو دس ارکان کی کمی ہے وہ آسمان سے تو اتریں گے نہیں حکومتی جماعت اور اس کے اتحادیوں میں ہی نقب لگانی پڑے گی جس کی کوشش روزانہ عشائیوں کی صورت میں ن لیگ کررہی ہے البتہ پیپلز پارٹی کا معاملہ’ وکھرا ‘ ہے انہوں نے اپنے ارکان کو فلم دکھائی۔ اور کچھ ہو نہ ہو اسلام آبادمیں بڑے بڑے ہوٹلوں اور کیٹرنگ کا کاروبار چمک اٹھا ہے رنگ برنگے کھانے پک رہے ہیں، بڑے ہالز، محلات اور ایوانوں میں کھانوں کی دعوتیں یارانِ خاص کیلئے عام ہورہی ہیں۔ کچھ تو کھائے پیے کا نتیجہ نکلے گا۔ 

آنے والے دنوں میں ہر شہر میں سیاسی حدت میں بلا شبہ اضافہ ہونے جا رہا ہے، حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہوں گے۔ایسی صورتحال حکومت کے لیے زیادہ مشکل ہوا کرتی ہے کیونکہ احتجاج اور لانگ مارچ کے دوران اگر کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ پیش آئے یا پھر پولیس کی جانب سے کوئی بھی کا رروائی کی جائے تو اس کا سارا ملبہ حکومت پر ہی گرتا ہے۔اس لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر رابطے کرے اور معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکا جائے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ٹریک ریکا رڈ کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ حکومت کی جانب سے ایسا کو ئی قدم اٹھایا جائے گا۔تیاری ہے۔ ڈی چوک اسلام آباد میںلاکھوں لوگوں کو جمع کرنےکی، جس کے بعد اپوزیشن بھی انتشار کی تڑی لگاچکی ہے،مولانا بھی لشکریوں کو بلارہے ہیں۔ اللہ خیر ہی کرے انسانوں کا سونامی کہیں سب کچھ ہی نہ بہا لے جائے۔

تازہ ترین